2016 کا ایک قصہ سنانا چاہتا ہوں۔ آپ کے نیاز مند نے جنوری 2016 میں کچھ دوستوں کی مدد سے ایک رضاکارانہ ویب سائٹ شروع کی۔ اس میں کارکنوں کیلئے کوئی مالی منفعت تھی اور نہ لکھنے والوں کو کوئی آنہ ٹکا دیا جاتا تھا۔ پالیسی بہت سادہ تھی۔ لکھنے والوں کو سیاسی اور سماجی موضوعات پر اظہار خیال کی پوری آزادی تھی البتہ خلاف قانون اور منافرانہ مواد پر پابندی تھی۔ مذہبی آزادی، رواداری اور خرد افروزی کی حوصلہ افزائی کی جاتی تھی ۔مذہبی عقائد اور مسلکی مباحث سے قطعی گریز تھا۔ تھوڑے ہی عرصے میں ایک اچھا پلیٹ فارم بن گیا جہاں عورتوں، مذہبی اقلیتوں، پچھڑے ہوئے قومی منطقوں اور دیگر ’راندہ درگاہ‘ گروہوں کو اظہار کا ٹھکانہ میسر آ گیا۔ بیرون ملک مقیم اردو لکھنے والے بھی آن شامل ہوئے۔ جون 2016 میں معلوم ہوا کہ محترم اوریا مقبول جان نے چند ٹی وی پروگراموں میں درویش اور اس کے ساتھیوں پر کچھ بے بنیاد اور اشتعال انگیز الزامات عائد کئے ہیں۔ ہم نے متعلقہ مواد مرتب کر کے پیمرا کی صوبائی شکایت کمیٹی سے رابطہ کیا۔ مرحوم ڈاکٹر مہدی حسن کمیٹی کے سربراہ تھے۔ مکرمی اوریا مقبول پہلی سماعت پر تشریف نہیں لائے۔ ہم نے کمیٹی کو اوریا صاحب کے پروگرام کی ریکارڈنگ سمیت اپنا مواد پیش کر دیا۔ اگلی سماعت سے قبل اطلاع ملی کہ اوریا صاحب اور اظہر صدیق نامی ایک وکیل نے پیمرا کے لاہور دفتر کے باہر ’احتجاج‘ کیلئے وکلا اور خدائی فوجداروں کا ایک ٹولہ تیار کیا ہے۔ پیمرا کمیٹی نے فون کر کے ہمیں حاضر ہونے سے روک دیا۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ اوریا صاحب سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج سمیت کوئی دو درجن افراد کے ہمراہ پیمرا کمیٹی کے اجلاس میں جا گھسے۔ خوب ہنگامہ آرائی ہوئی۔ صوبائی کمیٹی نے معاملہ اسلام آباد بھیج دیا۔ پیمرا کے سربراہ ابصار عالم سے ایک دو مرتبہ بات ہوئی۔ ہمدردانہ لہجے کے باوجود اندازہ ہو گیا کہ ابصار صاحب اس معاملے میں مدد نہیں کر سکیں گے۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ غریب ابصار عالم تو خود ’اندھے اختیار‘ کی ٹکٹکی پر بندھے تھے۔ (نامعلوم اب کسی کو ستمبر 2020 میں انصاف لائرز فورم کی مدعیت میں ابصار عالم کے خلاف ’سنگین غداری‘ کی ایف آئی آر کا متن یاد ہے یا نہیں؟)۔ ابصار عالم کے بعد داد رسی کا اگلا زینہ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید تھے۔ انہیں 29 اکتوبر 2016کو ہانکا کر کے ڈان لیکس کے پھندے میں گرا لیا گیا۔ یہ پھندا اسی کارگاہ میں تیار ہوا تھا جہاں سے میمو گیٹ درآمد کیا گیا تھا۔ اب آخری امید وزیر اعظم نواز شریف تھے اور وہاں ہمیں رسائی نہیں تھی۔ بالآخر جولائی 2017 میں نواز شریف اقامہ گیٹ کے راستے باہر نکال دیے گئے۔ دسمبر 2017 میں ابصار عالم کو بھی فارغ خطی دے دی گئی۔ اب مڑ کر دیکھتا ہوں تو آرزوئے انصاف کی ان کوششوں کے زینہ بہ زینہ انہدام پر ہنسی آتی ہے۔ انصاف سے متعلق فرانز کافکا کی وہ مختصر حکایت تو آپ کو یاد ہو گی جس میں ’ایوان عدل کا دربان ایک سوالی کو روک کر بتاتا ہے کہ انصاف کا دروازہ کھلا ہے اور اسی کیلئےبنا ہے لیکن فی الحال اسے داخلے کی اجازت نہیں ہے‘۔ قصہ یہ ہے کہ انصاف کے چشمے کو برساتی جوہڑوں میں تقسیم کر کے جھاڑیوں میں نادیدہ پہرے دار بٹھا دیے جائیں تو انصاف کا بنیادی اصول ہی دریا برد ہو جاتا ہے۔
اس رستاخیز کا بنیادی قضیہ جنرل راحیل شریف کی ’اوالعزمی‘ تھا۔ بالآخر نومبر 2016 میں جنرل راحیل شریف41 اسلامی ممالک کی ’انسداد دہشت گردی اتحادی فوج‘ کے سپہ سالار گویا صلاح الدین ایوبی (جدید ایڈیشن) کے تاریخی منصب پر فائز ہو کر پاکستان سے عازم سعودی عرب ہو گئے۔ یہ فوج کہاں تشکیل پائی؟ اس کی نفری کہاں مقیم تھی؟ اس کی عسکری صلاحیت کیا تھی؟ کیا یہ فوج اب کہیں موجود بھی ہے؟ اس پر تاریخ خاموش ہے۔ غزہ کے نہتے شہریوں کے خلاف اسرائیل کی دہشت گردی گیارہویں مہینے میں داخل ہو چکی۔ یورپ کے متعدد ’استعماری ممالک‘ سے ڈاکٹر اور امدادی کارکن غزہ میں موجود ہیں جن میں سے آسٹریلیا، برطانیہ اور پولینڈ وغیرہ کے متعدد شہری دوسروں کی مدد کرتے ہوئے اپنی جان تک کھو بیٹھے ہیں۔ پاکستان کی پارلیمنٹ سے وزیر اعظم تک مذمت کے بیانات اور قراردادیں تو سنائی دی ہیں، کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ ’ 41اسلامی ممالک‘ کی متحدہ فوج اور اس کا کماندار کہاں ہے اور اسے فلسطینی بچوں کی آہ و زاری کیوں سنائی نہیں دیتی؟‘ راحیل شریف رخصت ہوتے ہوئے البتہ پانامہ پیپرز کے فلیتے کو چنگاری دکھا گئے تھے۔ کوئی ساڑھے گیارہ لاکھ دستاویزات کے اس انبار میں چار سو پاکستانیوں کے نام بھی شامل تھے۔ نواز شریف کا نام اس فہرست میں نہیں تھا لیکن دیدبان کی عقابی نظر غزالِ جمہور پر تھی۔ آہوئے رمیدہ کی بدنصیبی کہ اس کے سینگ میانوالی اور چکری سے لے کر چکوال تک خاردار جھاڑیوں میں الجھے تھے۔
22 اگست کی رات کا پہلا پہر تھا جب اوریا مقبول جان کی گرفتاری کی خبرآئی۔ اوریا مقبول صاحب کے خیالات سے درویش کا اختلاف بیان کرنے کی ضرورت نہیں، سامنے کا معاملہ ہے۔ البتہ مجلسی رکھ رکھاؤ قائم رہا اور باہم مکالمہ ہمیشہ خوشگوار رہا۔ مجھے دوست کی ابتلا پر تشویش ہوئی۔ معلوم ہوا کہ مذہبی منافرت کے جس ترکش سے اوریا صاحب دوسروں کو نشانہ بنایا کرتے تھے، اب کسی اور کے قبضے میں ہے نیز اوریا صاحب نئے تیر انداز کی زد پر ہیں۔ ’اسی باعث تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے‘۔
اسی روز سہ پہر تک یہ روح فرسا خبر بھی لاہور پہنچ گئی کہ ریاست کی دست کاری اور اہل سیاست کے ضعف نظر سے قوت پانے والی پایاب مگر شوریدہ موج اب اونچے درجے کے سیلاب کی صورت عدالت عظمیٰ کے کمرہ نمبر ایک میں داخل ہو گئی ہے۔ فیض آباد چوک کی تہذیب اب گوش انصاف کی براہ راست سمع خراشی کرے گی۔ ایسے میں کسی دستوری ضمانت یا حرف قانون کا حوالہ دینے کی تاب کسے؟ جہاں تیغ منصف ٹھہرے اور دار و رسن شاہد ہوں، وہاں قاتل کے سوا کون بے گناہ قرار پائے گا۔ جہاں ریاست ’فتنہ الخوارج‘ کا مقابلہ کرنے کا عزم رکھتی ہے، وہاں پارلیمنٹ، انتظامیہ اور عدلیہ کے آئینی ستون خود کاشتہ بگولوں کے پنجہ زبردست کی گرفت میں ہیں۔
میرا عزم اتنا بلند ہے کہ پرائے شعلوں کا ڈر نہیں
مجھے خوف آتش گل سے ہے یہ کہیں چمن کو جلا نہ دے
بشکریہ روزنامہ جنگ