دھواں کہاں سے اٹھتا ہے؟ … تحریر : سہیل وڑائچ


کوئی مانے نہ مانے دھواں تو مسلسل اٹھ رہا ہے۔ سوال یہ ہے کیوں اٹھ رہا ہے اور کہاں سے اٹھ رہا ہے؟ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ اہل اقتدار اور عوام میں ایک بہت بڑا خلا ہے، اس خلا کی وجہ سے بے اطمینانی ہے، افواہیں ہیں، بے یقینی ہے، پراپیگنڈاہے، فیک نیوز ہے، سازشی کہانیاں ہیں اور سب سے بڑھ کر مایوسی ہے۔ ظاہر ہے کہ سب سے بڑی وجہ تو سیاسی تلاطم ہے مگر خلا کے بڑھنے کی وجہ اہل اقتدار اور عوام میں ابلاغ کا فقدان ہے۔ حکومت کا کوئی وزیر ہو یا میرے گاؤں کا کوئی دیہاتی، کسی کو علم نہیں کہ اہلِ اقتدار کا سیاسی ایجنڈا کیا ہے، وہ ملک کو کدھر لے جانا چاہتے ہیں۔ جب اہل اقتدار کسی کو بتائیں گے ہی نہیں کہ وہ چاہتے کیا ہیں تو لوگ ٹامک ٹوئیاں ہی ماریں گے، کبھی کہیں گے جیل کے دروازے کھلنے والے ہیں اور کبھی اندازہ لگائیں گے کہ کچھ بھی ہو جائے جیل کے بند کواڑ کھلتے نظر نہیں آتے۔

آج کل کی دنیا ابلاغ کی دنیا ہے۔ دنیا کی سپر پاور امریکہ میں ہر روز دنیا بھر میں ہونے والی تبدیلیوں پر بریفنگ دی جاتی ہے۔ ایک پورا محکمہ اس پر تعینات ہے وہ 24گھنٹے کام کرتا ہے اس بریفنگ میں کوئی بھی سیاسی یا سفارتی سوال پوچھا جا سکتا ہے اور حکومت نے اس کا جواب پہلے سے تیار کر کے رکھا ہوتا ہے، امریکی صدر کی کوریج کیلئے وائٹ ہاؤس کے اندر ایک بریفنگ روم ہے، صدر کو کور کرنے کیلئے دنیا بھر کے رپورٹر مستقل طور پر واشنگٹن میں تعینات ہیں، صدر کا ترجمان ہر روز انہیں بریفنگ دیتا ہے، گاہے گاہے صدر خود انہیں ملتا ہے اور ان صحافیوں میں سے اکثر سے اس کی ذاتی واقفیت بھی ہوتی ہے۔ امریکی محکمہ دفاع پینٹاگان بھی باقاعدہ صحافیوں کو بلا کر ہر پالیسی کے بارے میں بتاتا ہے، مخالفانہ سوالوں اور اعتراضات کا جواب دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ امریکی پالیسی کے حوالے سے بے سروپا باتوں سے قطع نظر محکمانہ بریفنگز کے ذریعے حکومتی موقف مسلسل لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے۔

ہمارے پیارے تضادستان میں دھواں اس لئے اٹھتا ہے کہ حکومت اور وزیر اعظم نہ بریفنگز دیتے ہیں نہ مخالفانہ سوالوں اور اعتراضات کا سامنا کیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم اور حکومت کا سیاسی ایجنڈا کیا ہے؟ عمران خان سے صلح ہو گی یا لڑائی جا رہے گی کسی کو صحیح طرح سے علم نہیں۔ کوشش کی جاتی ہے کہ وزیر اعظم میڈیا سے دور رہیں ، نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔ مگر اس پالیسی کا نتیجہ یہ ہے کہ حکومت اور عوام میں خلا بڑھتا جا رہا ہے۔

ہماری مقتدرہ اپنا موقف آئی ایس پی آر کے ذریعے بیان کرتی رہتی ہے مگر روایت یہی تھی کہ سینئر ترین ایڈیٹرز اور اینکرز کو بلا کر آرمی چیف خود بریفنگز دیتے تھے اور ہر طرح کے سوالات کا سامنا بھی کرتے تھے، اب یہ سلسلہ بھی موقوف کر دیا گیا ہے، اب میڈیا مکمل اندھیرے میں ہے کہ مقتدرہ یا اس کے سربراہ کیا چاہتے ہیں؟ اگر ان سے میڈیا کا مکالمہ ہوتا تو میڈیا انکی شخصیت کا جائزہ لیتا، سوال جواب کے ذریعے ان کے موقف کو پرکھتا اور پھر انکی پالیسیوں کی حمایت یا مخالفت میں بیانیہ بنتا مگر مکمل خاموشی اور راز داری کی پالیسی سے مقتدرہ اور میڈیا اور نتیجے کے طور پر عوام میں ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے، ہر کسی کو سنی سنائی باتوں اور افواہوں کی مدد سے سیاسی نقشہ کھینچنا پڑتا ہے جو اکثر اوقات غلط ثابت ہوتا ہے۔ جب تک میڈیا کی اطلاعات تک براہ راست رسائی یقینی نہیں بنائی جاتی، یہ خلا رہے گا۔

عمران خان نے ذرائع ابلاغ کو فتح کر رکھا تھا وہ ہر روز اپنا موقف، اپنا بیانیہ، کبھی سوشل میڈیا اور کبھی مین سٹریم میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچاتے تھے۔ وہ وزیر اعظم تھے یا وہاں سے ہٹائے گئے دونوں صورتوں میں وہ صبح اپنی پہلی میٹنگ میڈیا سٹرٹیجی پر کرتے تھیگو ان کا انداز ہر مخالف رائے کو دبانے اور حق میں آنے والی بدتمیزی اور گالی کی حوصلہ افزائی کا تھا مگر وہ آج کے دور میں ابلاغ کی اہمیت کو صحیح طور پر سمجھ کر اس کا استعمال کرتے رہے، انکے مخالفین آج تک اس حکمت عملی کا توڑ نہیں کر سکے کیونکہ وہ نہ میڈیا کو ترجیح دیتے ہیں نہ اپنے موقف کے ابلاغ کیلئے تیار ہیں۔ پیپلز پارٹی میڈیا پالیسی کے حوالے سے سب سے کمزور ہے، سندھ حکومت کا تعلیمی بجٹ سب صوبوں سے زیادہ ہے، صحت کے شعبے میں انہوں نے کمالات دکھائے ہیں مگر سندھ کے وزیر اعلی مراد علی شاہ انتہائی قابل ہونے کے باوجود میڈیا سے ڈرتے ہیں، اس لئے پیپلز پارٹی اپنے اچھے کام بھی لوگوں کے سامنے پیش کرنے سے قاصر ہے۔ آج کل کی دنیا میں آپ لاکھ قابل اور ویژنری ہوں، اگر آپ ابلاغ کی دولت سے مالا مال نہیں تو عوام تک اپنا موقف پہنچا ہی نہیں سکیں گے۔ مسلم لیگ نون کو چلانے والے پرانی سوچ کے حامل ہیں وہ خاموشی کو حکمت علمی سمجھ کر لوگوں کو صرف اپنا کام دکھا کر مطمئن کرنا چاہتے ہیں مگر سیاسی بیانیے کے بغیر آپ ملک کو جنت نظیر بھی بنا دیں تو الیکشن جیتنے کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ ہمارے اکثر ادارے ابلاغ کے جدید تصور اور اہمیت سے ہی ناواقف ہیں، ان کی اسی ناسمجھی کی وجہ سے مین سٹریم میڈیا پر پابندیاں عائد ہو رہی ہیں جس سے اس کا معاشرے پر اثر اور اعتماد کم ہو رہا ہے، دوسری طرف سوشل میڈیا پر بے بنیاد خبروں سے لوگوں کے چسکے میں اضافہ ہو رہا ہے اور انکے تجسس کو بھی خوراک مل جاتی ہے۔

اگر ملک میں دھویں کو اٹھنے سے روکنا ہے تو ابلاغ کے راستے کھولیں۔ اپنے دل کی بات کہنے کا حوصلہ کریں ہو سکتا ہے کہ وہ بات اتنی وزنی ہو کہ سارے بیانیوں کو شکست دیدے، آج کل خاموشی کے معنی پلے کچھ نہ ہونے کے ہیں۔ میری خوش امیدی کہتی ہے کہ ہر ادارے اور ہرشخص کا بیانیہ ہوتا ہے اور اس میں کچھ نہ کچھ حقیقت بھی ہوتی ہے، ابلاغ اور مکالمے سے راستے کھلتے ہیں، خاموشی اور ہچکچاہٹ سے کھلے راستے بھی بند ہو جاتے ہیں۔

وقت آگیا ہے کہ دھویں کو اٹھنے سے روکا جائے۔ پارلیمان میں مکالمے کو آگے بڑھایا جائے، لگتا ہے کہ عمران خان کو بھی احساس ہو گیا ہے کہ پارلیمان کی کارروائی سے نکلنا اور اس کو ڈائیلاگ کا ذریعہ نہ بنانے سے جمہوریت، سیاست اور سیاسی جماعت کا نقصان ہوتا ہے، دوسری طرف حکومت کو بھی دل بڑا کرنا چاہیے اور دھاندلی کے بارے میں شکایات کا ازالہ کرنے کے اقدامات کی طرف آنا چاہیے۔ مقتدرہ اور حکومت معاشی مسائل سے نبرد آز ما ہیں، اس میں انہیں کسی حد تک کامیابی بھی مل رہی ہے لیکن اگر سیاسی کشمکش شروع ہو گئی تو معاشی چیلنجز پھر سے بڑھ سکتے ہیں۔ دنیا کے کامیاب جمہوری ممالک میں سیاسی جماعتیں معاشی پالیسی پر دور رس مفاہمت کر لیتی ہیں تاکہ صنعت اور کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو یہ ڈر نہ ہو کہ حکومت بدل گئی تو انکی سرمایہ کاری کا کیا مستقبل ہو گا؟ پیسہ سب سے ڈرپوک ہوتا ہے، سیاسی خوف ہو یا معاشی پیسہ روپوش ہو جاتا ہے، دھواں پیسے کو اڑا دیتا ہے، دھواں ختم ہوگا تبھی معاشی اور سیاسی سکون ہوگا…..!

بشکریہ روزنامہ جنگ