کیا اب برطانیہ پاکستان کا درد سمجھے گا؟ : تحریر انصار عباسی


پاکستان میں بیٹھ کر ایک شخص نے سوشل میڈیا کے ذریعے برطانیہ میں قتل ہونے والی تین بچیوں کے متعلق فیک نیوز چلائی جس میں قاتل کے طور پر ایک مسلمان نوجوان کو دکھایا گیا جو سراسر جھوٹ تھا۔ اس جھوٹ کی وجہ سے برطانیہ میں فسادات پھوٹ پڑے جس میں وہاں کےنسل پرستوں نے پاکستانیوں سمیت دیگرمسلمانوں پر حملےکرنا شروع کر دیے۔ برطانوی حکومت فوری ایکشن میں آئی اور چند ہی دنوں میں کئی بلوائیوں کو اُن کے عدالتی نظام نے سزائیں دے کر جیلوں میں بھی بھیج دیا، سوشل میڈیا کو بھی کنڑول کیا۔ یہ شروع سے ہی معلوم تھا کہ سوشل میڈیا میں بچیوں کے قتل کے بارے میں جو خبر چلائی گئی وہ جھوٹ اور فیک نیوز تھی لیکن اس کے باوجود شر پھیلا، فتنہ بڑھا اور برطانیہ کو اُس نام نہاد آزادی رائے اور سوشل میڈیا کی شرانگیزی اور فتنہ سازی کا بھاری نقصان اُٹھانا پڑا جس کے نام پر برطانیہ میں بیٹھ کر کچھ لوگ پاکستان میں آگ بھڑکا رہے ہیں، یہاں فتنہ فساد کا سبب بن رہے ہیں، یہاں دہشت گردی اور قتل غارت کروانے کا سبب بن رہے ہیں لیکن اُن کے خلاف نہ کوئی ایکشن ہوا نہ اُنہیں پاکستان کے حوالے کیا گیا۔ ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین برطانیہ میں بیٹھ کر پاکستان میں کیا کچھ نہیں کرتے رہے لیکن پاکستان کی درخواست کے باوجود اُنہیں پاکستان کے حوالے نہ کیا گیا۔ گزشتہ ایک دو سال سے امریکا، کینیڈا کے ساتھ ساتھ برطانیہ میں موجود پاکستان سے تعلق رکھنے والے کچھ یوٹیوبر اپنی فیک نیوز سے پاکستان میں انتشار پھیلانے کی لگاتار کوشش کر رہے ہیں۔ 9 مئی کوپاکستان میں جلاو گھراو کروانے کیلئے خوب فتنہ انگیزی کرتے رہے، فوج کے اندر بغاوت کی فیک نیوز چلاتے رہے، پاک فوج اور آرمی چیف کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈاکرتےرہے اور اب بھی کر رہے ہیں، سیاستدانوں، صحافیوں سمیت جسے کے خلاف چاہیں جھوٹ اور سوشل میڈیا کی فیک نیوز کے ذریعے زہر افشانی کر رہے ہیں لیکن اُنہیں نہ روکا جا رہا ہے نہ ٹوکا جا رہا ہے۔ برطانیہ میں فسادات کے حوالے سے فیک نیوز چلانے والا مبینہ طور پر ایک پاکستانی نکلا۔ لاہور میں بسنے والے اس پاکستانی کو پہلے پولیس نے گرفتار کیا اور گزشتہ روز اایف آئی اے کے حوالے کر دیا۔ ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ آیا اس گرفتاری کے پیچھے برطانوی حکومت کی کوئی درخواست شامل تھی یا نہیں۔ بہرحال سوشل میڈیا کی ایسی فتنہ انگیزی اور فیک نیوزکو برداشت نہیں کیا جانا چاہیے اور پاکستان کو اس سلسلے میں اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔ ہوسکتا ہے کہ آئندہ کچھ دنوں یا ہفتوں میں برطانیہ اس پاکستانی فرحان آصف تک رسائی مانگے یا اُسے برطانیہ کے حوالے کرنے کیے لیے پاکستان سے باقاعدہ درخواست کرے تاکہ فرحان کا حالیہ فسادات کے متعلق برطانیہ میں ٹرائل کیا جائے اور اُسے اپنی عدالتوں کے ذریعے سزا دلوا کر اور وہیں جیل میں ڈال کر نشان عبرت بنایا جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہےتو پھربرطانیہ کو پاکستان کے درد کو بھی سمجھنا پڑے گا۔ برطانیہ جس نے ابھی تک اپنے ملک میں بیٹھے اُن پاکستانی سیاستدانوں اور یو ٹیوبرز کی پاکستان کے خلاف اشتعال انگیزی اور فیک نیوز کے ذریعے پاکستان میں آگ لگانے اور آگ بھڑکانے کے دھندہ کو نہ روکا اورنہ اُنہیں پاکستان کے حوالے کرنے میں کوئی دلچسپی لی، اب الطاف حسین اور عادل راجہ جیسے فسادیوں کو نہ صرف نکیل ڈالے بلکہ پاکستان کے حوالے کرے۔ آزادی رائے کے نام پر اور سوشل میڈیا کی فیک نیوز اور فتنہ انگیزی کو کھلی چھوٹ دے کر نہ ہمیں پاکستان کے اندر، نہ برطانیہ اور نہ کہیں اور فسادات، جلاؤ گھراؤ، اشتعال انگیزی وغیرہ کی اجازت دینی چاہیے۔ اصول سب کیلئے ایک ہونے چاہئیں۔ اگر برطانیہ میں فسادات کروانے والا ملزم پاکستان میں گرفتار ہوتا ہے تو پاکستان میں آگ لگوانے اور اُسے بھڑکانے والوں کو برطانیہ، امریکا، یورپ یا وہ کہیں بھی ہوں اُنہیں بھی گرفتار کیا جانا چاہیے، اُنہیں سزائیں دی جائیں اور اگر اُن کی حوالگی کی درخواست پاکستان کرتا ہے تو اُنہیں پاکستان کے حوالے کیا جائے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ