اسلام آباد(صباح نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے راجن پور کے علاقہ فاضل پور میں سرکاری طور پر الاٹ ہونے والی 258کنال اراضی 1972میں خریدنے کے معاملہ پر ممبر بورڈ آف ریونیو/چیف سیٹلمنٹ کمشنر ،پنجاب اورایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے آفس کوآئندہ سماعت پر نمائندگی یقینی بنانے کی ہدایت کردی۔عدالت نے قراردیا ہے کہ اگر محکمہ وکیل نہیں کرتا تو ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کاآفس کیس میں نمائندگی کرے گا۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت موسم گرماکی تعطیلات کے فوراً بعد تک ملتوی کردی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس نعیم اخترافغان اورجسٹس شاہد بلال حسن پر مشتمل 3رکنی بینچ نے منگل کے روز سرکاری زمین کی الاٹمنٹ کے معاملہ پر ممبر، بورڈ آف ریونیو /چیف سیٹلمنٹ کمشنر، پنجاب ، لاہور اوردیگر کی جانب سے میاں عبدالرحیم اوردیگر کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔ درخواست گزار کی جانب سے شیخ عرفان اکرم اور محمد یافس نوید ہاشمی بطور وکیل پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے آفس سے کسی کو بلائیں۔ چیف جسٹس کادرخواست گزار کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایشوکیا تھا فیکٹس بتائیں۔ وکیل کاکہنا تھا کہ عبدالقاد ر سے جائیدادخریدی۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیسے خریدی، سیل میوٹیشن یا سیل ڈیڈ کے زریعہ۔ وکیل کاکہنا تھا کہ کل 258کنال زمین ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ عبدالقادر کی ملکیت دکھائیں۔ اس پر وکیل کاکہنا تھا کہ اس حوالہ سے ریکارڈ موجو د نہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میوٹیشن انٹری دکھائیں، ا س کانام تھا اورصیح شخص سے خریدی۔ وکیل کاکہنا تھا کہ زمین 1973کو تین مراحل میں خریدی گئی۔ چیف جسٹس کہنا تھا کہ جب تک بتائیں گے نہیں ہمیں الہام تونہیں ہوگا۔ جسٹس شاہد بلال حسن کاکہنا تھا کہ زمین تین خواتین کے نام خریدی گئی نہ کہ موجودہ درخواست گزار وںکے نام۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ اہلیہ، خاوند، خاتون،مرد کون ہے۔
اس پر وکیل کاکہنا تھا کہ مدعاعلیحان نمبر 1سے3تک اس وقت زمین کے مالک ہیں۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کی حمایت والی فائنڈنگ کدھر ہے۔ وکیل کاکہنا تھا کہ متعلقہ جگہ پر جننگ فیکٹری 1993سے چل رہی ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا فیکٹری ابھی بھی چل رہی ہے۔ اس پر وکیل کاکہنا تھا کہ چل رہی ہے۔ اس دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بلیغ الزامان چوہدری عدالت کے طلب کرنے پر بینچ کے سامنے پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کاایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ آپ کو دلچسپی نہیں توہم اس کو عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کردیتے ہیں۔ اس پر بلیغ الزامان چوہدری کاکہنا تھا کہ مجھے ایک گھنٹہ دے دیں میں فائل پڑھ کربتادیتا ہوں۔
بلیغ الزامان چوہدری کاکہنا تھا کہ قانون کے مطابق کچھ محکموں کو وکیل کرنے کی اجازت ہے، میں محکمے کوآگاہ کردوں گااور اگر محکمہ کی جانب سے کوئی پیش نہ ہواتومیںخودپیش ہوکردلائل دوںگا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ جمعرات تک کاوقت دے دیتے ہیں۔ اس دوران مدعا علیہ کے وکیل کی جانب سے بولنے پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ تقریر نہ کریں۔ چیف جسٹس کاکہناتھا کہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے فائل نہیں پڑھی وہ کیسے دلائل دے سکتے ہیں۔
چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ میرٹ پر نہیں بلکہ اپیل زائدالمیعاد ہونے پر ہے، ایک طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہائی کورٹ انٹراکورٹ اپیل کومیرٹ پر چلائے یاہم میرٹ پر چلائیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ کیا مدعاعلیحان کو ہائی کورٹ کی جانب سے میرٹ پر اپیل سننے پر اعتراض ہے، ہائی کورٹ میرٹ اور زائدالمعیاد دونوں حوالہ سے کیس سنے اور فیصلہ کرے ورنہ ہمیں کیس میرٹ پر سننا پڑے گا، ہم اس کو بطور اپیل سنیں گے۔
چیف جسٹس کہنا تھا کہ ہم اس کو چھٹیوں کے بعد لگادیتے ہیں، قبضہ مدعاعلیحان کے پاس ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ سپریم کورٹ کی موسم گرما کی تعطیلات کے فوری بعد کیس سماعت کے لئے مقررکردیتے ہیں، مجھے ایک ہفتے کی بات یاد نہیں رہتی، آئندہ ہفتے تین رکنی نہیں بلکہ دورکنی بینچ دستیا ب ہے، یہ درخواست ہمارے سامنے سماعت کے لئے منظور ہوچکی ہے اس لئے اسے تین رکنی بینچ سنے گا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ یامحکمہ وکیل کرلے یا ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کاآفس نمائندگی کرے۔ عدالت نے حکم کی کاپی درخواست گزاروں کو بھجوانے کاحکم دیا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ مزید التواکی درخواست منظور نہیں کی جائے گی۔