کراچی(صباح نیوز) جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر ڈاکٹر اسامہ رضی نے کہا ہے کہ ”دھرنا معاہدے” پر عملدرآمد حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس نے بجلی سستی نہ کی اور آئی پی پیز کو لگام نہ دی تو ہم شہروں اور دیہات سے اسلام آباد کی طرف مارچ کریں گے۔ احتجاج آئینی حق ہے، احتجاج کے لیے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
وہ جماعت اسلامی ضلع وسطی کی لیکچر سیریز کے تحت ”پاکستان کے معاشی مسائل اور ان کا حل” پر خطاب کر رہے تھے جس میں معروف ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی اور امیر ضلع وسطی سید وجیہہ حسن نے بھی خطاب کیا۔ لیکچر میں عام افراد کے علاوہ طلبہ، تاجروں اور کاروبار سے وابستہ افراد نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ڈاکٹر اسامہ رضی نے مزید کہا کہ موجودہ نظام سے مستفید ہونے والے طبقے پوری عیاں ہو چکے ہیں، کوئی لیپا پوتی کام نہیں آ سکتی۔ ملک کے اقتدار اعلیٰ کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اور عوام کے منتخب نمائندوں کا یہ اختیار ہے کہ وہ اسے عوام کی رائے کے مطابق استعمال کریں۔ عوام نے 8 فروری کو جو رائے دی اسے جوتے سے ٹھوکر ماری گئی۔ یہ عوام کی توہین ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کی رائے فارم 45 کی صورت میں محفوظ ہے، اس کے مطابق حکومت سازی کی جائے۔ انہوں نے دیگر سیاسی جماعتوں سے کہا کہ مشترکہ امور پر جدوجہد کی جائے۔ عوامی سروے بتاتے ہیں کہ حکومتی پارٹیاں بشمول ایم کیو ایم کی ساکھ ختم ہو چکی ہے۔ عوام کو درپیش مسائل پر سب سے توانا آواز جماعت اسلامی اور حافظ نعیم الرحمان کی ہے۔ یہ درست ہے کہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی بے ایمانیوں کو عمران خان نے اجاگر کیا لیکن ان پارٹیوں کے خلاف جدوجہد قاضی حسین احمد نے شروع کی تھی جس کا شعور آج نوجوانوں میں پھیل چکا ہے۔
قبل ازیں ڈاکٹر قیصر بنگالی نے اپنے لیکچر میں کہا کہ یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ تمام سیاسی جماعتیں ملک کی موجودہ معاشی حالت کی ذمہ دار ہے۔ یہ گزشتہ 40 کی بدانتظامیوں کا نتیجہ ہے، حالانکہ یہ خطہ ہر طرح کے وسائل سے مالامال ہے۔ دو بنیادی خسارے یعنی بجٹ خسارہ اور تجارتی خسارہ دور کرکے 20 سال میں ملک سے غربت ختم کر سکتے ہیں۔ بلوچستان میں اتنے وسائل موجود ہیں کہ وہاں کے ایک ایک شخص کو دو دو ملازمتیں دی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گردشی قرضے کا مسئلہ دانستہ پیدا کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگوں کا انداز بدل چکا ہے، جنگوں میں اب الیکٹرانکس کا کردار اہم ہے جس کی حالیہ مثال روس یوکرین جنگ اور آرمینیا و آذربائیجان کی جنگ ہے۔ ہمیں بھی جنگی تیاریوں میں تبدیلی کرنی چاہیے، غیر ضروری دفاعی اخراجات کم ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ 1990ء کے بعد سے عالمی اداروں سے ”پروگرام قرضے” کیے گئے جن سے ملکی اثاثے نہیں بڑھے اور قرضے ضائع ہوئے۔ غیر ترقیاتی اخراجات اتنے بڑھ چکے ہیں کہ ہر 100 روپے کی آمدنی کے مقابلے میں 220 روپے کے اخراجات کیے جا رہے ہیں جس نے معاشی توازن کو تباہ کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عوام کو سڑکوں پر لا کر حکومتی پالیسیاں تبدیل کرائی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے اس امر پر تنقید کی کہ اسٹیٹ بینک کے گورنر 1993ء سے عالمی مالیاتی اداروں سے لائے جاتے رہے جنہوں نے ملک کے بجائے اپنے اداروں کے لیے کام کیا۔ انہوں نے پیٹرولیم کی درآمد کم کرنے کے لیے تجویز دی کہ کارگو کی ترسیل سڑک کے بجائے ریلوے سے کی جائے۔امیر جماعت اسلامی ضلع وسطی سید وجیہہ حسن نے ڈاکٹر قیصر بنگالی کی آمد پر ان کا خیر مقدم کیا اور آخر میں ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ اہم ملکی مسائل پر غور کے لیے لیکچر سیریز میں آئندہ بھی اہلِ علم و دانش کو دعوت دی جائے گی۔ ہمیں اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا۔