ہم میں سے بہت پڑھے لکھے لوگوں کو بھی بہت دنوں بعد سمجھ آئے گی کہ بدھ کی شام پیش ہوا سالانہ بجٹ بنیادی طورپر ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لئے متوسط طبقے کو سفید پوشی سے محروم کرنے کا سفاک منصوبہ ہے۔ روزمرہ زندگی کی بے تحاشہ اشیائے صرف پر جنرل سیلز ٹیکس میں اضافہ مہنگائی کا ناقابل برداشت سیلاب برپا کرے گا۔ غریبوں کی زندگیاں مزید اجیرن اور تنخوار دار طبقے سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصول کرنے کے جنون میں ریاست وسرکار نے اپنے اخراجات میں نمایاں کمی لانے سے مگر ظالمانہ گریز کیا ہے۔ اس کے علاوہ امیر ترین طبقے کو بھی چھیڑنے کی ہمت نہیں دکھائی۔ تمام تر توجہ نان فائلرز کو فائلر بنانے پر مرکوز رکھی گئی ہے۔
عقل سے قطعی محروم ہوا شخص ہی اس حقیقت کو جھٹلائے گا کہ اگر ہمارے نسبتاخوش حال طبقات اپنے ذمے واجب ٹیکس ادا نہیں کریں گے تو پاکستان غیر ملکی قرضوں کی دلدل میں دھنستا چلا جائے گا۔ میرے اور آپ کے ٹیکسوں سے حکومت مجموعی طور پر جو رقم جمع کرتی ہے اس کا 52فی صد حصہ غیر ملکی قرضوں کی واجب الادا قسطوں یا سود کی ادائیگی میں خرچ ہوجاتا ہے۔ دفاع کے لئے رقم مختص کرنے کے بعد ریاست کے پاس صحت عامہ،تعلیم اور عوام کی دیکھ بھال کے اہم منصوبوں کے لئے وافر رقم مختص کرنے کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی۔ اسی باعث ہمارے عوام کی بے پناہ اکثریت خود کو لاوارث اور بھلایا ہوا محسوس کرتی ہے۔ اشرافیہ سے اندھی نفرت میں مبتلا ہورہی ہے اور گزشتہ چند برسوں سے بتدریج ریاست سے بیگانگی کا احساس بھی سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔
عوامی جذبات سے مگر حکمران اشرافیہ اپنی طاقت کے زعم میں کامل بے اعتنائی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ بدھ کے روز پیش ہوابجٹ اس کا بھرپور اظہار ہے۔ غالبا اسی باعث شہبازحکومت کو قومی اسمبلی میں اپنے اراکین کی تعداد کے بل بوتے پر بیساکھیاں فراہم کرتے بلاول بھٹو زرداری وزیر خزانہ کی بجٹ تقریر سننے کے لئے ایوان میں داخل ہی نہیں ہوئے۔ پیپلز پارٹی نے ابتدا میں یہ دہائی مچائی کہ بجٹ تیار کرتے ہوئے مسلم لیگ (نون) نے انہیں اعتماد میں نہیں لیا۔ ان سے مشاورت کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی۔ شازیہ مری، شیری رحمان اور خورشید شاہ پیپلز پارٹی کو بجٹ سازی کے عمل سے دور رکھنے کے خلاف احتجاجی بیانات دیتے رہے۔ بجٹ پیش ہونے سے چند لمحات قبل مسلم لیگ (نون) کو مگر اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ یہ احساس خبطی ذہنوں کو اگرچہ دونمبری لگا۔
بہرحال نائب وزیراعظم اسحاق ڈار پریشانی کے عالم میں تقریبا بھاگتے ہوئے اس چیمبر تک پہنچے جو پارلیمان کی عمارت میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے لئے مختص ہوا ہے۔ خورشید شاہ اور نوید قمر بھی وہاں موجود تھے۔ ڈار صاحب کے منت ترلوں کے بعد فیصلہ یہ ہوا کہ پیپلز پارٹی کے چار اراکین اسمبلی ایوان میں چلے جائیں تاکہ عوام کے دلوں میں یہ احساس اجاگر نہ ہو کہ حکومت کی سب سے بڑی اتحادی جماعت نے بجٹ کا بائیکاٹ کردیا ہے۔ بلاول بھٹو نے اگرچہ کندھے اچکا کر بڑی خبر کے منتظر رپورٹروں کے ہجوم کو اطلاع یہ دی کہ وہ خود تو ریلیکس کرنے اپنے گھر جارہے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی جانب سے اختیار کردہ لاتعلقی کو رپورٹروں کی اکثریت نے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ سازشی تھیوری پارلیمان کی غلام گردشوں میں یہ پھیلی کہ میڈیا کی توجہ تحریک انصاف (جو اب سنی اتحاد کونسل بھی کہلاتی ہے) کے اراکین سے ہٹانے کے لئے پیپلز پارٹی نے حکومت کے ساتھ مل کر بائیکاٹ کا ڈرامہرچایاہے۔ ذاتی طورپر میں اس تھیوری سے متفق نہیں۔
میرے لئے سب سے زیادہ حیران کن بلکہ یہ حقیقت رہی کہ پاکستان کے تیسری بار وزیر اعظم رہے نواز شریف صاحب بجٹ تقریر سننے کے لئے ایوان میں تشریف ہی نہیں لائے۔ ان کی عدم موجودگی ذات کے اس رپورٹر کو ہرگز حیران نہ کرتی اگرچہ چند ہی ہفتے قبل انہوں نے مسلم لیگ (نون) کی صدارت کافی دنوں کی بے اعتنائی کے بعد ایک بار پھر اپنے ہاتھ نہ لی ہوتی۔ اپنی جماعت کا منصب صدارت سنبھالنے کے عین ایک دن بعد انہوں نے وزیر اعظم شہباز شریف کو ان کے اقتصادی معاونین سمیت لاہور طلب کرلیا۔ نظر بظاہر یہ اجلاس بدھ کے روز پیش ہوئے بجٹ کے خدوخال طے کرنے کیلئے بلایا گیا تھا۔ اقتدار کے ایوانوں سے دور رکھے مجھ جیسے عامیوں نے مذکورہ اجلاس کے بعد یہ فرض کرلیا کہ 2024 -25 کے مالی سال کے لئے جو بجٹ پیش ہوگا وہ نواز شریف کی تجربہ کار نگاہوں کی چھلنی سے گزرکر ہی ہمارے روبرو لایا جائے گا۔ بدھ کے روز قومی اسمبلی کے اجلاس سے دور رہ کر مگر نواز شریف نے یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ بینکاری کے شعبے سے سیاست میں آئے وزیر خزانہ اورنگزیب کے تیار کردہ بجٹ سے ان کا کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ اگر میرا شبہ درست ہے تو یہ لکھنے کو مجبور ہوں کہ بدھ کے روز پیش ہوئے بجٹ کے خلاف عوامی غصے کی جو لہر ابھرے گی نواز شریف سیاسی اعتبار سے خود کو اس کے اثرات سے محفوظ نہیں رکھ پائیں گے۔ بدھ کے روز پیش ہوئے بجٹ کو ان کی سرپرستی میں تیار ہوئی دستاویز ہی تصور کیا جائے گا۔
یہ سب لکھنے کے باوجود یہ اعتراف کرنے کو مجبور ہوں کہ سیاست میں نووارد ہونے کے باوجود ٹیکنوکریٹ تصور ہوتے اورنگزیب صاحب نے بجٹ دستاویز پڑھتے ہوئے نہایت اعتماد کا مظاہرہ کیا۔ ان کی تقریر نسبتا سادہ اردو میں لکھی ہوئی تھی۔ انہوں نے اسے حیران کن روانی سے پڑھا۔ ایک گھنٹہ لمبی تقریر کے دوران ایک بار بھی ان کا گلا خشک نہیں ہوا۔ ان کی تقریر کے دوران سنی اتحاد کونسل میں مدغم ہوئے تحریک انصاف کے اراکین اپنے ڈیسکوں پر کھڑے جارحانہ احتجاج اور شوربرپا کرنے میں مصروف رہے۔ ایسے عالم میں تقریر کرتے ہوئے وزرائے اعظم یا وزیر خزانہ اپنے کانوں پر ہیڈفون لگانے کو مجبور ہوجاتے ہیں۔ اورنگزیب صاحب نے انہیں لگانے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی۔ سچی بات یہ بھی ہے کہ اپنا بجٹ پیش کرنے کیلئے انہوں نے جو تقریر تیار کروائی تھی اس کا متن پڑھتے یا سنتے ہوئے مجھ جسے عام پاکستانی کو ایک لمحے کو بھی احساس نہیں ہوا کہ کس باریکی سے عوام پر مہنگائی کاایک نیا عذاب مسلط کرنے کا منصوبہ تیار ہوا ہے۔ متوسط طبقہ اور خاص طورپر تنخواہ دار افراد جو پہلے ہی ٹیکس نیٹ میں آچکے ہیں بدھ کے روز پیش ہوئے بجٹ کے وہ بکرے ہیں جنہیں آئی ایم ایف کی خوشنودی کیلئے قربان کردیا جائے گا۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت