اسلام آباد(صباح نیوز)اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی کی ہدایت پر سینئر صحافی اور اینکر پرسن حامد میر نے جبری گمشدگیوں کے معاملے پر جواب جمع کرا دیا۔حامد میر نے عدالت میں جمع کرائے گئے جواب میں لکھا کہ جسٹس محسن اختر کیانی نے 25 مئی 2024 کے اپنے حکم نامے کے ذریعے جبری گمشدگیوں کے کیسز پر رپورٹنگ کے مثبت اور منفی اثرات کے بارے میں میری رائے پوچھی۔ معزز عدالت جاننا چاہتی ہے کہ اس قسم کی رپورٹنگ سے شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیسے ہو سکتا ہے اور کیا ایسا کوئی قانون ہے جو جبری گمشدگیوں کے کیسز کی رپورٹنگ پر پابندی لگاتا ہو۔
حامد میر نے واضح کیا ہے کہ جبری گمشدگی آئین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ جبری گمشدگیوں کی رپورٹنگ کرنا ہر سچے صحافی کا پیشہ ورانہ فرض ہے۔ یہ رپورٹنگ خوف کی ان رکاوٹوں کو توڑتی ہے جو جبری گمشدگیوں کے معاملات میں موجود ہیں۔میں گزشتہ 35 سالوں سے ایک متحرک صحافی ہوں اور میں نے دیکھا ہے کہ بعض طاقتور ریاستی عناصر ہمیشہ میڈیا کو جبری گمشدگیوں کے بارے میں بات کرنے سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ یہ رپورٹنگ ریاست کے اندر ایک ریاست کو بے نقاب کرتی ہے جو آرٹیکل 10 کا کوئی احترام نہیں کرتی۔ آئین کے اس آرٹیکل میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی شخص کو جسے کسی بھی قانون نافذ کرنے والے ادارے نے گرفتار کیا اور حراست میں لیا ہے، اسے گرفتاری کے 24 گھنٹے کے اندر عدالت میں پیش کیا جائے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ میں اس کیس کا گواہ ہوں جس میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئی جی ایف سی بلوچستان میجر جنرل عبید اللہ خٹک کو طلب کیا اور کوئٹہ میں ایف سی کے تین بلوچ لڑکوں کو گرفتار کرنے کی سی سی ٹی وی فوٹیج چلائی۔ کوئٹہ میں فرائض سرانجام دینے والے دو پولیس اہلکاروں نے ایف سی کے خلاف چشم دید گواہ کے طور پر عدالت میں بیانات دئیے۔ میں نے اس کیس کو یہ کہہ کر رپورٹ کیا کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے دو پولیس اہلکار تین بلوچ لڑکوں کی گمشدگی کے خلاف گواہ بنے اور پیغام دیا کہ پنجاب کے لوگ اپنے بلوچ بھائیوں اور بہنوں سے محبت کرتے ہیں۔
جواب میں انھوں نے بتایا ہے کہ متعد د صحافی بشمول ہدایت اللہ خان موسی خانخیل اور سلیم شہزاد لاپتہ ہونے کرنے کے بعدقتل کردیئے گئے۔جب کہ صحافی مدثر نارو2018سے لاپتہ ہے ۔لاپتہ افرادسے متعلق رپورٹنگ سے پارلیمینٹ ان معاملات پر بحث پر مجبور ہوئی۔اور دونوں ایوانوں میں بحث کے بعد شہریوں کو لاپتہ کرنے کو جرم قرار دینے کا قانون بنا ۔اسی طرح جبری گمشدگی کے کیسز کی رپورٹنگ سے ریاستی اداروں کی جوابدہی اور قانون کی حکمرانی کو فروغ ملتا ہے ۔
جواب میں کہا گیا ہے ان کیسز کی رپورٹنگ سے کوئی منفی اثرات مرتب نہیں ہوتے جب کہ آئین بھی آزادی صحافت و اظہار رائے کی ضمانت فراہم کرتا ہے ۔ پیمراکا ضباطہ اخلاق بھی واضح کرتا ہے کہ زیرسماعت عدالتی کیسزکو معلومات کے لئے بامقصدطریقے سے نشر کیا جاسکتا ہے۔جبری گمشدگیوں پر آئینی و قانونی پابندی کے باجود بدقسمتی سے ان پر عملدآمد نہ ہونے کی وجہ اس معاملہ کا بوجھ عدالتوں کے کندھے پر آگیا ۔آئین کے آرٹیکل دس کو من و عن نافذکرنے کی ضرورت ہے ۔