پہلے زمانے میں ڈاکو بڑے با اصول ہوتے تھے امیروں کو لوٹتے تھے اور غریبوں میں تقسیم کیا کرتے تھے۔ ماں بہن بیٹی کا احترام کرتے تھے ۔ پھر وقت بدلا اور ڈاکو بدلنا شروع ہوگئے ڈکیتی کی نوعیت بھی تبدیل ہونے لگی۔ اغوا برائے تاوان ، بھتہ ، سپاری اور قتل جیسی ڈکیتیاں شروع ہوگئیں۔ گزارا پھر بھی ہورہا تھا۔ لیکن جو اگلی ڈکیتی شروع ہوئی وہ وطن فروشی کی ڈکیتی تھی۔ بس اپنے وطن کے خلاف آگ منہ سے نکالو آگ لگاؤ اور پیسے کماؤ لوگوں کو اچھے برے کی تمیز تھی وہ ان کی باتوں میں نہیں آتے تھے ۔ زیادہ غصہ آنے پر فیصلہ دے دیتے یہ لیفٹ کا آدمی ہے۔ بس بات ختم۔
پھر یوٹیوب آیا اور ففتھ جنریشن وار کا آغاز ہوگیا۔ ہر وہ انسان جس کے منہ کو کتا لگا ہوا تھا اس نے ملک اور ملک کے حفاظتی اداروں کے خلاف مدر پدر آزاد بھونکنا شروع کردیا۔ ان سب کی بہادری کا عالم یہ تھا کہ کسی این جی او کی بھی ڈبل کیبن گلی سے گزری تو یہ ملک چھوڑ دوسرے ممالک میں بھاگ گئے۔ اب وہاں بیٹھ زہر اگل رہے ہیں۔ اس ملک دشمنی میں انھوں نے بے شمار پیسہ کمایا اور انکا رہن سہن ہی بدل گیا۔ بہترین فارم ہاؤسز اور گاڑیوں کے مالک بن گئے۔ یہ تھے پکے کے ڈاکو۔
ڈاکوؤں کی دوسری نسل تھی کچے کے ڈاکو جو اغوا برائے تاوان جیسی وارداتوں میں ملوث تھے۔ سوشل میڈیا کے ملک دشمن عناصر کی دیکھا دیکھی کچے کے ڈاکوؤں نے بھی اپنا لائف سٹائل اپ گریڈ کرنے سوچ لیا۔ ڈکیتی، اغوا برائے تاوان میں اتنی آمدن نہیں تھی جتنی سوشل میڈیا ملک دشمنی میں تھی تو اب ڈاکوؤں نے بھی اپنے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم بنا لیے ہیں۔تاکہ آمدنی کے ذرائع کو بہتر کیا جاسکے۔ ملک سے باہر اور کچے کے علاقے میں پاکستانی سرکار کا کوئی عمل دخل نہیں ۔ کچھ لوگ سوچتے تھے اور سوال پوچھتے تھے کہ جو ملک سے باہر بیٹھ پاکستان کے مخالف بیانیہ بناتے ہیں ان کے خلاف کوئی ایکشن کیوں نہیں ہوتا تو جواب آتا تھا کہ ہمارے ان ممالک کے ساتھ اس طرح کے معاہدے نہیں ہیں جس میں جرائم پیشہ افراد کو گرفتار کیا جاسکے۔ بات دل کو لگتی تھی اور سمجھ آتی تھیں۔ اب دل دکھی ہے کہ کچے کا علاقہ بے شک پاکستان میں ہے پر ہمارا کوئی لیگل معاہدہ نہیں ہے کچے کے علاقے سے بھی شاید اسی طرح ہمارا کوئی معاہدہ نہیں ۔ سبسکرپشن بھی دن بدن بڑھ رہی اب گولڈ اور پلاٹینم کے بٹن بھی ان ڈاکوں کو پہنچانے ہیں ان کا ایڈریس یقیننا یوٹیوب کے پاس ہوگا جہاں وہ اپنا لوگو بھیجیں گے۔
کیا فائر وال ان کی نشاندھی نہیں کرسکتی۔ فلموں میں دیکھا جاسکتا ہے جب پولیس پر یا وردی پر کوئی ہاتھ ڈالتا ہے تو کتنا سخت ایکشن لیا جاتا ہے۔ کیا اصل میں وردی والوں کی لاشیں اٹھانے پر بھی کوئی ایکشن نہیں لے گا۔
انسپکٹر جنرل پولیس اور وزیراعلی صاحبہ کا دورہ کافی نہیں ایکشن ہونا چاہیے کچے اور پکے کے علاقے میں ۔ یوٹیوب چیننل کسی انٹرنیٹ سے ہی آپریٹ ہوتا ہوگا۔ ان سب اداروں کا کیا فائدہ جو صرف عوام کیلئے ہی رہ گئے ہیں کچے کے علاقے میں انکی کیوں نہیں چلتی۔ پولیس والے بھائیوں کی شہادتیں اور اس کا بدلہ کون لے گا ۔میری بیٹی میڈیا سائنسز کی طالبہ ہے آج وہ سارا دن مجھ سے سوالات کرتی رہی۔یہ ڈاکو کہاں رہتے ہیں، یہ زندگی کیسے گزارتے ہیں،یہ کچے کا علاقہ کہاں ہے اس پر کنٹرول کس کا ہے۔ میرا جواب تھا ڈاکوؤں کا۔