جناب احسن اقبال کا سچ … تحریر : تنویر قیصر شاہد


میڈیا میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی، جناب احسن اقبال، سے منسوب ایک بیان یوں سامنے آیا ہے : سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ، پنشنز اور دفاع سب ہی ادھار پر چل رہا ہے ۔ ممکن ہے کسی کو ان کے ایسا بے لاگ اور کھرا سچ بولنے پر اعتراض اور تحفظ ہو مگر ہماری قومی معیشت کا تلخ اور کھرا سچ یہی ہے ۔پاکستان نے غیروں کا تقریبا 150 ارب ڈالر قرض ادا کرنا ہے ۔ ایسے میں ایسا سچ بولنے اور قوم کو حقائق سے آشنا رکھنے سے گریز پا کیوں ہوا جائے ؟اخلاص کے تقاضے یہی ہیں کہ ڈاکٹر اور سیاستدان کو اپنے مریض اورعوام سے غلط بیانی نہیں کرنی چاہیے ۔ جناب ِ احسن اقبال نے ایک اور کھرا سچ بولا ہے ۔ اور وہ مہنگی بجلی کے بارے میں ہے۔

موجودہ حکومت میں قاتل بجلی بلز اور آئی پی پیز نے جو قیامتیں ڈھا رکھی ہیں ، ہر پاکستانی شدید پریشان اور حکومت سے نالاں و ناراض ہے ۔ جماعتِ اسلامی اِسی بنیاد پر راولپنڈی میں دھرنا بھی دے چکی ہے جسے شہباز حکومت کے وزرا وعدوں کا لولی پاپ دے کر ختم کروانے میں کامیاب رہے ہیں ۔ ایسے میں 14اگست 2024کو جناب احسن اقبال سے منسوب یہ بیان میڈیا میں سامنے آیا :ہمیں احساس ہے کہ بجلی کے بلز ناقابلِ برداشت ہو چکے ہیں ۔ اگلے دو سے تین برسوں میں (بجلی کے حوالے سے) عوام کو ریلیف ملے گا۔

یعنی احسن اقبال کے کھرے اور تلخ سچ کا مطلب یہ ہے کہ اگلے تین برسوں تک ابھی عوام کو مہنگی ترین بجلی اور آئی پی پیز کی ڈھائی گئی قیامتوں کو ہنسی خوشی برداشت کرنا ہوگا ۔ ویسے عوام اگلے تین برسوں تک مہنگی ترین بجلی کے ہلاکت خیز جھٹکوں سے بچ جائیں گے؟ جناب وزیر اعظم ، شہباز شریف ، نے احسن اقبال کے سچ بولنے سے قبل اسلام آباد میں علما و مشائخ کی ایک قومی کانفرنس( جہاں آرمی چیف بھی تشریف فرما تھے) میں بجلی بلز سے پریشان پوری قوم کو صاف جواب دیتے ہوئے کہہ دیا تھا: حکومت عوام کو بجلی بلز میں فوری ریلیف نہیں دے سکتی ۔ان کے اِس کھرے سچ سے قوم کے دل بیٹھ گئے ۔ مگر 15اگست کو لاہور میں وزیر اعظم صاحب نے اِسی حوالے سے قوم کو بین السطور نئی نوید یوں سنائی : نون لیگ کے مشاورتی اجلاس میں قوم کو بجلی بلز میں ریلیف دینے پر غور ہوا ہے ۔ اِس اعلان کے دو دن بعد ، 16اگست کو لاہور میں جناب نواز شریف نے اپنی وزیر اعلی صاحبزادی، محترمہ مریم نواز، کو قریب بٹھا کر یہ اعلان فرمایا کہ 500یونٹ تک ماہانہ بجلی خرچ کرنے والے پنجاب کے عوام کو 14روپے فی یونٹ ریلیف دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے ۔ مستحسن !

اِس اعلان کے مطابق اگست اور ستمبر کے بجلی بلز میں یہ ریلیف ملے گا۔ یہ اعلان خوش کن ہے ۔ وزیر اعلی پنجاب شاباش کی مستحق ہیں مگر اصل شاباش انھیں اس وقت دی جائے گی جب ہم عوام ستمبر اور اکتوبر کے موجودہ ریلیف شدہ بجلی بلز وصول کریں گے۔ نواز شریف کے مذکورہ اعلان میں وفاقی حکومت نے مینگنیاں بھی ڈال دی ہیں۔

بڑے میاں صاحب کے مذکورہ اعلان کے ساتھ ہی وفاقی حکومت نے یہ اعلان کیا کہ آئی ایم ایف ہماری کوئی بات نہیں مانتا، بجلی کی قیمتوں میں اضافے پر ہم بے بس ہیں۔اور ساتھ ہی ایک معاصر نے یہ خبر دے کر عوام کی خوشیاں غارت کر دی ہیں کہ بجلی صارفین کو ستمبر کے بجلی بلز میں اضافی چارجز کے بعد ہی ریلیف ملے گا۔ اور یہ اضافی چارجز خاصے کمر توڑ ہیں۔اب عوام کس کے بیان پر یقین کریں؟ نواز شریف صاحب کے بیان پر یا شہباز شریف صاحب پر؟ یا احسن اقبال صاحب کے سچ پر؟ بقول داغ دہلوی :کس کا یقین کیجیے کس کا یقین نہ کیجیے/ لائے ہیں اس کی بزم سے یار خبر الگ الگ !

یوں کہا جا سکتا ہے کہ قیامت خیز بجلی بلز کے اصل حقائق وہی ہیں جو احسن اقبال نے اپنے مذکورہ بالا بیان میں بتا دیے ہیں ۔ ان کے کھرے سچ کی نون لیگ نے بھی تردید نہیں کی ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ راست گوئی ہی کی بدولت جناب احسن اقبال نے نون لیگ میں اعلی اور معتبر مرتبہ و مقام حاصل کیا ہے۔ یہ ایک دن کا نہیں بلکہ برسوں کی کاوش کا نتیجہ ہے ۔ فطری نتیجہ ہے کہ ان کے کئی حاسدین بھی پیدا ہو چکے ہیں ۔ یہ حاسدین نون لیگ کے اندر بھی ہیں اور باہر بھی ۔ کوئی مانے یا نہ مانے ، لیکن حقیقت یہی ہے کہ آج نون لیگ کے اندر دو بڑے دھڑے بروئے کار ہیں۔ ایک دھڑا نواز شریف (اور مریم نواز شریف) کا ہے اور دوسرا دھڑا شہباز شریف (اور حمزہ شہباز شریف) کا ۔یہ دونوں دھڑے بعینہ اسی طرح پارٹی کے اندر کام کررہے ہیں جس طرح پی ٹی آئی میں تین دھڑے پیدا ہو چکے ہیں۔

جناب احسن اقبال کی سیاست اور کردار کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے نون لیگ میں ایک دھڑے سے وابستہ ہونے کے باوصف دوسرے دھڑے کو ناراض اور نالاں نہیں ہونے دیا ۔ یہ کمال احسن اقبال صاحب کی توازن پسند طبع کا نتیجہ ہے ۔ آج تک انھیں کسی نے مغلوب الغیض ہوتے نہیں دیکھا ۔ وہ اس وقت بھی صبر کا دامن تھامے رہے جب (مئی 2018 کو) انھیں ان کے انتخابی حلقے میں ایک مذہبی جنونی نے گولی مار کر شدید زخمی کر دیا تھا ۔

انھوں نے مگر حملہ آور سے انتقام لینے کے بجائے معاف کر دیا تھا۔ تقریبا ایک ماہ قبل جب مین اسٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا میںیہ افواہیں گردش کر رہی تھیں کہ جناب احسن اقبال اپنی وزارت سے مستعفی ہونے بارے سوچ بچار کررہے ہیں تو بھی وہ خود پر ضبط کیے رہے ۔ وجہ یہ بیان کی گئی کہ وزیر اعظم صاحب وزارتِ منصوبہ بندی میں لاہور سے اپنی نئی ٹیم منتخب کرکے لائے ہیں ۔ یہ ٹیم مبینہ طور پر جناب احسن اقبال کے فیصلوں میں مزاحم اور رکاوٹ بن رہی ہے۔ اور یوں احسن اقبال کو اپنی وزارت میں مشکلات کا سامنا ہے ۔احسن اقبال صاحب نے مگر اِن خبروں کی تردید یا تصدیق کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی ۔ شاید یہ جانتے ہوئے کہ اخبار نویس بعض اوقات شغل کے لیے خود ساختہ چائے کی پیالی میں طوفان برپا کرنے کی کوشش بھی کرتے رہتے ہیں ۔

احسن اقبال صاحب کی راست گو طبیعت سے ان کے انتخابی و سیاسی حلقے ( ضلع نارووال) کے ووٹر بھی خوب آشنا ہیں ۔ ان کے مخالفین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ احسن اقبال نے ضلع نارووال کو علمی و تعلیمی لحاظ سے جدید ترین شہر بنا دیا ہے مگر وہ اپنے ووٹروں کے سامنے ایسی بڑ ہانکنے سے گریز پا رہتے ہیں جو ان کی چادر سے بڑی ہو ۔ ان کے مضبوط سیاسی کردار اور پارٹی میں طاقت کا خاطر خواہ فائدہ ان کے جواں سال اور اعلی تعلیم یافتہ صاحبزادے ، احمد اقبال ، کو بھی پہنچا ہے جو ضلع نارووال کی تحصیل ظفروال سے پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں ۔

چونکہ جناب احسن اقبال سی پیک معاملات اور سی پیک کے تحت پاکستان میں بروئے کار ترقیاتی منصوبوں میں بنیادی کردار ادا کررہے ہیں، اس لیے اِسی پروگرام کے توسط سے نارووال کو بھی کئی فائدے پہنچ رہے ہیں ۔ ضلع نارووال میں عالمی معیار کا اسپورٹس کمپلیکس ( جسے پی ٹی آئی حکومت نے خاصا نقصان پہنچایا تھا ) اِس کی ایک عظیم مثال ہے ۔ جناب شہباز شریف کے دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہونے اور جناب احسن اقبال کا ان کی کابینہ میں پھر سے شامل کیے جانے کے بعد نارووال اسپورٹس کمپلیکس کی آجکل از سرِ نو مرمت و تزئین کی جا رہی ہے ۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس