کچھ مہینے قبل ایک کانفرنس کے سلسلے میں تین دن کچھ ادبی دوستوں کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملا، ہم ایک ہی ہوٹل میں ٹھہرے تھے اور ایک ہی بڑی گاڑی ہمیں کانفرنس ہال میں لے جاتی تھی، ناشتے اور رات کے کھانے پر سیاسی گفتگو بڑی حوصلہ شکن ہوتی تھی، خود کو دنیا کے سب سے بڑے باغی منوانے پر مصر یہ دوست اس ہیجان میں مبتلا ہونے سے پہلے اچھے خاصے دانشور قسم کے لوگ سمجھے جاتے تھے۔
تاہم ان تین دنوں میں پہلی صبح ناشتے پر ملاقات ہوئی تو ایک صاحب نے پلیٹ پکڑنے سے پہلے دھماکہ دار خبر سے سب کو آگاہ کیا، اگرچہ اس حیران کن خبر کا ذریعہ کوئی یو ٹیوبر تجزیہ تھا پھر بھی یہ خبر مجھے پریشانی میں مبتلا کر گئی، دن بھر سیشنز میں مصروف رہے، شام ڈھلے ہوٹل واپس آئے تو لابی میں پھر بحث چھڑ گئی، اب ان دھماکہ دار خبروں میں ضمیر کی آواز پر ایک دو اور باغی اعلانات کا اضافہ ہو چکا تھا، میں نے کہا یہ یوٹیوبر ایسے ہی الٹے سیدھے تجزیے کرتے رہتے ہیں، یہ حقیقت نہیں ہو سکتی، اچانک اتنا بڑا اپ سیٹ ممکن نہیں، سب سے بزرگ صاحب کہنے لگے، ڈاکٹر صاحبہ اب تو ہر طرف یہ بات پھیل چکی ہے، سب یہی کہہ رہے ہیں ۔ حوالے کے طور پر انھوں نے ایک دو چینلز کا تذکرہ بھی کیا، میں اور پریشان ہوگئی، اسی طرح تین دن گزر گئے، مصروفیات کا یہ عالم تھا کہ کمرے میں موجود ٹی وی اور موبائل پر کچھ دیکھنے کا وقت ہی نہ ملا۔
لاہور واپس آئی تو دکھی دل کے ساتھ سیاسی حوالوں سے پریشان کن صورتحال سے واقفیت کے لئے مختلف چینلوں کا جائزہ لینے لگی، کیونکہ تین دن کی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ بہت سی سیٹیوں کے نتائج کالعدم ہو چکے ہیں، کچھ لوگوں نے استعفے دے دئیے ہیں، فلاں فلاں صوبے کی گورنمنٹ چند گھنٹوں کی مہمان ہے، اندر کھاتے فلاں کی فلاں سے ڈیل ہو چکی ہے مگر، مطلب یہ کہ سیاسی انتشار کے نتیجے میں خانہ جنگی شروع ہونے والی ہے، کئی گھنٹے ٹی وی دیکھنے،غیرجانبدار تجزیہ نگاروں کے تبصرے سننے کے بعد ذرا سی ہلچل کا سراغ نہ ملا تو سیاسی استحکام پر طمانیت کے ساتھ ایک اور قسم کی پریشانی لاحق ہوئی کہ غلط اور جھوٹے تجزیوں کی وساطت ہم پر کیسی خوفناک پروپیگنڈا جنگ مسلط کر دی گئی ہے، جو نہ صرف سیاسی بلکہ معاشی، دفاعی اور سماجی حوالوں سے بھی نقصان کی حامل ہے، اس میں زیادہ قصور ان مشہور شخصیات کا ہے جنہوں نے اپنی شہرت کو کیش کرنے کے لئے یوٹیوب چینل بناکر بے رحم تبصروں کا آغاز کیا، مالی مفاد اور تشہیر کی خواہش میں ان کی دیکھا دیکھی ہر وہ دوسرا بندہ موبائل کیمرے کے سہارے سوشل میڈیا پر سچی خبر اور صورتحال سے آگاہ کرنے والا تجزیہ نگار بن کر سامنے آگیا، جس کی نہ صرف تعلیم واجبی بلکہ اسے صحافتی، سیاسی اور دیگر معاملات کا کوئی علم نہیں، سنی سنائی بات میں مزید جھوٹ شامل کر کے نئی کہانی بنا کر پیش کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور پھر دوڑ لگ گئی، سیاسی و جذباتی وابستگی کا شکار لوگ اندھا دھند لائیک اور شیئر کرکے جھوٹ کے اس کاروبار کو پھیلانے کا ذریعہ بننے لگے کیونکہ ان کے پاس کوئی ثبوت اور جواز میسر نہیں ہوتا نہ منطقی حوالے سے گفتگو کے قابل ہوتے ہیں اسلئے سارا زور دشنام طرازی، الزام تراشی اور گالی گلوچ پر رہتا ہے، ایسی صورت میں جب لوگ مذہبی و اخلاقی قدروں کی پروا کرنا چھوڑ دیں، کوئی قانون اور حد بندی تو ضروری ہے، خصوصا عورتوں کے حوالے سے بظاہر بڑے سیاسی لوگوں کے غیراخلاقی بیانات دیکھ کر شرمندگی ہوتی ہے کہ ان لوگوں کی رائے اور صلاح سے ملک میں خیر اور خوشحالی کیسے آسکتی ہے، جنہیں اپنی ذات کے شر پر کنٹرول نہیں ، جنہیں دلیل سے بات کرنے کا سلیقہ نہیں، عظمی بخاری اطلاعات کی وزیر ہے، سرکار کی پالیسیوں کی تشہیر اور اعتراضات کا جواب دینا اس کے فرائض میں شامل ہے، وہ بہت سلجھی اور شگفتہ اطوار کی خاتون ہے مگر مخالف سیاسی جماعتوں کے کچھ لوگوں کے عظمی بخاری کے بارے گھٹیا بیانات سن کر یقین نہیں آتا کہ یہ ہم میں سے ہیں، یہ تو ہمارا کلچر نہیں تھا، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے آپسی مخالفت میں کبھی عورت کی اس طرح تذلیل کی روش نہیں اپنائی جو آجکل روایت بنتی جارہی ہے ۔مخالفین پر ایسے الزامات لگائے جاتے ہیں جو انھوں نے کبھی سوچے بھی نہ ہوں، خبر کی تصدیق کا حوالہ سنا کرتے تھے، تبصرے کے لئے کسی تصدیق کی ضرورت نہیں، ذاتی حسد، ناپسندیدگی اور نفرت کے بل بوتے پر کہانی گھڑنا اور پھیلانا عام ہوچکا ہے، ایسی صورت میں پنجاب حکومت کا ہتکِ عزت کا قانون بالکل درست فیصلہ ہے، جھوٹ اور سنسنی پھیلانے والے لوگوں کی پکڑ ضروری ہے، آجکل سوشل میڈیا ایک عالمی پلیٹ فارم بن چکا ہے، اس لئے افواہوں اور الزامات کا اثر ملکوں کے باہمی تعلقات پر بھی ہوتا ہے ، پاکستان کو سیاسی اور معاشی استحکام کی کٹھن منزل حاصل کرنے کے لئے افواہوں کا سلسلہ بند کرنا ہوگا، آئیے قانون کے غلط استعمال سے خوفزدہ ہونے کی بجائے اس کے درست استعمال سے معاشرے کی اخلاقی حالت کو سنوارنے کی کوشش کریں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ