حکومت پاکستان کشمیر کی آزادی کا روڈ میپ دے،کشمیر بارے خصوصی نمائندہ مقرر کرے، سینیٹر مشتاق احمد خان


اسلام آباد(صباح نیوز)جماعت اسلامی خیبر پختونخوا کے امیر سینیٹر مشتاق احمد خان نے حکومت پاکستان سے کہا ہے کہ وہ کشمیر کی آزادی کا روڈ میپ دے اور کشمیر بارے خصوصی نمائندے کا تقرر کیا جائے۔

سینٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہاکہ سیاسی تناؤ کے باوجود اپوزیشن اور حکومت کشمیر کاز کے لیے ایک پیج پر ہیں۔اس موقع کو استعمال کرنا چاہیے۔کشمیر کے معاملے کو تاجرانہ انداز میں ڈیل نہیں کرنا چاہیے۔کشمیر پاکستان کے وجود میں خون کی طرح ہے انہوں نے تجویز دی کہ آزاد کشمیر میں ایکٹ 1974 ء کے آرٹیکل 2 اور 11 میں ترمیم کر کے آزاد کشمیر کا دائرہ کار مقبوضہ کشمیر تک بڑھایا جائے۔

مشیر برائے شماری کا تقرر کیا جائے۔کشمیریوں کا ڈیٹااکٹھا کیا جائے۔مشتاق احمد نے کہاکہ جنیوا میں 28 فروری سے انسانی حقوق کونسل کا اجلاس شروع ہونے والا ہے اس اجلاس میں حکومت پاکستان مقبوضہ کشمیر میں جرائم پر بھارت کے خلاف قرارداد منطورکرائے 13 افریقی اور 14 او آئی سی ممالک کی مدد حاصل کی جائے اس قرارداد کے سلسلے یں سینیٹر مشاہد حسین ،شیری رحمن، یوسف رضا گیلانی کا تعاون حاصل کیا  جائے۔انہوں نے ڈاکٹر عبدالحمید فیاض،شبیرشاہ،یاسین ملک اور دوسرے کشمیری قیدی کی رہائی کے  لیے عالمی مہم چلانے کی تجویز بھی دی۔

انہوں نے کہاکہ جینوا کنونشن نے کشمیریوں کو مسلح مزاحمت کا حق دیا ہے چنانچہ کشمیر میں عسکری جہاد کو زندہ رکھا جائے۔انہوں نے کہا کہ خرم پرویز،محمد احسن اونتو،آصف ڈار اور مزمل ایوب ٹھاکر جدوجہد آزادی کشمیر کے استعمارے ہیں ان کی حفاظت کی جائے، انسانی حقوق کونسل کی رپورٹ 2018-19ء ،رسل ٹریبونل کی سفارشات کو عالمی سطح پر پھیلایا جائے۔ سینیٹرمشتاق نے کہا کہ انشاء اﷲ کشمیریوں کی قربانیاں رنگ لائیں گی اور کشمیر پاکستان کا حصہ بنے گا۔انہوں نے کہا کہ 1989ء میں افغانستان سے روسی فوجوں کی واپسی کے بعد کشمیر میں بھی مزاحمت شروع ہوئی۔آزادی کی جدوجہد شروع ہوئی۔

جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمدنے کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے قوم کو کشمیریوں کی حمایت میں کھڑا کرنے کے لیے 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان کیا۔اس وقت کے پنجاب کے وزیر اعلی نواز شریف نے اس اپیل کی توثیق کی جبکہ وزیرعظم بے نظیر بھٹو نے بھی یوم یکجہتی کشمیر پانچ فروری کو منانے کی اپیل کی توثیق کی اور خود مظفر آباد بھی گئیں۔جماعت اسلامی کے تحت اس دفعہ بھی پورے پاکستان میں یوم یکجہتی کشمیر کے سلسلے میں خصوصی پروگرامات ہونگے۔کشمیری عوام کی جدوجہد آزادی کے لیے قربانیاں رنگ لائیں گی بھارت کو بدترین شکست ہوگی۔

کشمیر انشاء اﷲ پاکستان بنے گا۔حکومت کی کشمیر پالیسی کمزور ہے اسے مضبوط اور طاقتور پالیسی میں بدلنے کی ضرورت ہے حکومت کی قومی سلامتی پالیسی میں کشمیر اور بھارت کے حوالے سے پالیسی واضح نہیں ہے۔قومی سلامتی پالیسی میں کشمیر پر صرف 113الفاظ ہیں۔یہ پالیسی کشمیر پر موجود سٹیٹس کو کی نشاندہی ہے اس میں 5 اگست 2019ء کے بھارتی اقدامات کا ذکر بھی نہیں ہے یہ حقیقت ہے کہ کشمیر نہیں تو پنجاب صحرا اور بنجر بن جائے گا وزیراعظم اور وزیر خارجہ کو بھارت کے مقابلے میں غیر ملکی دورے کرنے چاہیں تھے 5 اگست 2019ء کے واقعات سے قبل مودی نے 40 ممالک کا دورہ کیا تھا۔ایل او سی پر معاہدہ بھی درست نہیں ہے 2018-19ء کے دوران کشمیر پر انسانی حقوق کونسل کی دو رپورٹس جاری ہوئیں۔ رسل ٹریبونل کی رپورٹ جاری ہوئی ان رپورٹس کے حوالے سے حکومت نے اقدامات نہیں کیے۔