جنرل(ر) فیض کیا پکڑے گئے، موقع پرستوں، مخصوص اینکروں اور تجزیہ کاروں نے اپنی اپنی بولیاں بولنا شروع کر دی ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے سارا قصور جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ کا ہے، کوئی کہہ رہا ہے باجوہ صاحب مسٹر کلین ہیں، کوئی کہہ رہا ہے ساری غلطی فیض حمید کی ہے، کسی کا دعوی ہے کہ فیض حمید اتنے بھی گناہ گار نہیں انہیں جو آرڈر ملے بس ان کی تعمیل کی، کسی کا کہنا ہے کہ سب کچھ عمران خان نے کرایا، کچھ کہہ رہے ہیں عمران اور پنکی کو تو کچھ پتہ ہی نہیں تھا، ان کے نام پر فیض حمید کام ڈال گئے۔ اور تو اور یہ راگ بھی الاپا جا رہا ہے کہ پچھلے چند سال میں جو کھیل کھیلا گیا اس میں چیف جسٹس (ر) ثاقب نثار کا اتنا کردار نہیں تھا جتنا اچھالا جا رہا ہے۔ اس طرح کی باتیں کرنے والے عناصر سے پوچھا جانا چاہیے کہ اگر مذکورہ بالا تمام افراد ہی بے قصور تھے تو کیا سارا جرم پچیس کروڑ عوام کے سر تھوپ دیں؟ سچ تو یہ ہے کہ پراجیکٹ عمران کے تمام منصوبہ سازوں نے بے شرمی کی حد تک آئین و قانون کو روند کر اپنی اپنی اصلیت ظاہر کی۔ پراجیکٹ عمران کے تمام کرداروں، سہولت کاروں نے ایک دوسرے سے بڑھ کر کام دکھایا۔ جنرل باجوہ کو ہی دیکھ لیں جب پانامہ کیس زیر سماعت تھا وہ بطور آرمی چیف ایک دو نہیں درجنوں صحافیوں کو مدعو کر کے بتاتے رہتے تھے کہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف سپریم کورٹ کے ہر فیصلے (جو پہلے سے ہی طے تھے) پر عمل درآمد کرایا جائے گا، رکاوٹ ڈالنے والوں سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نمٹا جائے گا۔ انہی کے ادارے سے تعلق رکھنے والے ففتھ جنریشن وار کے دوسرے بڑے بانی جو آج بھی حاضر سروس ہیں بڑے طمطراق سے اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا کرتے تھے۔ ویسے یہ بات کبھی نہ بھولیں کہ ففتھ جنریشن بریگیڈ کے اصل اور بنیادی بانی لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ تھے، یہ الگ بات ہے کہ بعد آنے والوں نے کہیں زیادہ گند مچایا۔ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید تو تمام حدود کراس کر گئے تھے، حتی کے خود اپنے ادارے کو بھی نہیں بخشا۔ ان کے ہر گھٹیا ہتھکنڈے پر عمران خان خوشی سے نہال ہو کر تالیاں بجایا کرتے تھے۔ چیف جسٹس کے طور پر ثاقب نثار مکمل طور جانبدارانہ عدالتی فیصلوں سے لے کر بازاری ریمارکس تک کے ذریعے جس گری ہوئی سطح پر اترے، ماضی میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اسی اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر کئی میڈیا ہاوسز کے مالکان اور ان کے کارندے جھوٹ کا بازار گرم کیے ہوئے تھے۔ مختصر یہ کہ ان سب میں کوئی بھی معصوم نہیں، یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے تھے۔ وارداتیں بے شمار ہیں، صرف تین مثالوں سے اس تکون کی ذہنیت اور کرتوت واضح ہو جاتے ہیں۔ چاند رات کو نصف شب آصف زرداری کی بہن کو ہسپتال سے جیل منتقل کرنے، نواز شریف کو ملنے کے لیے جیل جانے والی مریم نواز کو والد کے سامنے گرفتار کرنے، سب سے بڑے میڈیا ہاوس کے مالک کو بے بنیاد کیس میں گرفتار کرنے سمیت ہر طرح کے فیصلے باجوہ، فیض اور عمران مشترکہ طور پر کیا کرتے تھے، چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں عدلیہ ان کے غیر قانونی کاموں اور انتقامی کارروائیوں پر مہر لگانے کے لیے ہمہ وقت تیار بیٹھی ہوتی تھی۔ اپنی اذیت پسندانہ فطرت کے سبب ایسی تمام وارداتوں کا سب سے زیادہ لطف عمران خان نے اٹھایا۔ اب جو لوگ خواہ مخواہ کے مامے بن کر کسی کو پاک صاف اور کسی کو گنہگار ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ سب وہی ہیں جو پراجیکٹ عمران سے کسی نہ کسی طور پر مستفید ہوتے رہے۔ مفادات کا جال اور سازش اتنی بڑی تھی کہ آج تک معاملات کنٹرول میں نہیں آ رہے، اسی لیے تو آج تک سکیورٹی اداروں کے اندر سے بھی لوگ پکڑے جا رہے ہیں۔ عدلیہ اور میڈیا کی سمت درست کرنے میں وقت لگ رہا ہے۔ اگر انصاف کے حقیقی تقاضوں کو پورا کیا جائے تو پراجیکٹ عمران کے منصوبہ سازوں، سہولت کاروں اور عمل درآمد کرنے والوں میں کوئی ایک بھی بچ نہیں سکتا۔ فیض نیٹ ورک اس لیے بھی ابھی تک فعال ہے کہ حکومتی جماعتیں مطلوبہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام ہیں۔ ن لیگ تو سیاست ہی چھوڑ کر بیٹھی ہوئی ہے۔ آئینی عہدوں کے ذریعے حکومت اور کنگز پارٹی کے مزے لینے والی پیپلز پارٹی کا خیال ہے کہ ن لیگ کی حکومت مسلسل ناقص پرفارمنس اور عدم مقبولیت مستقبل میں بلاول بھٹو کے وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی اپنی بھی کئی کوتاہیاں ہیں۔ ججوں کی بڑی تعداد پی ٹی آئی کے حق میں اندھا دھند فیصلے کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ میڈیا کا یہ حال ہے کہ نواز شریف نے مریم نواز کے ساتھ پریس کانفرنس کر کے پنجاب میں بجلی کے بلوں میں 14 روپے فی یونٹ کمی کا اعلان کیا تو جواب میں چینلوں پر مفرور حماد اظہر کا موقف ویڈیو بیان کی صورت میں چلایا گیا۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے درمیان بھی محاذ آرائی ہے۔ عام انتخابات سے قبل ہی نواز شریف کو آؤٹ کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی قیادت کے ذریعے جو مہم چلوائی گئی اس کی کڑواہٹ ختم نہیں ہو رہی۔ چند ہفتے قبل صدر آصف زرداری لاہور آئے تو وزیر اعلی مریم نواز شریف نے طے شدہ پروٹوکول کے برخلاف ائیر پورٹ جا کر استقبال کیا نہ ملاقات کی۔ اب پنجاب حکومت کی جانب سے بجلی کی قیمتوں میں ریلیف دینے پر پیپلز پارٹی بھڑک اٹھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دونوں پارٹیاں چھڑی کے اشارے پر ایک دوسرے کا ساتھ دے رہی ہیں۔ اسی لیے یہ طے ہے کہ بات ایک حد سے آگے نہیں جائے گی اسٹلیشمنٹ کی پیش قدمی کی رفتار بے شک سست ہے لیکن فیض حمید کی گرفتاری کھلا اعلان ہے کہ احتساب کا بلڈوزر چل پڑا ہے۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات