دہشت گرد شہزادہ : تحریر حامد میر


اس نے ہمیشہ شہزادوں جیسی زندگی گزاری پاکستان کے بہترین اسکولوں میں تعلیم حاصل کی۔ وہ برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں پہنچا تو کلاس فیلوز نے اسے پرنس کہنا شروع کر دیا۔ کسی نے سوچا بھی نہ تھا کہ پاکستان میں سیاسی حالات بدل گئے تو یہ شہزادہ ایک دن مزاحمت کار بن جائے گا اور ریاست اسے دہشت گرد قرار دیدے گی۔ اس شہزادے پر بغاوت، قتل اور دہشت گردی کے کئی مقدمے قائم ہوئے لیکن ریاست کسی بھی مقدمے میں اس شہزادے کو سزا نہ د لوا سکی اور پھر ایک دن یہ شہزادہ الیکشن لڑ کر اسمبلی کا رکن منتخب ہو گیا۔ کچھ ہی عرصے کے بعد اس شہزادے کو پولیس مقابلے میں قتل کر دیا گیا۔ قتل کے فوراً بعد ایک کتاب شائع ہوئی جس کا نام تھا ’’دہشت گرد شہزادہ‘‘ آپ سمجھ گئے ہونگے۔ یہ کتاب میر مرتضیٰ بھٹو کے بارے میں تھی اور لکھنے والے کا نام ہےراجہ انور جو کابل میں دہشت گرد شہزادے کے ساتھ مل کر کافی عرصہ تک پاکستان میں جنرل ضیاءالحق کی فوجی حکومت کے خلاف مزاحمت کو منظم کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ راجہ انور کی یہ کتاب ایک ایسے شہزادے کی کہانی ہے جس کا نام تو بدلتا رہتا ہے لیکن اس کا کردار نہیں بدلتا۔ ہر دور میں ریاست کی پالیسیوں کے ردعمل میں ایسا کوئی نہ کوئی کردار ضرور سامنے آتا ہے اور پھر ریاست اسے دہشت گرد قرار دیکر مبینہ غیر ملکی سازشوں پر ماتم شروع کر دیتی ہے لیکن ان پالیسیوں کا جائزہ نہیں لیتی جو دہشت گرد شہزادے پیدا کرتی ہیں۔راجہ انور کی کتاب کا موضوع میر مرتضیٰ بھٹو ہیں۔ اس کتاب میں میر مرتضیٰ بھٹو کے ساتھ ان کاذاتی عناد بڑا واضح جھلکتا ہے کیونکہ مرتضیٰ نے انہیں پاکستانی خفیہ اداروں کا ایجنٹ قرار دیکر افغانستان میں جیل بھجوا دیا تھا ۔یہ الزام ثابت نہ ہو سکا اور آخر کار راجہ انور رہا ہو کر جرمنی پہنچ گئے ۔ان کے کئی پرانے ساتھی اس کتاب میں بیان کئے گئے بعض واقعات کی صحت سے انکار کرتے ہیں لیکن راجہ انور کے موقف کو آسانی سے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے ناصرف ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ مل کر پیپلز پارٹی بنائی بلکہ بھٹو حکومت میں بطور مشیر شامل رہے۔ جنرل ضیاء کا مارشل لاء نافذ ہونے کے بعد انہوں نے طاہر محمد خان، پرویز رشید، قاضی انور اور ڈاکٹر ظفر نیازی کے ساتھ مل کر ایک خفیہ تنظیم ’’النصرت‘‘ بنائی جس کا مقصد بیگم نصرت بھٹو کی قیادت میں عوامی تحریک منظم کرنا تھا۔ یہ تنظیم کامیاب نہ ہو سکی تو پرویز رشید اور مسرور احسن کے ساتھ مل کر پیپلز ایکشن کمیٹی بنائی جس کے مظاہروں میں آٹھ کارکنوں نے خود سوزی کی۔ یہ خودسوزیاں بھی ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی سے نہ بچا سکیں۔ بھٹو کی پھانسی کے بعد میر مرتضیٰ بھٹو انتقام کی آگ بجھانے کابل پہنچ گئے اور راجہ انور ان کا ساتھ دینے کیلئے جرمنی سے کابل آئے۔سیاسی کارکن جذبات کی رو میں بہہ کر مسلح کارروائیاں شروع کر دیں تو ریاست کیلئے انہیں غدار اور دہشت گرد قرار دیکر ختم کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ ریاست خوف اور شک کا ہتھیار استعمال کر کے انہیں آپس میں لڑاتی بھی ہے۔ یہی راجہ انور کے ساتھ ہوا جو بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی تقاریر لکھتے لکھتے انقلاب کی تلاش میں کابل پہنچے اور میر مرتضیٰ بھٹو کے شکوک وشبہات نے انہیں پل چرخی جیل پہنچا دیا۔

1981ء میں میر مرتضیٰ بھٹو کے ساتھیوں نے پی آئی اے کا طیارہ اغواء کیا تو راجہ انور پل چرخی جیل میں تھے۔ اسی جیل میں ان کی ملاقات ہائی جیکنگ کے مرکزی کردار سلام اللہ ٹیپو سے ہوئی۔ ٹیپو بھی مرتضیٰ کی مرضی سے جیل پہنچا تھا اس پر اپنے ایک ساتھی پرویز شنواری کو قتل کرنے کا الزام تھا۔ سلام اللہ ٹیپو نے 1982ء میں جنرل ضیاء الحق کو دہلی میں حضرت نظام الدین اولیاء کے مزار کے قریب ایک فوٹو گرافر کے روپ میں قتل کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اس مقصد کیلئے اسلحہ اور بم پرویز شنواری نے مہیا کرنا تھا شنواری یہ کام نہ کر سکا جس پر مبینہ طور پر ٹیپو نے کابل واپس آکر شنواری کو قتل کر دیا۔شنواری کے قتل پر پورا شنواری قبیلہ بھڑک اٹھا۔ ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت نے ٹیپو کو گرفتار کیا اور کچھ عرصے بعد اسے سزائے موت دیدی۔راجہ انور کی کتاب میں جنرل ضیاء الحق پر سام میزائلوں سے حملے کا ذکر بھی ہے۔ یہ میزائل میر مرتضیٰ بھٹو کو یاسر عرفات نے مہیا کئے تھے۔اس منصوبے کے ایک کردار آصف بٹ ایڈووکیٹ نے اپنی کتاب ’’کئی سولیاں سرِراہ تھیں‘‘ میں جنرل ضیاء پر سام میزائل کے حملے اور ان کے بچ نکلنے کا واقعہ تفصیل سے بیان کیا ہے۔ بٹ صاحب کی کتاب میں طارق بشیر چیمہ کا بھی ذکر ہے جو ان کے ساتھ دمشق اور کابل میں میر مرتضیٰ بھٹو کی قیادت میں جنرل ضیاء کے خلاف مزاحمت کر رہے تھے لیکن بعد ازاں مسلم لیگ (ق) میں جا پہنچے۔ خود راجہ انور پیپلز پارٹی سے الذوالفقار اور پھر پل چرخی جیل سے مسلم لیگ (ن) میں پہنچے۔ان کی کتاب بظاہر میر مرتضیٰ بھٹو کے خلاف ایک چارج شیٹ نظر آتی ہے لیکن کتاب کا مطالعہ یہ بھی بتاتا ہے کہ میر مرتضیٰ بھٹو نے جو کیا وہ غلط تھا لیکن انہیں غلط راستے پر چلانے کا ذمہ دار ایک فوجی ڈکٹیٹر تھا جس نے پاکستان کے آئین کے ساتھ دہشت گردی کی اور اس دہشت گردی نے ایک دہشت گرد شہزادہ پیدا کیا، جس نے سام میزائلوں کےساتھ جنرل ضیاء کا پیچھا کیا۔ پاکستانی ریاست کے اداروں میں بیٹھےمفاد پرست عناصر کی آئین شکنی کے نتیجے میں صرف جنرل ضیاء کے دور میں دہشت گرد شہزادہ پیدا نہیں ہوا تھا۔ خود ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں جب نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگائی گئی تو اجمل خٹک سے لیکر اعظم ہوتی تک نیب کے سینکڑوں کارکنوں نے کابل میں بیٹھ کر وہی کیا جو بعد میں میر مرتضیٰ بھٹو نے کیا۔ جنرل ضیاء کے دور میں میر مرتضیٰ بھٹو پر ہائی جیکنگ کا الزام لگا اور جنرل مشرف نے نواز شریف پر ہائی جیکنگ کا مقدمہ بنا دیا تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں سیاست دانوں پر غداری اور دہشت گردی کے الزامات کوئی نئی بات نہیں۔ اسی قسم کے الزامات کے تحت آج تحریک انصاف کے بانی عمران خان اور ان کے بہت سے ساتھیوں پر بھی مقدمات قائم کئے گئے ہیں۔ راجہ انور نے اپنی کتاب میں بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کا میر مرتضیٰ بھٹو کی کارروائیوں سے تعلق جوڑنے کی ایک شعوری کوشش کی لیکن اس کے باوجود محترمہ بے نظیر بھٹو دو مرتبہ پاکستان کی وزیراعظم بن گئیں۔ نواز شریف پر بھی ہائی جیکنگ اور بغاوت کا مقدمہ بنا لیکن یہ مقدمہ انجام کو نہ پہنچا اور وہ 2013ء میں پھر وزیر اعظم بن گئے۔ اب عمران خان پر بھی غداری اور دہشت گردی کے بہت سے مقدمات قائم ہیں۔ اگر عمران خان واقعی غدار ہیں تو پھر یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ 2018ء میں مبینہ دھاندلی کے ذریعہ انہیں اقتدار میں کون لایا؟ پاکستان کی تاریخ کے مختلف ادوار میں ریاستی اداروں نے اپنی غلط پالیسیوں سے خود دہشت گرد شہزادے پیدا کئے اور پھر ان شہزادوں کی سرکوبی کو زندگی اور موت کا مسئلہ بنا لیا۔ یہ ادارے میر مرتضیٰ بھٹو سے لیکر عمران خان تک اپنے تخلیق کردہ دہشت گرد شہزادوں کا احتساب تو کرنا چاہتے ہیں لیکن اپنی خوداحتسابی کی طرف نہیں آتے جب تک پاکستان کا آئین و قانون سب کیلئے برابر نظر نہیں آئے گا دہشت گرد شہزادےپیدا ہوتے رہیں گے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ