“فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں” ۔۔۔نعیم قاسم

جس طرح عوام کی اکثریت سے محروم سیاسی جماعتوں کے غیر فطری اتحاد سے موجودہ حکومتی بندوبست تشکیل دیا گیا ہے اسکی وجہ سے ملک مسلسل سیاسی، معاشی اور انتظامی لحاظ سے بحرانی کیفیت کا شکار ہے جسکی وجہ سے ملک میں ایک طرف عدالتی بحران جنم لے چکا ہے تو دوسری طرف دھشت گردی کی وجہ سے ہمارے سول اور سیکیورٹی اداروں کو کبھی دہشت گرد تو کبھی ڈاکو بے دردی سے شہید کر رہے ہیں پنجاب کی صوبائی حکومت کے اقدامات وفاق سے منظوری کے بغیر اٹھائے جا رہے ہیں جس پر دوسرے صوبوں کی حکومتوں کو شدید تحفظات ہیں ایک طرف پنجاب حکومت نے دو مہینے کے لیے بجلی کے ریلیف کا اعلان کر کے دوسرے صوبوں کے عوام کی آرزوؤں کا خون کیا اور پنجاب کی وزیر اعلیٰ نے سندھ کے وزیر اعلیٰ کو کرپشن کے طعنے دیئے اور کہا کہ دوسرے صوبے بھی اس نیک کام میں تقلید کریں مگر اب سیاسی سٹنٹ اور اشتہار بازی کے بعد ان نوے فیصد صارفین کو رعایت سے انکار کر دیا گیا ہے جن کے ہاں تھری فیز میٹر لگا ہوا ہے وہ غریب جو فلیٹس یا بڑی رہائشی عمارات کے ایک دو کمروں میں رہتے ہیں مگر اس عمارت پر ایک ہی تھری فیز میٹر لگا ہوا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہاں مستحق صارفین رعایت کے مستحق نہیں ہیں اور اگر کسی امیر شخص نے فا لتو سنگل فیز میڑ بھی لگا یا ہوا ہے تو اسے رعایت مل جائے گی جب گورنس کرنے والے جاب آن ٹریننگ ہوں اور عثمان بردار پلس ہوں تو کیسے پنجاب جیسے بڑے صوبے کے عوام کو دیرپا ریلیف مل سکتا ہے پولیس کچے کے ڈاکوؤں کو تو پکڑ نہیں سکتی ہے تا ہم سیاسی کارکنوں کے گھروں پر چھاپے مار کر انہیں زدوکوب کرنے اور جھوٹے پرچے درج کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی ہے مگر طاقتور کے سامنے بقول محمد بخش ع” لسے دا کی زور محمد نس جانا یا رو پہنا”کے معقولے پر عمل پیرا ہو جاتی ہے اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات سے راہ فرار، سپریم کورٹ میں انجینئرنگ، آئی ایم ایف کو تین سے پانچ بلین ڈالرز کے حصول کی محفوظ گارنٹی جیسے مسئلوں میں الجھی حکومت کو اس بات کا ادراک ہی نہیں ہو رہا ہے کہ کس طرح صوبوں کے عوام میں قومیت پرستی کی وجہ سے شدید نفرتیں جنم لے رہی ہیں پنجابی لوگوں کے شناختی کارڈ دیکھ کر انکا قتل عام کرنے والے دہشت گرد جو سنگدالانہ فعل انجام دے رہے ہیں اس کا سب سے بڑا نقصان وہ بلوچ لوگوں کا ہی کر رہے پنجاب کے عام عوام بھی اسی طرح اپنے حقوق سے محروم ہے جس طرح دوسرے صوبوں کے غریب عوام لاکھوں بلوچ اور پختون پنجاب اور کراچی میں آباد ہیں کاروبار کر رہے ہیں مگر ان کے ساتھ مقامی لوگ کوئی تعصب نہیں برت رہے ہیں جبک اصل جنگ طبقاتی ہے بلوچستان کا سردار، پنجاب کا جاگیردار، صنعت کار، سندھ کا وڈیرہ اور پختون خواہ کا خان سب کے سب اقتدار کے ایوانوں میں موجود ہیں پنجاب کے نوجوانوں کو تو کوٹہ سسٹم کے غیر منصفانہ نظام کا بھی مقابلہ کرنا پڑ رہا ہے دوسرے صوبوں کے نوجوان سی ایس ایس کی تیاری لاہور اسلام آباد میں کرتے ہیں مگر ڈومیسائل کی وجہ سے محض امتحان پاس کر کے نوکری حاصل کر لیتے ہیں اور وہ پنجاب کا نوجوان جو اس سے تین جار سو درجے اوپر ہوتا ہے پنجاب کے ڈومیسائل کی وجہ سے نوکری سے محروم رہ جاتا ہے یہ مزے ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ کے ہیں کہ سرکار کی نوکری بھی کرو اور سیاست بھی کرو اگر بلوچستان کے سیاست دانوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے پنجاب کے بے گناہ لوگوں کے قتل عام پر خاموشی اختیار کیے رکھنی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کے اندر قبائلی تعصب اور صدیوں کی جہالت کو ختم کرنا ناممکن ہے اسٹیبلشمنٹ سے جنگ کرنے کا مطلب کسی بھی قوم کے بے گناہ فرد کی ہلاکت مہذب معاشروں میں نہیں ہوتی ہے قبائلی کلچر میں ایسا ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کے قبیلے کے بے قصور افراد کو نفرت اور انتقام کے بھینٹ چڑھاتے چلے جاؤ اگر طبقاتی جھگڑے کو قومیت اور نسلی امتیاز کی بنیاد پر حل کرنے کی کوشش کی جائے گی تو پھر جس کے ہاتھ میں طاقت ہو گی وہ دشمن کی نسل کشی کرے گا قیام پاکستان کے وقت لاکھوں مسلمانوں کو سکھوں اور ہندوؤں نے بیدردی سے شہید کیا ہندوستان میں حکومت کشمیریوں اور غزہ میں اسرائیل کی افواج مظلوم فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہے ہیں لہذا ابھی بھی وقت ہے کہ پاکستان کے چاروں صوبوں کے عوام، سیاسی سٹیک ہولڈرز، اور طاقتور عناصر قومی یکجہتی اور ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے کوئی لائحہ عمل طے کریں کیونکہ موجودہ حکومت کے اکیلے کے بس میں نہیں ہے کہ کہ وہ ہمہ جہتی بحرانی کیفیت پر قابو پا سکے اور باہمی افہام و تفھیم کی فضا میں عادلانہ معاشرہ وجود میں لائے بلوچستان اور خیبر پختون خواہ میں فوجی جوانوں کی شہادتوں، اور عام افراد کی جرائم پیشہ عناصر سے جان و مال سے محرومی نے پوری قوم کو شدید ذہنی عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے ریاست میں کبھی تاجروں کی ہڑتالیں تو کبھی سرکاری ملازمین کے احتجاجی مظاہروں اور کبھی بجلی کے مہنگے بلوں پر عوامی ردعمل کی وجہ سے حکومت مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ گئی ہے کسی مسئلے کا حل اس کے پاس دکھائی نہیں دیتا ہے سوائے دوبارہ گنتی سے قومی اسمبلی میں اپنے ایم این اے از کی تعداد بڑھانے میں الیکشن کمیشن مکمل جانبداری کا مظاہرہ کرنے پر تلا ہوا ہے تو پھر ایسے میں سیاسی محاذ آرائی شدت اختیار کرے گی تو کیسے کوئی بھی حکومت ملکی معاملات کو خوش اسلوبی سے چلا سکتی ہے اب یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ غیر جمہوری ذرائع سے برسر اقتدار آنے والے حکمران کسقدر نیک اور قابل کیوں نہ ہوں تو ان سے طویل المیعاد مسائل اور پیچیدگیوں کے حل کی توقع کرنا عبث ہے اس وقت سارے ملک کے سوچنے سمجھنے والے افراد کے ذہنوں میں ایک ہی سوال ابھرتا ہے کہ اصلاح و احوال کے لیے کیا کیا جائے کوئی ٹیکنو کریٹس تو کوئی قومی حکومت تو کوئی مارشل لاء اور صدارتی نظام کی نو ید سنا رہا ہے سیاسی جماعتوں کے ہارڈ کور حامیوں کی دوسری بات ہے تحریک انصاف سمجھتی ہے عمران خان ملک کو بحران سے نکال سکتا ہے ن لیگ کی اکثریت کا خیال تھا کہ نواز شریف حکومت میں آکر ملک بہتر کر سکتے تھے مگر ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا جبکہ پیپلز پارٹی اور کسی دوسری جماعت میں سرے سے ہی اہلیت نہیں ہے کہ پنجاب میں صفر سیاسی بیس کے ساتھ وفاق کو بہتر انداز میں چلا سکے تو اس سے تو پھر شہباز شریف ہی غنیمت ہے جو اسٹیبلشمنٹ کا فرنبردار بچہ بن کر کام چلا رہا ہے چاہے سیاسی جماعتوں کے کارکنان اپنی جماعتوں کے لیڈران کو منزہ عن الخط سمجھیں مگر عوام کی اکثریت سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ دونوں کے طور طریقوں سے سخت نالاں ہے اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ وہ انہیں کرپٹ اور نااہل تصور کرتے ہیں اور انہیں اپنے گروہی مفادات کا اسیر خیال کرتے ہیں تاہم استثناء تو کہیں نہ کہیں موجود ہوتا ہے جس سے ملکی معاملات ایڈک ازم پر اونچ نیچ سے عارضی طور پر چل رہے ہیں ان حالات میں کسی ایک سیاسی جماعت یا اکیلے اسٹیبلشمنٹ کے لیے ممکن نہیں ہے کہ پاکستان کو معاشی اور سیاسی طور پر مستحکم کرپائے صروری ہے کہ معروضی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جائے وہ جو پاکستان کی سب سے بڑھی سیاسی جماعت کا رہنما ہے اور اڈیالہ جیل میں ایک سال سے ضمیر کا قیدی بنا ہوا ہے اس کو محمود اچکزئی، اختر مینگل اور مولانا فضل الرحمن کو آن بورڈ لے کر ملکی داخلی مسائل کا حل نکالنا ہوگا وگرنہ حکمران طبقے کے پاس اتنی اخلاقی جرات اور کردار کی طاقت نہیں ہے کہ وہ اہم قومی مسائل کا دیرپا حل نکال لیں ابھی وقت ہے کہ ہم اقبال کے اس پیغام پر عمل پیرا ہو ں میری اپیل ہے فیصلہ سازی کی حامل قوتوں سے
فرد قائم ربطِ ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں