وجود پر سبز رنگوں کی کرنیں اوڑھ کر کِھلکھلاتی ہوئی دھرتی کے اسی کونے پر خواب بننے والے محبت سرا لفظوں کے دیپ جلا کر برسوں پہلے لکھے گئے عہدنامے کو امر کر رہے تھے ۔فضا کسی طاقتور روحانی لہر کی گرفت میں تھی ، وہاں موجود ہر فرد اس کی تاثیر سے سرشار تھا ، کوئی خاص رنگ ، ساز یا خوشبو مستی میں ڈھل کر دلوں کو مائل اور روح کو گھائل کر رہا تھا ، ایک ایسی کیفیت کی منظرنامے پر حکمرانی تھی جسے کوئی نام دیا جانا مشکل محسوس ہورہا تھا ۔اِسرار سے بھری رات کی سرگوشیوں کی تفہیم ناممکن ہو رہی تھی ، فطرت اور وجود کے درمیان روحانی سطح پر دوطرفہ مکالمہ چل رہا تھا ، طبیعاتی اور مابعد طبیعاتی گھل مِل گئے تھے۔
ایسی سرشاری ، لطافت اور سرخوشی کم کم دیکھنے اور محسوسنے میں آتی ہے ۔ماحول میں کسی مانوس ہستی کی موجودگی کا الہام روح کو راحت بھری بے چینی عطا کئے جارہا تھا مگر اس سب کو بیان کرنا مشکل ہورہا تھا۔
جی تیرہ اگست کی البیلی رات میں مینارِ پاکستان پر مجلسِ ترقی ادب کی طرف سے پنجاب حکومت کے جشنِ آزادی پروگراموں کے سلسلے کے سرکاری مشاعرے کا اہتمام تھا ، جب میں پارک میں داخل ہوئی تو مائیک پر شکیل احمد کی خوبصورت نظامت گونج رہی تھی ، وسیع و عریض سبز اسٹیج پر بیٹھے شاعروں کے دھرتی کی شان اور آن میں لکھے ترانے وہاں موجود ہزاروں لوگ سن رہے تھے ، سامنے دلیری سے وزارتِ اطلاعات اور محبت سے ثقافت کی ذمہ داریاں نبھانے والی دیرینہ دوست عظمی بخاری اپنی ہری بھری سہیلیوں سمیت براجمان تھیں ، سیکریٹری اطلاعات و ثقافت احمد نواز تارڑ ، مختلف ثقافتی شعبوں کے سربراہ ، ادبی ذوق رکھنے والے شہری اور صحافتی نمائندے کھلے صحن میں سلیقے سے سجائی محفل کا حصہ تھے ، ارادہ تو یہی تھا کہ جلدی سے اپنے حصے کا دِیا جلا کر چلی جاؤں گی مگر لفظوں کا نذرانہ دان کرنے کے بعدا سٹیج سے اترا ہی نہ گیا ،ایک عجب سحر نے تن من کو خوشبو لٹاتی رات کے جام سے سیراب ہونے کی صلاح دی ، شاعروں کا دل تو سحرزدہ ہونے کو ترستا ہے کہ یہاں انھیں ان دیکھی دنیاؤں کے نظارے اور لشکارے دِکھائی دیتے ہیں۔
مشاعرہ چلتا رہا ، رات بھیگتی گئی ، حبس گھٹتا اور تازگی بڑھتی گئی ، ابھی تک وجود کو ملنے والے سگنلز کا سِرا ہاتھ نہیں آرہا تھا ، عہد حاضر کے ہر دلعزیز شاعر انور شعور کو سن کر بہت اچھا لگا، بیس کے قریب شعرا جی بھر کر اپنا کلام سنا چکے تھے مگر کہیں کسی طرف اسٹیج یا سامنے بیٹھے اور انتظامات میں مصروف لوگوں کے چہروں پر بیزاری اور تھکن کا نام ونشان نہیں تھا ، پھر صدارت کی کرسی پر متمکن شائستگی کے پیکر افتخار عارف محوِ کلام ہوئے تو تمام عقدہ کھلا ، کیفیت واضح ہو کر سامنے آئی ، عشق ، جلال اور خمار کی کیفیت اوڑھے ہوئے غزل فضا کے پروں پر بیٹھ کر جھومنے لگی تو شاخیں ، پتے ، پھول سب دادوتحسین کرتے نظر آئے ، آسمان کی چوکھٹ پر بیٹھا چاند بھی ہمہ تن گوش دکھائی دیا ، ہر شے حالتِ وجد میں تھی ، شعر نہیں تھے ، دلِ نوبت پر روحانی ضربیں لگائی جارہی تھیں ، اہلِ دل اور اہلِ راز تڑپ رہے تھے ، واہ واہ کی آوازیں مترنم ساز میں ڈھل رہی تھیں۔یہ داد بے ساختہ امڈ رہی تھی۔
انور مسعود ، انور شعور ، عباس تابش ، حماد غزنوی ، سیلم ساگر اور ناصرہ زبیری نے عمدہ کلام سنایا مگر اس مشاعرے پر ایک کلام چھاگیا، جس کی بدولت رقص و دھمال کی ترسی زمین نے دھڑکنوں کی سرمستی محسوس کی ، ہماری بے نصیبی کہ ہمارے اطراف جہاں ہر طرح کا ظلم و زیادتی جاری و ساری رہتاہے ،وہاں کائنات کی روح کیساتھ ہم آہنگ ہونے کیلئے وجود کا تحرک گناہ اور جرم بنا دیا گیا ہے ، دھرتی کے باطن نے محسوس کیا کہ کیسے وجود کے اندر بھی دھمال ہو سکتی ہے ، آپ بھی افتخار عارف کا یہ عارفانہ کلام سنئے اور سردھنیے
میانِ عرصہ موت وحیات رقص میں ہے
اکیلا میں نہیں ، کل کائنات رقص میں ہے
ہر ایک ذرہ ، ہر اِک پارہ زمین و زمان
کِسی کے حکم پہ،دن ہو کہ رات،رقص میں ہے
اتاقِ کنگرہ عرش کے چراغ کی لو
کِسی گلی کے فقیروں کیساتھ رقص میں ہے
سنائی ہوں کہ وہ عطار ہوں کہ رومی ہوں
ہراِک مقام پہ اِک خوش صفات رقص میں ہے
یہ جذب و شوق، یہ وارفتگی ، یہ وجد و وفور
میں رقص میں ہوں کہ کل کائنات رقص میں ہے
کِسے مجال کہ جنبش کرے رضا کے بغیر
جو رقص میں ہے، اجازت کے ساتھ رقص میں ہے
میں اپنے شمس کی آمد کا منتظر تھا،سو اب
مرے وجود میں رومی کی ذات رقص میں ہے
وہ قونیہ ہو کہ بغداد ہو کہ سیہون ہو
زمین اپنے سِتاروں کیساتھ رقص میں ہے
بشکریہ روزنامہ جنگ