مخصوص نشستوں کا کیس،سماعت 27 جون تک ملتوی

اسلام آباد(صباح نیوز) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جب بھی کوئی جمہوریت آتی ہے توہم چھریاںنکال کرسامنے آجاتے ہیں اورجب بھی کوئی ڈکٹیٹر آتا ہے توفوراً اس کے ساتھ ہوجاتے ہیں، وزیر بن جاتے ہیں ، اٹارنی جنرل بن جاتے ہیں،اصول کی بات کرنی ہے توسب سے بڑا اصول آئین کااصول ہے، آئین کے اصول پر کیوں گامزن نہیں ، یہ اصول اور وہ اصول ،اسی نے توپاکستان کوتباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ میرے خیال میں آزادامیدواروں کو اپنی پارٹی میں رہنا چاہیئے اورسنی اتحاد کونسل میں شامل نہیں ہونا چاہیئے تھا ہم نے تونہیں کہا تھا کہ سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کریں۔سپریم کورٹ کا فیصلہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے پر تھا، اس کے اثرات ہو سکتے تھے۔ جمہوریت کی ضرور بات کرنی ہے لیکن انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کروانا۔مجھے نہیں سمجھ آتی کیوں اپنی سیاسی جماعت میں انٹر پارٹی الیکشن نہیں کرواتے، کیا یہی جمہوریت ہے۔ جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ میری ذاتی رائے میں سب سے اہم درخواست جو اس عدالت میں زیر التوا ہے وہ 8فروری کو ہونے والے انتخابات میں مبینہ طور پر ہونے والی بے ضابطگیوں کے حوالے سے ہے اوریہ ہرکسی کے علم میں ہے۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج سید منصور علی شاہ ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ خان آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر،جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر فغان پر مشتمل 13 رکنی فل کورٹ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے خواتین اوراقلتیوں کی مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے خلاف سنی اتحاد کونسل ، اسپیکر خیبر پختونخوااسمبلی، حکومت خیبر پختونخوااور پی ٹی آئی خواتین ونگ کی صدر کنول شوزب کی جانب سے دائر 10درخواستوں پر سماعت کی۔ درخواستوں میں لیکشن کمیشن آف پاکستان، شازیہ تہماش خان، ایمن جلیل جان، مہرسلطانہ اوردیگر کوفریق بنایا گیا ہے۔ درخواستوں پر صبح 10بجے سماعت شروع ہوئی ۔اضافی طور پر مخصوص پر منتخب ہونے والی خواتین خواتین ارکان قومی اورصوبائی اسمبلی کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کاآغاز کیا۔ سماعت کے آغاز پر ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا شاہ فیصل اتمانخیل نے روسٹرم پر آکر کرکہا میں سنی اتحاد کونسل کے کیس میں عدالتی نوٹس پر ہوں میرے دلائل سنے جائیں۔اس پر چیف جسٹس کا کہناتھا کہ آپ کی باری آئے گی تھوڑی سی تسلی کریں، کوئی ڈیکورم ہوتا ہے، آپ کو پہلے سن چکے ہیں، قانون میں لکھا ہے کہ اگر عدالتی نوٹس پر دلائل سنیں گے توپھر سب سے پہلے اٹارنی جنرل کے دلائل سنیں گے اور کے بعد کسی ایڈووکیٹ جنرل کے دلائل سنیں گے۔

جبکہ سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز ججز نے کچھ سوالات پوچھے تھے ان کا جواب ابھی دے دوں یا جواب الجواب میں دوں،انتخابی نشان الاٹ نہیں ہواتھا اس لئے پارٹی چیئرمین نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑاتاہم جب کاغذات نامزدگی جمع کروائے توانہوں نے اپنی وابستگی سنی اتحادکونسل کے ساتھ بتائی تھی،انہیں اپنی پارٹی کاانتخابی نشان الاٹ نہیں ہوااس لئے انہوں نے آزادحیثیت میں الیکشن لڑاوربعد میں اپنی ہی پارٹی میںشامل ہوئے۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہناتھا کہ کاغذات نامزدگی میں ان کا ڈکلیئریشن تھا۔فیصل صدیقی کا کہناتھا کہ صاحبزادہ محمد حامد رضا نے لکھا تھا کہ ان کی وابستگی سنی اتحاد کونسل سے ہے۔  فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ مجھے سنی اتحاد کونسل کی جانب سے ہدایات ہیں کہ اگر ہمیں مخصوص نشستیں الاٹ ہوتی ہیں تو کنول شوزب ہماری امیدوارہوں گی اور انہیں پارٹی سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے گا۔مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ وہ 15سے19اور21اور22نمبرمدعا علیحان کی نمائندگی کررہے ہیں۔مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ 15سے18تک مدعا علیحان کا تعلق (ن)لیگ،19کا تعلق جمعیت علماء اسلام پاکستان اور 21اور22نمبر کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمٹرینز سے ہے۔جسٹس عائشہ اے ملک کاکہناتھا کہ کیا یہی متاثرہ فریق ہیں یا دیگر بھی ہیں۔ ا س پر مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ اوربھی ہیں۔

مخدوم علی خان کا کہناتھا کہ 15دسمبر کو الیکشن کمیشن نے شیدول جاری کیا، پہلے 22دسمبر اورپھر 24دسمبر تک توسیع دی گئی اورمخصوص نشستوں کے حوالہ سے فہرستیں جمع کروانے کی تاریخ بھی 24دسمبر مقرر ہوئی۔ مخدوم علی خان کا کہناتھا کہ صاحبزادہ حامد رضا نے ٹاور کے نشان پر انتخاب لڑا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوئی نئی دستاویز دائر ہی نہیں کررہے، فارم کی کاپیاں کرواکرجمع کروادیں۔ جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ کیا مخصوص نشستوں کے لئے پارٹیوں نے کوئی اضافی فہرستیں بھی جمع کروائیں۔ مخدوم علی کاکہنا تھا کہ میری مئوکلان اوریجنل فہرستوں میں شامل تھیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ یہ حیرنی کی بات ہے کہ فیصل صدیقی اور سلمان اکرم راجہ نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلہ کاتذکرہ بھی نہیں کیا۔ مخدوم علی خان کا کہناتھا کہ پشاور ہائی کورٹ نے 14مارچ کو مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو نہ دینے کامختصر فیصلہ دیا اور 25مارچ کوتفصیلی فیصلہ جاری کیا۔مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ 6مئی کو سپریم کورٹ نے حکم امتناع جاری کیا جس کے بعد الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں پر اضافی سیٹوں پر منتخب ہونے والی خواتین اوراقلتی ارکان کو معطل کردیا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کا کہنا تھا کہ کتنی سیٹوں پر معطل کیا گیا۔ جسٹس عائشہ اے ملک کاکہنا تھا کہ کیا قومی اورصوبائی اسمبلیوں دونوں کے ارکان اس میں شامل ہیں۔

مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل نے پارٹی ٹکٹ پر کوئی امیدوار عام انتخابات میں کھڑا نہیں کیا۔ جسٹس عائشہ ملک کاکہناتھا کہ کیوں گھوڑے کے نشان پر انتخاب نہیں لڑنے دیا گیا۔ جسٹس محمد علی مظہر کا کہناتھا کہ گھوڑے کاانتخابی نشان موجود تھاتاہم اس نشان پر کس نے الیکشن نہیں لڑا۔مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ اگر بلوچستان سے قومی اسمبلی کی 16نشستیں ہیں تو اگر8آزاد جیتے ہیں اور دوپارٹیوں کے 4،4ارکان منتخب ہوئے تو ان میں 2،2مخصوص نشستیںالاٹ ہوں گی۔مخدوم علی خان کاکہناتھاکہ آئین واضح ہے کہ آزاد جتنے بھی ہوں مخصوص نشستیںسیاسی جماعتوںمیںتقسیم ہوںگی۔جسٹس منیب اخترکا کہنا تھا کہ کاغذات نامزدگی پر پی ٹی آئی امیدوار تھے اور الیکشن کمیشن نے کیسے آزادقراردیئے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ پہلے دن امیدوار جاکر پارٹی ٹکٹ پر امیدوار بنتا ہے، اگر وہ کسی دوسری پارٹی میں جائے گا تو پھر 63-Aآجائے گا۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ یہ غیر متنازعہ حقیقت ہے کہ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کوآزاد قراردیا اوران کے پاس کوئی چوائس نہیں تھی، الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ کے فیصلہ کی نہایت غلط انداز میں تشریح کی اورآئین کے مطابق اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔

جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ کیسے الیکشن کمیشن نے 4مارچ کو امیدواروں آزاد قراردیا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہناتھا کہ یہ تلخ حقیقت ہے اورہر کوئی جانتا ہے کہ کیا ہورہا تھا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پاکستا تحریک انصاف ہمارے سامنے نہیں، اگر الیکشن کمیشن کا فیصلہ غلط تھا تو اس فیصلہ کو ہمارے سامنے چیلنج نہیں کیا گیا، سنی اتحاد کونسل ہمارے سامنے ہے کہ ہمیں مخصوص اور اقلیتوں کی نشستیں دی جائیں، پی ٹی اورآزاد ارکان ہمارے سامنے نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن اچھے اور برے فیصلے کرتا ہے، فیصلے کو چیلنج کریں، یہ درخواست اچانک ہمارے سامنے نہیں آتی ، ہر کوئی اس کو جانتا ہے، پشاور ہائی کورٹ چلے جاتے، کوئی دبائو تھا یا نہیں تھا، میں قیاس پر نہیں بلکہ حقائق پر جائوں گا۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہناتھاکہ عوام کے ووٹ کے حق کا تحفظ ہم نے کرنا ہے، کیسے الیکشن کمیشن نے کیسے آکر کہا کہ آپ آزا د ہیں، کیسے یہ فیصلہ کیا، کیا سپریم کورٹ کو لوگوں کے حقوق کو نہیں دیکھنا چاہیئے، جہاں سے سارا معاملہ شروع ہوا۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ قانون اورآئین پر عمل کرنا ہے یہ آج بھی میں ججوں کو حلف دیا ہے۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ الیکشن جینوئن ہونے چاہیں اور لوگوں کو اعتماد ہونا چاہیئے ، اگر آئین پر عمل کرنا ہے تو یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ الیکشن جینوئن ہواورہم نے اسے یقینی بنانا ہے۔جسٹس امین الدین خان کا کہنا تھا کہ ہم اپیل سن رہے ہیں نہ کہ ہم 184-3کے تحت کیس سن رہے ہیں۔

جسٹس عرفان سعادت خان کاکہناتھا کہ کبھی پی ٹی آئی بن جاتی ہے کبھی نظریاتی بن جاتی ہے، ان دونوں میں فرق کیا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر کاکہنا تھا کہ میرے ٹکٹ پر پی ٹی آئی نظریاتی کے لگے ہوئے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں آزادامیدواروں کو اپنی پارٹی میں رہنا چاہیئے اورسنی اتحاد کونسل میں شامل نہیں ہونا چاہیئے تھا ہم نے تونہیں کہا تھا کہ سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کریں۔ جسٹس سید منصورعلی شاہ کاکہنا تھا کہ لاکھوں لوگوں نے ووٹ دیئے جو ہمارے سامنے نہیں ، کیسے الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو آزاد قراردیا۔ جسٹس عائشہ ملک کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد کونسل اپنا کیس جیتے یاہارے مخدوم علی خان نے اپنا کیس بنانا ہے ، متناسب نمائندگی کے زریعہ مخصوص نشستیں تقسیم ہوتی ہیں ، متناسب نمائندگی کاکیا مطلب ہے۔جسٹس عائشہ ملک کا مخدوم علی خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کا کیس نہیں بنتا، ان کوسیٹیں ملتی ہیں یا نہیں آپ اپنا کیس بتائیں کہ آپ کو کیسے نشستیں ملیں گی۔ مخدوم علی خان کاکہناتھا کہ پارٹی نے عام انتخابات میں حصہ نہیں لیا اور نہ ہی مخصوص نشستوں کے لئے فہرست جمع کروائی ، ترجیح تبدیل نہیں ہوسکتی، جو کہ فہرست دی ہی نہیں گئی، اگر کوئی فہرست انتخابات میں نہیں دی گئی توبعدمیں نہیں دی جاسکتی اور یہ نشستیں دیگر انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں میں تقسیم ہوں گی۔

جسٹس سید منصورعلی شاہ کامخدوم علی خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ایک ہی پارٹی ایک سیٹ جیتتی ہے اورباقی ساری نشستیں آزاد امیدوار جیتتے ہیں تو کیا ساری مخصوص نشستیں ایک سیٹ جیتنے والی پارٹی کو ملیں گی۔ مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ جسٹس سید منصورعلی شاہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے قراردیا کہ یہ فرسٹ امپریشن کاسوال ہے۔ جسٹس یحییٰ خان آفریدی نے سوال کیاکہ کیا یہ نشستیں خالی رہ سکتی ہیں۔ اس پر مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ خالی نہیں رہ سکتیں۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ اگر جج ریٹائرڈ ہوتا ہے تونیا جج تعینات ہوجاتا ہے ، کیا جج کی ریٹائرمنٹ پر سپریم کورٹ کام کرنا بند کردے گی، اگر کوئی رکن قومی اسمبلی انتقال کرجاتا ہے تو پھر ضمنی الیکشن ہوجاتا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بار، بار میں کہہ رہا ہوں کہ پی ٹی آئی ہمارے سامنے کیوں نہیں آئی وہ کہہ رہے ہیں کہ سنی اتحاد کونسل کو ملنی چاہیں۔ مخدوم علی خان کا کہناتھا کہ متناسب نمائندگی کے مطابق آزاد ارکان کونکال کر سیاسی جماعتوں میں مخصوص نشستیں تقسیم ہوں گی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پاکستان کے تمام مسائل اس وقت شروع ہوتے ہیں جب آئین کی توہین کی جاتی ہے،کسی آسٹرین فلاسفر کی نئی تشریح کی جاتی ہے، پیوکلسن تھیوری آف لاء پیش کی جاتی ہے،ہم نے اس آئین کو بہت مرتبہ مولڈ کیا ہے۔ چیف جسٹس کی بات کے دوران جسٹس عائشہ اے ملک نے بولتے ہوئے کہا میں چیف جسٹس کی طرح نہیں جانتی ، چیف جسٹس متناسب نمائندگی کے حوالہ سے سمجھا دیں۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا مجھے فکرہ مکمل کرنے کی اجازت دیں گے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیاآئین کاآرٹیکل 5ہمیں اس بات کااختیار دیتا ہے کہ جو ہم سوچتے ہیں وہ ملک کے لئے سب سے زیادہ بہتر ہے اوراسے ملک پر مسلط کریں،آئین کاآرٹیکل5بڑا واضح ہے کہ ہر کسی پر آئین پر عمل کرنا لازم ہے اورآئین پسند نہیں توجاکراس کی تشریح کرلیں۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ کیا یہ لازم ہے کہ ایوان مکمل ہو، بادی النظر میں میری رائے ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ تعداد پوری ہو۔ مخدوم علی خان کا کہناتھا کہ اگر دو نشستیں الگ، الگ پارٹیوں نے جیتی ہیں اورباقی 234نے جیتی ہیں توتمام مخصوص نشستیں ایک ، ایک نشست حاصل کرنے والی پارٹیوں میںبرا بر تقسیم ہوں گی۔ چیف جسٹس کا مخدوم علی خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہناتھا کہ ہمیں آمرانہ طرز حکومت سے اتنی دل لگی ہے کہ آپ بھی ڈکٹیٹر کے اٹارنی جنرل رہ چکے ہیں ، وہ وقت تھا جب میں نے وکالت چھوڑ دی تھی، پتا نہیں کتنے سال جب تک وہ ججز بحال نہیں ہوئے،جب بھی کوئی جمہوریت آتی ہے توہم چھریاںنکال کرسامنے آجاتے ہیں اورجب بھی کوئی ڈکٹیٹر آتا ہے توفوراً اس کے ساتھ ہوجاتے ہیں، وزیر بن جاتے ہیں ،

اٹارنی جنرل بن جاتے ہیں،اصول کی بات کرنی ہے توسب سے بڑا اصول آئین کااصول ہے، آئین کے اصول پر کیوں گامزن نہیں ، یہ اصول اور وہ اصول ،اسی نے توپاکستان کوتباہ کرکے رکھ دیا ہے، ہم آئینی عدالت ہیں ، آئینی باتیں کریں، کہاں لکھا ہے کہ ہم فلاں پرنسل امپورٹ کر لیں، وہ انگلستان کے جج نے کیا کہا ہے وہ اُس کے جج نے کیا کہا ہے، پہلے بتائیں اس کی زبان واضح نہیں ہے آگے بڑھتے ہیں،آئین تقدس ہے، یہ آپ کی مرضی نہیں اس پر عمل کریں گے یا نہیں،آپ پر عمل کرنا لازم ہے،ہم پر دوہرالازم ہے کیوں کہ ہم آئین کا حلف لے لیتے ہیں، آپ نہیںلیتے، تاریخ پر بات کریں تاہم پھر پاکستان کی پوری تاریخ پر بات کریں۔جسٹس اطہر من اللہ کاکہنا تھا کہ آج آئین برقرارنہیں رکھا جارہا ہے،جو کچھ ہورہا ہے سب کو معلوم ہے اورکوئی اس طرح مکرکررہا ہے جیسا کہ ہم صرف ماضی کے حوالہ سے بات کررہے ہیں، آج سپریم کورٹ کے بارے میں یہ نظر نہیں آنا چاہیئے کہ یہ تساہل برت رہی ہے،اس لئے لوگوں کے حقوق کاتحفظ ضروری ہے،ہر کسی نے ماضی میں غلطیاں کی ہیں، کوئی بھی فرشتہ نہیں ہے،تاہم ایک ان یہ کہنے کاعزم ہونا چاہیئے کہ جو ہو گیا سوہو گیا، آج بطور سپریم کورٹ ہم نے اپنے سر ریت میں دفن کردینے چاہیں اورہم حقیقت کاسامنا نہیں کرنا چاہتے،آخر کار جو بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے ، جبری گمشدگیاںہیںاس کے ہم ذمہ دار ہیں، ہم ان کو بولنے بھی نہیں دے رہے اورکہہ رہے ہیں یہ سیاسی مسئلہ ہے،یہ سیاس مسئلہ نہیں بلکہ آئین سے متعلق مسئلہ ہے، یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا معاملہ ہے، ہم اپنی آنکھیں بند نہیں کرسکتے، میری ذاتی رائے میں سب سے اہم درخواست جو اس عدالت میں زیر التوا ہے وہ 8فروری کو ہونے والے انتخابات میں مبینہ طور پر ہونے والی بے ضابطگیوں کے حوالے سے ہے اوریہ ہرکسی کے علم میں ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمیں بھی اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا چاہیئے۔سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو تووکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل جاری رکھے۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ حقیقت یہ ہے سنی اتحاد نے لسٹ دی نہ انتخابات میں حصہ لیا۔

جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ 2 فروری 2024 والا الیکشن کمیشن کا فیصلہ سپریم کورٹ کی غلط تشریح پر ہے، کیا ہمیں الیکشن کمیشن کے غلط تشریح پر مبنی فیصلہ نہیں دیکھنا چاہیے یا نظر انداز کردینا چاہیے۔جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اقلیتی، خواتین کو ضرور پارلیمنٹ میں نمائندگی ملنی چاہیے۔ ماضی کے انتخابات میں ن لیگ، پیپلزپارٹی کہیں نہ کہیں متاثرہ رہی لیکن سپریم کورٹ مدد کے لیے سامنے نہیں آئی۔ جیسا 2018 میں ہوا اب بھی ویسا ہی ہو رہا ہے، متاثرہ ایک ہی سیاسی جماعت رہی۔ ہم نے اپنی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ مخصوص نشستوں سے انتخابات کا رزلٹ آسانی سے تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ 2 سیاسی جماعتیں ہیں تو انہیں میں مخصوص نشستیں بانٹ دی جائیں گی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مخصوص نشستیں بانٹنے کا طریقہ کار ہر انتخابات میں تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ میں سیاسی جماعتوں کی لسٹ دیکھنے کا نہیں کہہ رہا، آئین کہہ رہا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی لسٹ دیکھیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سسٹم کی خوبصورتی ہے کہ اقلیتی بھی آپ کی سیاسی جماعت میں آکر بیٹھیں۔ اگر سیاسی حریف نہیں پسند تو سسٹم کی خوبصورتی ہے کہ دونوں حریف ساتھ بیٹھیں گے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا صرف یہی ضروری ہے کہ سیٹیں زیادہ ہوں یا انتخابات میں خواتین، اقلیتوں کی نمایندگی پر بات کرنا ضروری ہے۔ اقلیتی، خواتین کسی سیاسی جماعت میں ہیں یا نہیں لیکن ان کی نمائندگی کو محفوظ کرنا ہے۔ تاریخ پر بات کرنی چاہیے اور تاریخ سے سیکھنا چاہیے۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اگر 2 سیاسی جماعت ہیں تو انہی میں مخصوص نشستیں بانٹ دی جائیں گی؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کیا مخصوص نشستوں کی بنیاد پر عام انتخابات کے آٹ کم کو مکمل تبدیل کر دیا جائے؟ جو جماعتیں اکثریت نہیں لے سکیں انہیں مخصوص نشستوں سے اکثریتی کر دیا جائے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم نے یہ نہیں دیکھنا کہ منطق میں درست ہے یا نہیں؟ ہم نے یہ دیکھنا ہے آئین میں کیا ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمنٹ میں 2 طریقہ کار سے سیٹیں بانٹی گئی ہیں۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آزاد امیدوار نے ایسی سیاسی جماعت شامل ہونا ہوتا ہے جس نے کم سے کم ایک سیٹ جیتی ہو۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئین کیمطابق عوام کی منشا پر ہی عمل ہونا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک جنٹلمین نے کہہ دیا تھا آئین کیا ہے کاغذ کا ٹکڑا چاہوں تو پھاڑ دوں۔

وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سیاسی جماعت اگر خواتین یا اقلیتی نشستوں کے لیے لسٹ نہیں دیتی تو کیا پارلیمنٹ میں سیٹ خالی رکھی جائیگی؟ انتخابات میں سیاسی جماعت ہی صرف مخصوص سیٹ جیت سکتی ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے پوچھا کہ سیاسی جماعت کون ہیں؟ مخدوم علی خان نے بتایا کہ مخصوص نشستوں کی لسٹ دینے والی سیاسی جماعت کہلاتی ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ یعنی جو لسٹ مہیا نہیں کرتی تو اسے سیاسی جماعت نہیں کہیں گے۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اگر سیاسی جماعت نے انتخابات سے قبل لسٹ نہیں دی اور انتخابات کے بعد دے تو مزید غیر جمہوری ہو جائیگی۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ حالیہ انتخابات میں آزاد امیدواروں نے دیگر سیاسی جماعتوں کی نسبت زیادہ سیٹیں جیتیں۔ مجھے مسئلہ ہے کہ کس حساب سے سیٹیں بانٹی جائیں گی۔ قومی اسمبلی میں ن لیگ کو 17 اور بعد میں مزید 10 مخصوص نشستیں دی گئیں۔ آپ کہہ رہے اگر سنی اتحاد سیاسی جماعت رہتی تو 17 سیٹیں ہوتیں، اب جب نہیں تو 27 سیٹیں ن لیگ کی ہوگئیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ایک سیاسی جماعت کے مینی فیسٹو میں اقلیتیں شامل نہیں تو اقلیتوں کی لسٹ نہیں دی جائیگی، اگر خواتین یا اقلیتوں کی لسٹ نہیں دی گئی تو اثرات تو ہوں گے۔ اگر پرائز بانڈ خریدا ہی نہیں تو پرائز بانڈ نکل کیسے آئیگا، خریدنا تو ضروری ہے ناں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عوام کے حقوق کو کبھی اہمیت نہیں دی گئی، ہمیں درخواست گزاروں نے بتایا کہ اہم درخواستیں زیر التوا ہیں۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ درخواستیں کیوں زیر التوا ہیں؟ اس کا جواب عدالت دے، وکیل تو نہیں دے سکتا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ اگر چھوٹی باتوں میں پھنس گئے تو دیگر کو سن نہیں پائیں گے، آج ہی دلائل ختم بھی کرنے ہیں۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ جب کوئی سیاسی جماعت سیٹیں جیتے تو انتخابات میں جیت کا معلوم ہوتا ہے، جیتنے والی سیاسی جماعتوں میں آزاد امیدوار شامل ہوتے ہیں، جس سیاسی جماعت کے پاس سیٹ ہی نہیں وہاں آزاد امیدوار شامل نہیں ہوسکتے۔ جس سیاسی جماعت کی مخصوص نشستوں کی لسٹ ہی نہیں تو الیکٹوریٹ پر عملدرآمد نہیں کیا جا رہا۔وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ کوئی نہیں کہتا کہ ووٹرز سے ان کا حق چھین لیا جائیگا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ خواتین کی نمائندگی کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ اقلیتوں اور خواتین کو نمائندگی دینا اصل مقصد ہے۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ آئین میں ہر لفظ کو ایک معنی دینا ضروری ہے، آئین میں الیکشن میں منتخب ہونے کا لفظ لکھا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ صدر، سینیٹ سب کے انتخابات کے لیے الگ الیکٹوریٹ دیا ہوتا ہے۔ کیس میں لگ رہا جیسے انتخابات ہو ہی نہیں رہے لیکن آپ کہہ رہے کہ الیکشن ہو رہا ہے، جسٹس منیب اختر  کا مخدوم علی خان سے مکالمہ، آپ مجھے دکھا دیں کہ کوئی الیکشن ہو رہا ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہر انتخابات کو سیکرٹ بیلٹ کے تحت ہونا چاہیے، سیکرٹ بیلٹ کہاں ہے؟ وکیل مخدوم علی خان نے بتایا کہ ووٹرز کو معلوم ہوتا ہے کہ ووٹ دینے والی جماعت کی مخصوص نشستوں کی لسٹ کیا ہے؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہم ججز اور الیکشن کمیشن بھی آئین کی پاسداری کا حلف لیتا ہے۔ مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ سنی اتحاد نے جس طرح کیس کو عدالت میں پیش کیا ویسے ہی اسے دیکھنا چاہیے، سنی اتحاد نے کوئی مخصوص نشستوں سے متعلق لسٹ جمع نہیں کروائی، انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں کو انتخابات سے قبل مخصوص نشستوں کی لسٹ مہیا کرنا ہوتی ہیں، جو سیاسی جماعتیں انتخابات میں حصہ نہیں لے رہیں، ان پر مخصوص نشستوں کی لسٹ مہیا کرنا لازم نہیں۔ انتخابات میں حصہ لینے والی جماعت کو مخصوص نشستوں سے متعلق لسٹ بھی جمع کروانی ہوتی ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تاریخ بہترین استاد ہے ورنہ بار بار غلطیاں کی جاتی ہیں۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ میں کبھی نہیں کہوں گا کہ میں نے غلطیاں نہیں کیں۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سوال ہی یہ ہے کہ آپ کو مخصوص نشستیں کیسے مل سکتی ہیں؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ تحریک انصاف ہمارے سامنے نہیں، تحریک انصاف تو سنی اتحاد کو سپورٹ کر رہی ہے۔ کیس ہمارا سنی اتحاد کا ہے، تحریک انصاف کا نہیں، خود سے نیا کیس نہ بنائیں۔ میں تو بار بار بول کے تھک گیا ہوں کہ پی ٹی آئی ہمارے سامنے کیوں نہیں آئی۔ جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ اگر 86 آزاد امیدواروں سے آپ کو فائدہ ہوگا تو کس متناسب کے ساتھ ہوگا؟ کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کردیا گیا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر کوئی ممبر استعفیٰ دیدے یا انتقال کرجائے تو ایسا تو نہیں پارلیمنٹ کام کرنا چھوڑ دیگی۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ ایسا کیس کبھی نہیں آیا کہ کسی پارٹی نے انتخابات لڑے نہیں اور مخصوص نشستیں مانگ رہی ہو۔ جسٹس یحیی آفریدی نے استفسار کیا کہ کیا مخصوص نشستیں خالی رہ سکتی ہیں؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ مخصوص نشستیں خالی نہیں رہ سکتیں، اسمبلی نامکمل نہیں رہ سکتی خواتین کی مخصوص نشستیں پوری کرنا ہوں گی۔چیف جسٹس فائز عیسی نے کہا کہ کیا ہمیں آئین دوبارہ لکھنا شروع کر دینا چاہیے؟ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آئین میں پہلے سے درج متناسب نمائندگی کا فارمولہ سمجھائیں! فارمولا کیا ہے؟ مخدوم علی خان نے بتایا کہ اگر ایک سیاسی جماعت مخصوص نشستوں کی فہرست جمع نہیں کراتی تو وہ مخصوص نشستیں دوسری جماعتوں میں تقسیم ہو سکتی ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین کے مطابق اسمبلی کا مکمل ہونا ضروری نہیں؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کی لسٹ مہیا نہیں کی۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ ایسے کیا متناسب سیٹیں دیگر سیاسی جماعتوں کو مل جائیں گی؟ فرض کریں سنی اتحاد کو نہیں ملتیں مخصوص نشستیں لیکن آپ کو کیسے ملنی چاہیے؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ میں فرضی سوالات کے جوابات نہیں دوں گا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اپنے موقف پر قائم ہوں کہ پارٹی وابستگی ظاہر کرکے جماعت تبدیل کرنے والا نااہل تصور ہوگا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سارا معاملہ شروع ہی سیاسی جماعت کے امیدواروں کو آزاد قرار دینے سے ہوا، کیسے ممکن ہے کہ اس بنیادی سوال کو چھوڑ دیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل اپنا کیس جیتے یا ہارے، دوسری جماعتوں کو اس سے کیا فائدہ ہوگا؟ مخصوص نشستیں متناسب نمائندگی کے اصول پر ہی مل سکتی ہیں، متناسب نمائندگی کے اصول سے ہٹ کر نشستیں نہیں دی جا سکتیں۔ اضافی نشستیں لینے والے بتائیں کہ ان کا موقف کیا ہے؟ دیگر جماعتوں کو چھوڑیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آئین کو دوبارہ کیوں لکھیں، سارے مسائل تب ہی پیدا ہوتے ہیں جب آئین کی فلسفیانہ تشریحات کی جاتی ہیں، آرٹیکل 5 پڑھیں ہم آئین میں ترمیم نہیں کر سکتے۔ پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ تحریک انصاف نے ایسا کیوں کیا؟ اپنی پارٹی میں رہنا چاہیے تھا۔ سنی اتحاد میں شامل نہیں ہونا چاہیے تھا، ہم نے تو نہیں کہا کہ سنی اتحاد میں شامل ہوں۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ انتخابات کو سپریم کورٹ میں دیکھا جارہا، الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو آزاد کیسے ظاہر کیا؟ کسی سیاسی جماعت کی نہیں بلکہ الیکشن کے حوالے سے بات کر رہے ہیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی کا کیس ہمارے سامنے نہیں، میں بار بار کہہ رہا ہوں، کہہ کہہ کر تھک گیا ہوں کہ پی ٹی آئی ہمارے سامنے کیوں نہیں آ رہی؟ وہ تو کہہ رہے ہیں کہ مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کو ملنی چاہیئں۔ جسٹس عرفان سعادت نے استفسار کیا کہ تحریک انصاف اور تحریک انصاف نظریاتی میں کیا فرق ہے؟ کبھی تحریک انصاف ہوجاتی ہے، کبھی تحریک انصاف نظریاتی ہوجاتی، فرق بتائیں؟جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آئین کا دفاع کرنا ہے تو آئین کے مطابق ہی شفاف انتخابات ضروری ہیں، بنیادی حقوق میں ووٹ کا حق اہم ترین ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ مجھے پہلے دن سے تشویش تھی کہ تحریک انصاف کیوں نہیں سامنے آرہی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ لاکھوں افراد نے ووٹ دیا، ان کے حق کا تحفظ کرنا ضروری ہے، الیکشن کمیشن نے کیسے کہہ دیا کہ امیدوار آزاد ہیں، الیکشن کمیشن کے پاس تو ایسا اختیار نہیں، امیدواروں نے خود کو تحریک انصاف سے الگ نہیں کیا۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ سب سے اہم ووٹ کا حق ہے، انتخابات صاف شفاف ہونے چاہیے، سوالات تو بہت سنجیدہ اٹھے ہیں، انتخابات کے طریقہ کار پر سوالات اٹھے ہیں۔ سپریم کورٹ کی ڈیوٹی ہے کہ کوئی سیاسی انجینرنگ نہیں ہوئی۔ اگر انتخابات شفاف نہیں ہوئے تو آئین کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور ہم بھی اپنے حلف کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ تحریک انصاف کیس میں فریق ہے نہ کوئی منتخب نمائندہ، عدالت کے سامنے کیس سنی اتحاد کونسل کا ہے کہ مخصوص نشستیں دی جائیں۔ جو کیس ہمارے سامنے ہی نہیں اس حوالے سے بحث کیوں کی جا رہی ہے۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے اچھے بھی ہوں گے برے بھی، جو فیصلہ چیلنج ہی نہیں ہوا اسے اچھا یا برا کیسے کہہ سکتے ہیں؟ کوئی پریشر تھا یا نہیں تھا، دنیا کو کیا معلوم، ہمارا کوئی لینا دینا نہیں، ججز اس پر فیصلہ کرتے ہیں جو ریکارڈ میں موجود ہو نہ کہ دنیا کے علم میں ہو۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اعلی ترین عدالت ہوتے ہوئے سپریم کورٹ کا کام ہے کہ حق رائے دہی کا دفاع کرے، بنیادی سوال یہی ہے کہ الیکشن کمیشن کسی کو ازخود کیسے آزاد قرار دے سکتا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ فارم 33 سے واضح ہوگا کہ کون کس جماعت سے ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی کے تمام امیدواروں کو آزاد قرار دیا گیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 4 مارچ کو الیکشن کمیشن نے خود کہا کہ تمام امیدوار آزاد ہیں، الیکشن کمیشن نے کس بنیاد پر سیاسی جماعت کے امیدواروں کو آزاد قرار دیا؟۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جو کچھ ملک میں ہو رہا تھا وہ تلخ حقیقت اور سب کے سامنے ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر کوئی امیدوار پارٹی وابستگی ظاہر کرکے پیچھے نہیں ہٹ سکتا تو الیکشن کمیشن کیسے اسے آزاد قرار دے سکتا ہے؟جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ ایک پارٹی سے وابستگی کا ڈیکلیریشن جمع کرانے والے بعد میں دوسری جماعت میں چلے گئے، اب ان امیدواروں کے بعد والے فیصلے کو دیکھا جانا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کہہ سکتا ہے کہ امیدوار آزاد ہیں یا کسی پارٹی سے ہیں؟ الیکشن کمیشن نے صرف کاغذات میں امیدوار کی سیاسی جماعت سے وابستگی دیکھنی ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس تو ارکان اسمبلی کو آزاد ڈکلیئر کرنے کا اختیار نہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ ووٹر کے حق کا تحفظ کرے، حقائق سب کو کھل کر بتانے چاہئیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بنیادی سوال، جہاں سے بات شروع ہوئی تھی، کہ جب امیدواروں نے پی ٹی آئی کے ساتھ اپنی وابستگی ظاہر کی تو الیکشن کمیشن نے کیسے کہا کہ وہ آزاد امیدوار ہیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے کیسے اخذ کیا کہ امیدوار تحریک انصاف کے نہیں بلکہ آزاد ہیں۔وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ متناسب نمائندگی کا اصول جنرل سیٹوں کی تعداد کے مطابق ہوتا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی سمیت دیگر جماعتوں کو مخصوص نشستیں دی گئیں، پی ٹی آئی امیدواروں کو مخصوص نشستیں دینے کے لیے الگ اصول اپنایا گیا۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ پی ٹی آئی ارکان آزاد ہو کر سنی اتحاد کونسل میں چلے گئے، پی ٹی آئی کے 2 ارکان نے الیکشن کمیشن کو کہا کہ ہمیں آزاد ڈکلیئر کیا جائے۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے کہ حامد رضا کو پارٹی ٹکٹ پر الیکشن لڑنے سے کیوں روکا گیا، الیکشن کمیشن اس معاملے کی تصدیق کرے تو کیس نیا رخ اختیار کرسکتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان موجود تھا لیکن کسی نے اس پر الیکشن نہیں لڑا۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اپیلوں میں سنی اتحاد نے یہ نکتہ بھی نہیں اٹھایا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ قانون واضح ہے کہ جو نکات اپیلوں میں اٹھائے گئے ہیں انہی تک محدود رہیں گے، ججز کا کام کسی فریق کا کیس بنانا یا بگاڑنا نہیں ہوتا۔وکیل مخدوم علی خان نے الیکشن ایکٹ کے مختلف سیکشنز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مخصوص نشستیں حاصل کی گئی جنرل سیٹوں پر انحصار کرتی ہیں۔ آزاد امیدوار 3 دن کے اندر کسی جماعت میں شامل ہوں تو مخصوص نشستوں کے لیے گنا جائیگا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ عدالت کو بتایا گیا ہیکہ کاغذات نامزدگی میں حامد رضا نے سنی اتحاد سے وابستگی ظاہر کی، اگر یہ بات درست ہوئی تو سنی اتحاد کونسل کی پارلیمان میں جنرل نشست ہوگی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وابستگی کے لیے پارٹی ٹکٹ کا ہونا ضروری ہے۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ فی الحال حامد رضا کا خط ریکارڈ پر موجود ہے کہ انہوں نے سنی اتحاد کے نشان پر کوئی الیکشن نہیں لڑا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ انتخابی نشان کا پارٹی کی جانب سے انتخابات میں حصہ لینے سے تعلق نہیں۔سنی اتحاد کی طرف سے کسی امیدوار نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا جس کی وجہ سے خواتین کی لسٹ موجود نہیں اور جمع نہیں کرائی گئی۔ جمع کروائی گئی لسٹ تبدیل نہیں کی جاسکتی، الیکشن کمیشن کنفرم کر دے گا۔ 5 رکنی پشاور ہائیکورٹ کے بینچ نے دونوں کیسز میں سنی اتحاد کے خلاف فیصلہ دیا۔ سنی اتحاد نے الیکشن کمیشن کو بتایا کہ آزاد امیدوار شامل ہوئے ہیں۔مخدوم علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے حکم امتناع دیا تو اضافی مخصوص نشستوں پر منتخب ارکان کی رکنیت معطل ہوگئی تھی۔ انتخابات سے پہلے مخصوص نشستوں کی فہرست جمع کرانے والے ہی بعد میں دعوی کر سکتے ہیں۔ الیکشن ایکٹ سیکشن 206 کے مطابق سیاسی جماعتوں کو شفاف طریقہ کار سے نشستوں کے لیے لسٹ دینا ہوتی ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو پارلیمانی جماعت تسلیم کرنے کا نوٹیفکیشن کب جاری ہوا؟ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ اس سوال کا جواب الیکشن کمیشن بہتر دے سکتا ہے۔مخصوص نشستوں پر منتخب اراکین کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن پروگرام الیکشن ایکٹ کے تحت جاری کیا گیا۔ کاغذات نامزدگی تاریخ سے قبل جمع کروانا ضروری ہوتا ہے، تاریخ میں توسیع بھی کی گئی۔ 24 دسمبر تک مخصوص نشستوں کی لسٹ کی تاریخ جاری کی گئی۔ الیکشن کمیشن کنفرم کریگا، سنی اتحاد نے مخصوص نشستوں سے متعلق لسٹ جمع نہیں کروائی۔ مخدوم علی خان نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا۔جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ کیا کاغذات نامزدگی کیساتھ پارٹی ٹکٹ جمع کرایا گیا تھا؟ فیصل صدیقی نے بتایا کہ پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے سے حامد رضا کو روکا جا رہا تھا، الیکشن کمیشن نے زبردستی آزاد امیدوار کا نشان الاٹ کیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ فیصل صدیقی صاحب اگر آپ نے کاغذات فائل کیے ہوتے تو سوالات نہیں پوچھنے پڑتے، کاغذات کے بغیر آپ کو بات نہیں کرنے دیں گے۔اس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ کاغذات نامزدگی کا ریکارڈ الیکشن کمیشن سے مانگا گیا تھا۔جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیاکہ جب امیدواروں نے کاغذات جمع کرائے تو اس وقت کیا لکھا گیا۔مخدوم علی خان کے دلائل ختم ہونے پر لیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے دلائل کاآغاز کیا۔ سکندر بشیرمہمند کا کہناتھا کہ میں اپنی معروضات ختم کرکے بینچ کے سوالوں کے جواب دوں گا۔جسٹس یحییٰ آفریدی بولے کہ کیا پی ٹی آئی کے امیدواروں نے کاغذات نامزدگی کے ساتھ پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرایا تھا، جس پر سکندر بشیر نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی امیدواروں نے اپنے کاغذات نامزدگی میں پارٹی سرٹیفکیٹ نہیں دیا۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ کسی بھی آزاد امیدوار کو پارٹی تو سپورٹ کرسکتی ہے لیکن ہوگا تو آزادامیدوار ہی۔جسٹس محمد علی مظہر بولے کہ تحریک انصاف کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی میں ٹکٹ پی ٹی آئی نظریاتی کے تھے یا تحریک انصاف کے؟، جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ تحریک انصاف کے امیدواروں نے پی ٹی آئی نظریاتی کا نشان مانگا۔دلائل جاری رکھتے ہوئے سکندر بشیر نے کہاکہ امیدواروں نے کہنا تھا کہ میں فلاں سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہوں لیکن انہوں نے پی ٹی آئی نظریاتی کا نشان مانگا۔جسٹس یحیی آفریدی نے پوچھا کہ کیا امیدواروں نے تحریک انصاف کا سرٹیفیکیٹ جمع کروایا؟، جس کے جواب میں سکندر بشیر نے کہاکہ نہیں پی ٹی آئی کا نہیں دیکھا، تحریک انصاف نظریاتی کے سرٹیفکیٹ تھے ،جسٹس اطہر من اللہ نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ آپ ایک آئینی ادارے کی نمائندگی کررہے جس کا کام انتخابات کروانا ہے، پریس کانفرنسز پوری دنیا نے دیکھیں، کیا الیکشن کمیشن نے دیکھا کیوں پریس کانفرنسز ہوئیں؟جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ کیا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری نہیں تھی کہ پریس کانفرنسز ہونے کی وجہ دیکھیں۔وکیل الیکشن کمیشن سکندر بشیر نے کہاکہ میں مفروضوں پر مبنی سوالات کا جواب نہیں دوں گا، مجھے معلوم نہیں پریس کانفرنسز کیوں ہوئیں۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا  آپ کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی جانب سے کوئی سرٹیفکیٹ نہیں آیا اور وجہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ تھا؟ جس کے جواب میں وکیل سکندر بشیر نے کہاکہ میرا فیصلہ نہیں تھا۔جسٹس عائشہ ملک نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ کا جواب دینے کا طریقہ کار نامناسب ہے۔وکیل سکندر بشیر نے کہاکہ سنی اتحاد نے 6 خطوط الیکشن کمیشن کو بھیجے جن میں سے ایک بھی فارم 66 سے متعلق نہیں تھا۔ اور ساتھ ہی انہوں نے چیئرمین سنی اتحاد حامدرضا کے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خطوط پڑھنا شروع کردیے۔اس موقع پر  جسٹس یحیی آفریدی نے وکیل الیکشن کمیشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ وہ بات کریں جو الیکشن کمیشن نے کی ہے، اپنی رائے نہ دیں۔بینچ رکن جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ 13  تاریخ کو کاغذات نامزدگی جمع کرانے تھے اسی دن سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا۔ پی ٹی آئی امیدواروں کے پاس اور کیا آپشن تھا؟ الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ چیف جسٹس بھی فرما چکے جو کیس یہاں نہیں اس پر نہیں جاوں گا۔جسٹس اطہر من اللہ بولے آپ ایک آئینی ادارہ ہیں آپ کیوں ایسے کررہے ہیں؟ جس کے جواب میں سکندر بشیر نے کہاکہ میں نے کوئی پریس کانفرنس نہیں دیکھی تھی۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ میں اسے پھر یہ جواب سمجھ رہا ہوں کہ الیکشن کمیشن کسی بے ضابطگی کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔جسٹس یحیی آفریدی نے استفسار کیاکہ کیا سنی اتحاد نے کبھی مخصوص نشستوں سے متعلق اپنی لسٹ دی؟ جس کے جواب میں وکیل سکندر بشیر نے کہاکہ سنی اتحاد نے مخصوص نشستوں سے متعلق کوئی لسٹ نہیں دی۔ اگر بینچ میرے منہ سے کچھ کہلوانا چاہتا ہے تو میں نہیں کہوں گا۔ آئین کے مطابق جو جماعتیں نشستیں لینے کے اہل تھیں ان کو ہی ملیں۔جسٹس منیب اختر نے کہاکہ یہ مناسب طریقہ کار نہیں ہے، لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن نے غلطیوں پر غلطیاں کی ہیں۔الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہاکہ الیکشن رولز کے سیکشن 92 زیلی شق 6 کے تحت پولیٹیکل پارٹی کو پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانا ہوتا ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہاکہ چیئرمین سنی اتحاد کونسل نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کے لیٹر پر دستخط بھی خود کیے۔جسٹس اطہر من اللہ بولے کہ کل ہم نے الیکشن کمیشن سے دستاویزات جمع کرانے کا کہا تھا۔ جس کے جواب میں وکیل سکندر بشیر نے کہاکہ کل عدالتی کارروائی ساڑھے 4 بجے ختم ہوئی میں دفتر 6 بجے پہنچا۔ ایک خط میں لکھا گیا سنی اتحاد کونسل اتحادی پی ٹی آئی ہے۔الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ الیکشن کمیشن تمام لسٹیں جمع کرتاہے، سنی اتحاد نے صرف خطوط لکھے۔اس موقع پر دورانِ سماعت اردو میں دستاویزات پڑھنے کے لیے وکیل سکندربشیرنے ڈی جی لا سے معاونت حاصل کی۔سکندر بشیر نے کہاکہ میں ڈی جی لا سے اردو میں دستاویزات پڑھنے کے لیے معاونت چاہوں گا۔سکندر بشیر نے کہاکہ حامدرضا نے دستاویزات میں سنی اتحاد سے ہوں اور بریکٹ میں اتحادی تحریک انصاف کا نام لکھا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہاکہ کیا الیکشن ایکٹ میں انتخابات میں اتحاد کے قوانین ہیں؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہاکہ الیکشن ایکٹ کے تحت مختلف سیاسی جماعتیں اتحاد کرسکتی ہیں۔الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر نے دلائل دیے کہ حامدرضا نے الیکشن کمیشن کو خط میں لکھا اگر بلا نہیں ملتا تو شٹل کاک کا نشان دے دیا جائے۔جسٹس منیب اختر بولے کہ آپ نے امیدوار سے کیوں نہیں پوچھا کہ آپ سنی اتحاد سے ہیں لیکن پی ٹی آئی کا سرٹیفیکیٹ دے رہے ہیں؟ آپ سنی اتحاد کا سرٹیفیکیٹ دیں۔ جس پر سکندر بشیر نے کہاکہ حامدرضا تو خود چیئرمین سنی اتحاد کونسل ہیں۔جسٹس منیب اختر نے کہاکہ تحریک انصاف کے امیدوار تھے لیکن انہیں بلے کا نشان نہیں ملا۔اس موقع پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہاکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ انٹرا پارٹی الیکشن نہ کروانے پر تھا، اس کے اثرات ہو سکتے تھے۔ جمہوریت کی ضرور بات کرنی ہے لیکن انٹرا پارٹی الیکشن نہیں کروانا۔چیف جسٹس نے بانی پی ٹی آئی کا نام لیے بغیر کہاکہ بطور وزیراعظم الیکشن کمیشن کو خط لکھا کہ ایک سال دے دیں انٹرا پارٹی الیکشن کے لیے، اب تو شاید الیکشن کمیشن کے دشمن ہوگئے۔ مجھے نہیں سمجھ آتی کیوں اپنی سیاسی جماعت میں انٹر پارٹی الیکشن نہیں کرواتے، کیا یہی جمہوریت ہے۔چیف جسٹس نے مزید کہاکہ سپریم کورٹ میں بھی ہم پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت جمہوریت لے آئے ہیں۔اس موقع پر جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ سپریم کورٹ کے بلے کے نشان پر فیصلے سے کنفیوژ کر رہے ہیں۔اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کو روک دیا اور کہاکہ بلے کے نشان پر نہیں، سپریم کورٹ نے انٹرا پارٹی الیکشن پر فیصلہ دیا تھا۔ انٹرا پارٹی الیکشن اور بلے کے نشان کا فیصلہ کہنے میں فرق ہے۔چیف جسٹس نے کہاکہ ایک طرف ریویو کررہے ہیں اور دوسری طرف تبصرہ کر رہے ہیں، کسی اور بینچ کا فیصلے پر ریمارکس دینا درست نہیں،  آگے چلیں۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہاکہ کوئی بھی فیصلے کی قانونی حیثیت پر سوال نہیں اٹھا رہا، کیا الیکشن کمیشن نے بتایاکہ اگر بلا نہیں ہوگا تو تمام امیدوار ایک نشان پر انتخابات کیسے لڑیں گے۔بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت 27 جون دن ساڑھے 11بجے تک ملتوی کردی۔الیکشن کمیشن کے وکیل جمعرات کے روز بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔ ZS