اسلام آباد(صباح نیوز) چیئرمین کمیٹی سینیٹر آغا شاہ زیب درانی کی زیر صدارت سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے کم ترقی یافتہ علاقوں کے مسائل کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔ سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی کو ملک میں گیس کے دستیاب ذخائر پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ ڈی جی گیس نے بتایا کہ ملک میں گیس اور تیل کا یومیہ استعمال بالترتیب 3,200 ایم ایم سی ایف ٹی اور 7,000 ملین بیرل ہے۔ تاہم تیل کے کل ذخائر تقریبا 192.93 ملین بیرل ہیں اور گیس کے ذخائر تقریبا 18,108.77 بی سی ایف ہیں۔
کمیٹی کو بتایا گیا کہ2023-24 کے اعداد و شمارکے مطابق، سندھ کا گیس میں سب سے زیادہ حصہ 64 فیصد ہے اور خیبر پختونخواہ کا تیل میں 42 فیصد حصہ ہے۔ وفاقی وزیر پیٹرولیم سینیٹر مصدق ملک نے کہا کہ کل 3,200 ایم ایم سی ایف ٹی گیس میں سے 200 ایم ایم سی ایف ٹی پیداوار کے لیے استعمال ہوتی ہے۔1,400ایم ایم سی ایف ٹی کھاد اور بجلی کی کمپنیاں استعمال کرتی ہیں اور باقی 1,600ایم ایم سی ایف ٹی گھریلو مقاصد کے لیے مختص کی جاتی ہے۔ اس طرح، کل دستیاب گیس 3,000 ایم ایم سی ایف ٹی ہے۔ جس پر سینیٹر ایمل ولی خان نے کہا کہ فنکشنل کمیٹی کو آئندہ اجلاس میں صوبوں سے پیدا ہونے والے اور استعمال ہونے والی گیس کی تفصیلات کی رپورٹ پیش کی جائے تاکہ معلوم کیا جا سکے کہ کون سا صوبہ کتنی گیس پیدا کر رہا ہے اور کتنی استعمال کر رہا ہے۔ فنکشنل کمیٹی کو صوبہ سندھ اورصوبہ بلوچستان میں گیس اور تیل کی تلاش کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات اور تفصیلات بارے آگاہ کیا گیا۔ حکام نے بتایا کہ ہر صوبے میں پانچ مختلف مقامات پر تیل و گیس کی تلاش جاری ہے۔
او جی ڈی سی ایل کی جانب سے تیل و گیس کی تلاش کے حوالے سے کارکردگی اور سرگرمیاں سب سے زیادہ ہیں۔فنکشنل کمیٹی نے گزشتہ 10 برسوں میں تیل و گیس کی تلاش کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات اور خاص طور پر جہاں پر تیل و گیس کی تلاش میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی کی تفصیلات طلب کر لیں۔فنکشنل کمیٹی اجلاس میں گیس کمپنیوں کی جانب سے گیس سائٹس سے متصل کم ترقی یافتہ علاقوں کی ترقی کے لیے کیے گئے ترقیاتی کاموں کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ وزارت نے تیل اور گیس کمپنیوں کو سماجی بہبود کے منصوبوں پر، خاص طور پر صاف پانی کی فراہمی، تعلیم اور ہسپتالوں پر کم از کم $30,000 خرچ کرنے کا پابند کیا ہے۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ سماجی بہبود کے لیے مختص رقم کا براہ راست تعلق تیل اور گیس کے ذخائر سے ہے۔ وفاقی وزیر مصدق ملک نے کہا کہ سماجی فلاح و بہبود کے منصوبوں کو حتمی شکل دینے اور ان پرعملدرآمد کے لیے متعلقہ ضلع میں ایک سوشل ویلفیئر کمیٹی تشکیل دی جائے گی جس میں متعلقہ حلقے کے منتخب ممبران بھی شامل ہوں۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر آغا شاہ زیب درانی نے کارپوریٹ سماجی ذمہ داری کے تحت ملک کے مختلف حصوں میں تیل اور گیس کمپنیوں کی جانب سے گزشتہ دس برسوں میں کیے گئے سماجی کاموں اور ان کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین بشمول ہنر مند اور غیر ہنر مند کی تفصیلات بھی طلب کر لیں۔فنکشنل کمیٹی کے اجلاس میں وزارت کی جانب سے شروع کی گئی ہاسنگ اسکیموں کی موجودہ صورتحال کا بھی تفصیل سے جائزہ لیا گیا۔کمیٹی کو بتایا گیا کہ ہاوسنگ اسکیموں کی پانچ مختلف مقامات پر بنیادی ڈھانچوں پر کا کام جاری ہے جن میں سے یعنی گرین انکلیو اور اسکائی گارڈنز کی تکمیل مقررہ وقت پر ہو جائیں گی۔مزید برآں چیئرمین کمیٹی سینیٹر آغاشاہ زیب درانی نے پاکستان ہاسنگ اتھارٹی کی جانب سے کوئٹہ میں کچلاک ہاسنگ پروجیکٹ کے معاملے پر روشنی ڈالی۔ یہ منصوبہ 2020 میں شروع کیا گیا تھا جس کی لاگت تقریبا 5 ارب روپے ہے تاہم تکمیل میں تاخیر کے باعث ایک کنال کے گھر کی قیمت میں 29 لاکھ روپے کا اضافہ ہوا ہے۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر آغاشاہ زیب درانی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شہدا کے خاندانوں پر بے جا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ منصوبے کے لیے حاصل کی گئی 12 گاڑیاں حیران کن طور پر اسلام آباد میں استعمال کی گئیں ہیں اور گزشتہ تین سالوں سے پروجیکٹ ڈائریکٹر اور انجینئرز سائٹ پر بھی موجود نہیں ہیں۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر آغاشاہ زیب درانی نے وزارت کو ہدایت کی کہ معاملے کی جلد سے جلد انکوائری کرکے ذمہ دارن کا تعین کیا۔فنکشنل کمیٹی کے اجلاس میں سینیٹر محمد اسلم ابڑو، سینیٹر سید کاظم علی شاہ، سینیٹر سیف اللہ ابڑو، سینیٹر دانش کمار، سینیٹر ایمل ولی خان، وفاقی وزیر پیٹرولیم سینیٹر مصدق ملک، سیکریٹری پیٹرولیم ڈویژن مومن آغا، سیکریٹری وزارت ہاسنگ اور دیگر نے شرکت کی