دہشت گردوں سے مذاکرات نہیں، آپریشن پر چاہیے ایک ہزار ارب خرچ ہوں امن لایا جائے، اسحاق ڈار


اسلام آباد(صباح نیوز) نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ بلوچستان کے معاملے پر سیاست نہ کریں، چاہیے آپریشن پر 1 ہزار ارب لگیں ہمیں مل کر اس دہشت گردی پر قابو پانا ہوگا۔ دشمن کی خواہش ہے کہ ایٹمی طاقت کا حامل ملک کسی بھی صورت معاشی طور پر مستحکم نہ ہو۔سینیٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے بتایا کہ چند لوگ استعمال کرکے بلوچستان میں افراتفری پھیلائی جارہی ہے۔

سینیٹ اجلاس میں اسحاق ڈارکومائیک دینے پراپوزیشن نے شدید نعرے بازی کی ، جس پر اسحاق ڈار نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی طریقہ نہیں ہے ایوان چلانیکا، جناب ان کوایوان چلانیکا طریقہ سکھائیں۔نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں جو کچھ ہوا اس سے ہر شخص  کا دل رنجیدہ ہے، بلوچستان حکومت وفاق کے ساتھ مکمل رابطے میں ہے، کچھ لوگوں کو استعمال کرکے ایک صوبے میں افراتفری پھیلائی جارہی ہے۔انہوں نے کہا کہ جوریاست پاکستان کو تسلیم کرتے ہیں ان سے مذاکرات ہوسکتے ہیں ، جو ناراضی کے نام پر پہاڑوں پر چڑھ کر شہریوں کو قتل کررہے ہیں،اس معاملے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ وزیراعظم ایک دو روز میں بلوچستان جارہے ہیں جبکہ وزیر داخلہ محسن نقوی وہاں پہنچ گئے ہیں، ہم آج بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کی ریاست کو تسلیم کرنے والوں سے مذاکرات ہونے چاہیے مگر ناراضی کے نام پر پہاڑوں پر چڑنے والوں کے اقدامات کی مذمت اور ان کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ پہاڑوں پر چڑھ کر قتل عام کرنے والے بیرونی ایجنسیوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں اور وہ ملک کو بحرانی کیفیت سے دوچار کرنا چاہتے ہیں، دشمن کی خواہش ہے کہ ایٹمی طاقت کا حامل ملک کسی بھی صورت معاشی طور پر مستحکم نہ ہو۔نائب وزیراعظم نے کہا کہ بلوچستان ہمیں اتنا ہی عزیز ہے جتنے دوسرے صوبے ہیں، ہر پاکستانی کا دل حالیہ دہشت گردی پر رنجیدہ ہے، ہمیں اس معاملے پر سیاست کے بجائے آگے ملکر بڑھنا ہوگا۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی ایک کمیٹی بنائی جائے اور دونوں طرف سے نمائندوں کو شامل کیا جائے، ایوان میں بہت ذہین لوگ ہیں اور سینیٹ ایک فیڈریشن کی نمائندگی والی جگہ ہے جہاں بیٹھ کر کسی بھی علاقے کے مسائل کا حل نکالنا ضروری ہے۔اسحاق ڈار نے کہا کہ شفافیت کے ساتھ ہمیں سوچنا ہے کہ ہمیں ملک میں امن کیسے واپس لانا ہے، سال 2013 کا ڈیٹا اٹھائیں اور دہشت گردی کے واقعات کا موزانہ کریں، قوم نے 2014 میں اے پی ایس واقعے کے بعد آپریشن کا فیصلہ کیا، ہم نے کم وقت میں جنگ کی، آپریشن ضرب عضب، ردالفسار سے لڑائی لڑ کر صورت حال کو قابو کیا، ہم نے پیٹ کاٹ کر یہ قدم اٹھایا کیونکہ آپریشنز پر سالانہ 100 ارب روپے خرچ ہوئے۔

نائب وزیراعظم کا کہنا تھا کہ اگر اب دہشت گردی کے خاتمے کیلیے ایک ہزار ارب کے اخراجات بھی آئے تو پھر ہمیں آپریشن کرنا چاہیے، ہمیں ایسے لوگوں کو کامیاب نہیں ہونے دینا جو ملک کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں ہم نے کامیاب آپریشن کیے مگر پھر مذاکرات کے نام پر بڑی غلطیاں کیں اور دہشت گردوں کو ہم نے جیلوں سے چھڑوایا گیا، آپریشن کے باعث بھاگنے والے پاکستان دوبارہ واپس آئے۔نائب وزیر اعظم نے کہا کہ دشمن چاہتا ہے کہ ہم ایٹمی قوت ہیں تو معاشی قوت کیسے بنیں، اس لیے سیاسی بحران اور معاشی بحران پیدا کیا جاتا ہے، اب بھی دیر نہیں ہوئی، معاشی اور دہشت گردی کے مسائل پر سوچنا چاہے، سینیٹ کو ملکر بیٹھنا ہوگا اور سیاست سے بالا ہوکر مسائل کا حل نکالنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ناراضی کے نام پر دہشت گردی کسی صورت قبول نہیں، ریاست تو ماں ہوتی ہے، آپ آئین ملک، قانون اور ریاست کو تسلیم کریں تو بات ہوگی، ہم نے ہر حال میں ملک میں امن قائم کرنا ہے، پیٹ کاٹ کر اگر دہشت گردی کیخلاف جنگ لڑنا پڑی تو لڑیں گے،نائب وزیر اعظم نے اجلاس میں تجویز دیتے ہوئے کہا کہ سینیٹ ارکان ایک دن مقررکرلیں،اس دن صرف امن وامان کے حوالے سے ہی بات ہوگی۔