مخالفین کو دیوار سے لگانے کی روِش تباہ کن نتائج لاتی ہے،لیاقت بلوچ


لاہور(صباح نیوز) نائب امیر جماعتِ اسلامی اور مجلسِ قائمہ سیاسی قومی امور کے صدر لیاقت بلوچ نے کہا ہے کہ مخالفین کو دیوار سے لگانے کی روِش تباہ کن نتائج لاتی ہے،1977 کا مارشل لا اور جمہوری حکومت کا غیرآئینی خاتمہ ملک کی سیاست پر مسلسل سنسنی اثرات مرتب کررہا ہے،آج بھی ملک میں سیاسی، جمہوری، اقتصادی اور آئینی بحران شدید تر ہے، 5 جولائی 1977 کے مارشل لا، جمہوری حکومت کے خاتمہ اور ماضی کی تباہی کا سبق یہ ہی ہے کہ سیاسی جمہوری قیادت بالغ نظری کا ثبوت دے۔

لیاقت بلوچ نے لاہور میں عہدیداران اور سیاسی ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 5 جولائی 1977 کو جمہوریت کا خاتمہ اور طویل مارشل لا مسلط ہوگیا۔ سیاسی جمہوری اعتبار سے یہ دن پاکستان کی تاریخ کاسیاہ ترین دِن تھا۔ 1977 کے انتخابات میں دھاندلی پر ملک بھر میں تاریخ ساز تحریک چلی جسے قومی اتحاد نے تحریکِ نظامِ مصطفےۖ کا عنوان دیا۔ طویل تحریک کے نتیجہ میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور قومی اتحاد کی قیادت کے درمیان کامیاب مذاکرات ہوئے جس کے نتیجے میں دھاندلی زدہ علاقوں میں دوبارہ انتخاب کا معاہدہ ہوا لیکن وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے معاہدہ پر عملدرآمد میں تاخیر کی اور اِس تاریخی لمحاتی تاخیر نے فوجی طالع آزما کو شب خون مارنے کا موقع دیا جو ملک و مِلت کے لئے بڑی خرابیوں کا باعث بن گیا، آئین سے ماورا اقدام اور مارشل لا کی کوئی بھی صورت ہو، ملک و مِلت کے لیے سنسنی خیز نتائج کا باعث ہوتی ہے۔

لیاقت بلوچ نے کہا کہ 1977 کا مارشل لا اور جمہوری حکومت کا غیرآئینی خاتمہ ملک کی سیاست پر مسلسل سنسنی اثرات مرتب کررہا ہے، سیاست میں کشیدگی، حکومتی اختیارات کا ناجائز استعمال، سیاست میں عدم برداشت، سیاسی محاذ پر اپنے نقطہ نطر کو طاقت سے مسلط کرنا اور مخالفین کو دیوار سے لگانے کی روِش تباہ کن نتائج لاتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو مقبول ترین اور عالمی شہرت کے حامل لیڈر تھے لیکن اسلوبِ حکمرانی نے سیاسی جمہوری محاذ پر بڑی تلخیاں پیدا کردیں، عوام میں 1951 کے بعد سے پکتا لاوا 1977 کی عوامی تحریک کی صورت میں پھٹا، تلخی، عدم برداشت اس قدر بڑھی کہ فوجی دباؤ میں ذوالفقار علی بھٹو کو عدالت نے سزائے موت دی اور اب خود سپریم کورٹ نے اسے عدالتی قتل قرار دیا ہے، آج بھی ملک میں سیاسی، جمہوری، اقتصادی اور آئینی بحران شدید تر ہے، سیاسی مخالفت میں ایک دوسرے کے خلاف ماضی کی طرح مخالفانہ الفاظ اور اسلوب کی آگ برسائی جارہی ہے۔

لیاقت بلوچ نے کہا کہ 5 جولائی 1977 کے مارشل لا، جمہوری حکومت کے خاتمہ اور ماضی کی تباہی کا سبق یہ ہی ہے کہ سیاسی جمہوری قیادت بالغ نظری کا ثبوت دے، قومی ترجیحات پر بامعنی قومی ڈائیلاگ کیا جائے، ملک کو سیاسی بحران سے نکالا جائے، وگرنہ آئین سے ماورا قوتوں، طالع آزماؤں سے بھیک مانگ کر نہ جمہوریت مستحکم ہوگی اور نہ سیاسی استحکام آئے گا۔

لیاقت بلوچ نے صحافیوں کے سوال کے جواب میں کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے اے پی سی بلانے کا اعلان تو ہے لیکن ایجنڈا واضح نہیں، عزمِ استحکام آپریشن پر اے پی سی کے ذریعے حکومتی عجلت اور غلطی کا ازالہ تو پیشِ نظر ہے لیکن سیاسی جمہوری محاذ پر صرف ایک نقطہ نہیں، ہمہ پہلو بنیاد پر سیاسی بحران کا خاتمہ اور سیاسی اقتصادی استحکام لانا ضروری ہے۔