سب پر لازم ہے کہ دستورپاکستان کی بالادستی کو تسلیم کریں۔اعلامیہ علما مشائخ نمائندہ اجلاس

اسلام آباد (صباح نیوز)اسلامی نظریاتی کونسل کے تحت علما و مشائخ کے نمائندہ اجلاس کا بیس نکاتی ضابطہ اخلاق جاری، واضح کیا گیا ہے کہ آزادی اظہار اسلام اور ملکی قوانین کے ماتحت ہے،سب پر لازمہے کہ  پاکستان کے دستور کی بالادستی کو تسلیم کریں، ہر حال میں ریاست کے ساتھ اپنی وفاداری کے حلف کو نبھائیں، پاکستان کی اسلامی ساخت اور قوانینِ پاکستان کا تحفظ کیا جائے گا۔ پاکستان کے شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ شریعت کے نفاذ کے لیے پرامن جدوجہد کریں ۔وزیر مذہبی امور چوہدری سالک حسین نے کہا ہے کہ  ملک میں یگانگت ، بھائی چارہ اور امن کی فضا قائم رکھنے میں علما کرام کا نمائندہ اجلاس اہم کردار ادا کرے گا۔  منگل کو  چیئرمین ڈاکٹر راغب نعیمی کی زیر صدارت اسلامی نظریاتی کونسل میں علما و مشائخ کا نمائندہ اجلاس ہوا۔

وفاقی وزیر مذہبی امورنے کہا کہ ملک کے اندرونی حالات میں موجود شدت پسندی اور انتہا پسندی کی باقی ماندہ جڑیں بھی اب ختم ہو نے کے قریب ہیں۔ معاشرتی اصلاح کیلئے علما کا کردار ناگزیر ہے۔  چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل  نے کہا کہ “عزم استحکام ” سے نیشنل ایکشن پلان کو نہ صرف تقویت ملے گی بلکہ حصول امن کے مطلوبہ نتائج بھی حاصل ہوں گے۔ ایک بار پھر محراب و مبنر سے پیغام پاکستان کے ضابطہ اخلاق کو عام کر نے اور اس ضابطہ اخلاق کو معاشرے کے بنیادی تانے بانے تک پہنچانے کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ محرم الحرام کے حوالہ سے الگ ضابطہ اخلاق کو بھی عام کرنا انتہائی اہم ہے ۔ یہ اہم ذمہ داری  علما و مشائخ ہی سرانجام دے سکتے ہیں۔  دستور کی بالادستی قائم کی جائے اور ہر شہری کے بنیادی حقوق کی ادائیگی کا خیال رکھا جائے ۔ ایک طرف مقدسات اسلام کی تعظیم کر نا ہو گی تو دوسری طرف تکفیر، نفرت انگیزی ،تشدد، تعصب، فرقہ واریت اور انتہا پسندی کے خاتمہ کے لئے حقیقی اقدامات بھی کر نا ہوں گے۔ پیغام پاکستان کی روشنی میں ضابط اخلاق میں کہا گیا ہے کہ  تمام شہریوں کا یہ فرض ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی بالادستی کو تسلیم کریں، ریاست پاکستان کی عزت و تکریم بجا لائیں اور ساتھ ہی ساتھ ہر حال میں ریاست کے ساتھ اپنی وفاداری کے حلف کو نبھائیں۔ پاکستان کے تمام شہری بنیادی حقوق کی عزت و تکریم کو یقینی بنائیں جیسا کہ دستور پاکستان میں مندرج ہیں، بشمول قانون کی نظر میں مساوات، سماجی اور سیاسی حقوق، اظہار خیال، عقیدہ، عبادت اور اجتماع کی آزادی۔

پاکستان کی اسلامی ساخت اور قوانینِ پاکستان کا تحفظ کیا جائے گا۔ پاکستان کے شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ شریعت کے نفاذ کے لیے پرامن جدوجہد کریں۔ اسلام کے نفاذ کے نام پر جبر کا استعمال، ریاست کے خلاف مسلح کارروائی، تشدد اور انتشار کی تمام صورتیں بغاوت سمجھی جائیں گی اور یہ شریعت کی روح کے خلاف ہیں اور کسی فرد کو یہ حق نہیں کہ وہ حکومتی، مسلح افواج اور دیگر سکیورٹی کے اداروں کے افراد سمیت کسی بھی فرد کو کافر قرار دے۔ علما، مشائخ اور زندگی کے ہر شعبے سے متعلقہ افراد کو چاہیے کہ وہ ریاست اور ریاستی اداروں خاص طورپر قانون نافذ کرنے والے اداروں اور مسلح افواج کی بھرپور حمایت کریں تاکہ معاشرے میں سے تشدد کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے۔ ہر فرد ریاست کے خلاف لسانی، علاقائی، مذہبی اور فرقہ وارانہ تعصبات کی بنیاد پر چلنے والی تحریکوں کا حصہ بننے سے گریز کرے۔ ریاست ایسے گروہوں کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔ کوئی شخص فرقہ وارانہ نفرت، مسلح فرقہ وارانہ تنازعہ اور جبرا اپنے نظریات کسی دوسرے پر مسلط نہ کرے کیونکہ یہ شریعت کی کھلی خلاف ورزی ہے اور فساد فی الارض ہے۔ کوئی نجی یا سرکاری یا مذہبی تعلیمی ادارہ عسکریت کی تبلیغ نہ کرے، تربیت نہ دے اور نفرت انگیزی، انتہاپسندی اور تشدد کو فروغ نہ دے۔ ایسی سرگرمیوں میں ملوث افراد اور اداروں کے خلاف قانون کے مطابق ثبوت اور شواہد کی بنیاد پر سخت کارروائی کی جائے گی۔ انتہا پسندی، فرقہ واریت اور تشدد کو فروغ دینے والوں، خواہ وہ کسی بھی تنظیم یا عقیدے سے ہوں، کے خلاف سخت انتظامی اور تعزیری اقدامات کیے جائیں گے۔ اسلام کے تمام مکاتب فکر کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے اپنے مسالک اور عقائد کی تبلیغ کریں، مگر کسی کو کسی شخص، ادارے یا فرقے کے خلاف نفرت انگیزی اور اہانت پر مبنی جملوں یا بے بنیاد الزامات لگانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ کوئی شخص خاتم النبیین حضرت محمدصلی اللہ علیہ و سلم، جملہ انبیا کرام امہات الممنین، اہلِ بیت  اطہار، خلفا راشدین اور صحابہ کرام کی توہین نہیں کرے گا۔

کوئی فرد یا گروہ قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے گا نہ ہی توہینِ رسالت کے کیسز کی تفتیش یا استغاثہ میں رکاوٹ بنے گا۔ کوئی شخص کسی مسلمان کی تکفیر نہیں کرے گا  اور صرف مذہبی سکالر ہی شرعی اصولوں کی وضاحت مذہبی نظریے کی اساس پر کرے گا۔ البتہ کسی کے بارے میں کفر کے مرتکب ہونے کا فیصلہ صادر کرنا عدالت کا دائرہ اختیار ہے (مسلمان کی تعریف وہی معتبر ہوگی جو دستور پاکستان میں ہے)۔مزیدکہا گیا ہے کہ  کوئی شخص کسی قسم کی دہشت گردی کو فروغ نہیں دے گا، دہشت گردوں کی ذہنی و جسمانی تربیت نہیں کرے گا، ان کو بھرتی نہیں کرے گا اور کہیں بھی دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوگا۔ سرکاری، نجی اور مذہبی تعلیمی اداروں کے نصاب میں اختلافِ رائے کے آداب کو شامل کیا جائے گا کیونکہ فقہی اور نظریاتی اختلافات پر تحقیق کرنے کے لیے سب سے موزوں جگہ صرف تعلیمی ادارے ہوتے ہیں۔ تمام مسلم شہری اور سرکاری حکام اپنے فرائض کی انجام دہی اسلامی تعلیمات اور دستور پاکستان کی روشنی میں کریں گے۔ بزرگ شہریوں، خواتین، بچوں، خنثی اور دیگر تمام کم مستفیض افراد کے حقوق کے حوالے سے اسلامی تعلیمات ہر سطح پر دی جائیں گی۔۔ پاکستان کے غیر مسلم شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب اور مذہبی رسومات کی ادائیگی اپنے اپنے مذہبی عقائد کے مطابق کریں۔ اسلام خواتین کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔ کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ خواتین سے ان کے ووٹ، تعلیم اور روزگار کا حق چھینے اور ان کے تعلیمی اداروں کو نقصان پہنچائے۔ ہر فرد غیرت کے نام پر قتل، قرآن پاک سے شادی، ونی، کاروکاری  اور وٹہ سٹہ سے باز رہے، کیونکہ یہ اسلام کی رو سے ممنوع ہیں۔ کوئی شخص مساجد، منبر و محراب، مجالس اور امام بارگاہوں میں نفرت انگیزی پرمبنی تقاریر نہیں کرے گا اور فرقہ وارانہ موضوعات کے حوالے سے اخبارات، ٹی وی یا سوشل میڈیا پر متنازعہ گفتگو نہیں کرے گا۔آزادی اظہار اسلام اور ملکی قوانین کے ماتحت ہے، اس لیے میڈیا پر ایسا کوئی پروگرام نہ چلایا جائے جو فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کا سبب بنے اور پاکستان کی اسلامی شناخت کو مجروح کرے۔