یکم اکتوبر 2024 سے قبل پی آئی اے کی نجکاری ہونے کا امکان ہے ، سیکرٹری نجکاری کمیشن

اسلام آباد (صباح نیوز) سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے نجکاری کو آگاہ کیا گیا ہے کہ یکم اکتوبر 2024 ء سے قبل پی آئی اے کی نجکاری ہونے کا امکان ہے ، دو کمپنیوں نے 75 فیصد ایک نے 80 فیصد اور ایک نے 100 فیصد حصص خریدنے کی دلچسپی ظاہر کی ہے ۔ آئیسکو ، فیسکو ، گیپکو کی نجکاری کا عمل شروع کر دیا گیا  ہے ۔ صوبے بجلی ترسیل کرنے والی کمپنیوں کی ملکیت لینے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ انہیں معلوم ہے ان کے صوبے میں موجود کمپنیاں بھاری خسارے سے دوچار ہیں جبکہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں تو ان کمپنیوں کا اختیار لینے پر نقصانات پورے کرنے کے لیے ان کا سارا صوبائی بجٹ خرچ ہو جائیگا ۔ نجکاری کمیٹی کا اجلاس چیئرمین طلال چوہدری کی صدارت میں پارلیمنٹ ہاؤس میں ہوا ۔

اجلاس میں اعتراف کیا گیا کراچی اسٹیل مل ، پاور کمپنی ، ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن اور بعض دوسرے اداروں کی نجکاری نہ ہونے کے باوجود مالیاتی مشیروں کے حوالے سے اربوں روپے ضائع کر دئیے گئے ۔ کمیٹی کو بتایا گیا گذشتہ پانچ سالوں کے دوران بعض اداروں کی نجکاری سے چار ارب سے کچھ زائد حاصل ہوئے بعض اداروں کی نجکاری تو نہیں ہوئی البتہ مالیاتی مشیروں کے حوالے سے ایک ارب ننانوے کروڑ روپے سے زائد کا ضیاع ہوا ۔ مجموعی طور پر پانچ سالوں میں نجکاری سے چار ارب 38 کروڑ 90 لاکھ روپے ملے ۔ پہلے مرحلے میں اسلام آباد الیکٹرک سپلائی ، گوجرانوالہ الیکٹرک سپلائی اور فیصل آباد الیکٹرک سپلائی کمپنیوں کی نجکاری کا عمل شروع کر دیا گیا ہے ۔ ارکان نے خدشات ظاہر کئے کہ اگر بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کے ملازمین نے بھی یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن اور پاک پی ڈبلیو ڈی کی طرح احتجاج ہڑتال شروع کر دی تو کیا حکومت پسپائی اختیار کر لیگی ۔ 2015 ء میں بھی پی آئی اے اور بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں کا فیصلہ کیا گیا بار بار نجکاری فہرست سے نکالا جاتا رہا اور کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے کے مصداق خزانے سے بھاری رقوم ضائع کی جاتی رہیں ۔ سینیٹر طلال نے کہا کہ صوبے کمپنیوں کا اختیار لینے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ حکام نے بتایا گیپکو کے علاوہ کوئی اور کمپنی منافع بخش نہیں ہے ۔ کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں مختلف اداروں کی نجکاری کے فیصلوں ، نجکاری عمل پر اخراجات اور بار بار فیصلے واپس لینے سے متعلق رپورٹ طلب کر لی  ہے ۔

حکام نے بتایا کہ اسٹیل مل اور جناح کنونشن سنٹر کی نجکاری کے حوالے سے اسٹیٹ بینک اور سی ڈی اے نے بالترتیب اعتراضات کئے تھے ۔ 2015 ء میں پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا اور اب 2024 ء تک پانچ سو ارب کے نقصانات شامل ہو گئے ہیں ۔ طلال چوہدری نے کہا کہ سیاسی جماعتوں اور اداروں کی غلطیوں کی وجہ سے نقصانات بڑھ رہے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں اپنی حکومتوں میں قومی مفاد کی بجائے سیاسی مفادات کو مد نظر رکھتی ہیں ۔ اس طرح تو اسٹیل مل کی طرح پے در پے ادارے بیٹھتے چلے جائیں گے ۔ سیکرٹری نجکاری کمیشن نے کہا کہ وزیر اعظم شہباز شریف نے واضح ہدایت کی ہے کہ کاروبار حکومت کا کام نہیں ہے ۔ ہم بھی یہ چاہتے ہیں کہ تمام شراکت داروں کے تعاون سے متعلقہ اداروں کی نجکاری کا عمل مکمل ہو ورنہ یہ متنازع ہو جائیں گے ۔ سیکرٹری نجکاری کمیشن نے مزید کہا کہ مفاداتی گروپس بھی متحرک ہیں ۔ عادتیں خراب ہوئی ہیں ایجنڈے کو ڈی ریل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ 2028 ء تک بجلی تقسیم کرنے والی تمام کمپنیوں کی نجکاری کر دی جائیگی ۔

پی آئی اے کے لیے نجکاری کا عمل شروع ہو گیا ہے ۔ چھ کمپنیاں پری کوالیفائی کر چکی ہیں ۔ ستمبر کے وسط میں معاہدے پر اتفاق متوقع ہے اور بڈنگ کا عمل شروع ہو جائے گا ۔ دو کمپنیوں نے 75 فیصد ایک نے 80 فیصد ایک نے سو فیصد حصص خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے ۔ یکم اکتوبر تک پی آئی اے کی بڈنگ نیلامی متوقع ہے جو بھی کمپنی یا کنسورشیم پی آئی اے خریدے گا ابتدائی طور پراسے مکمل فعال کرنے کے لیے اسی ارب روپے کے اخراجات کرنا ہوں گے ۔ دو سو ارب روپے کے واجبات ہیں چالیس سے چوالیس ملین ڈالر پی آئی اے کے انجن ، جہازوں کی فٹنس ، فلیٹ کی دیکھ بھال ، پرزہ جات کی خریداری کے لیے اخراجات آ سکتے ہیں کیونکہ متعلقہ کمپنی باریک بینی سے جہازوں کے تمام بیڑے کا جائزہ لے رہی ہے ۔