آزاد کشمیر میں بے چینی اور اس کا حل : تحریر افتخار گیلانی


ایک طرف جہاں جموں و کشمیر کے قلب سرینگر۔پلوامہ میں پارلیمانی انتخابات کیلئے پولنگ ہو رہی تھی، اسی ریاست کے دوسری طرف یعنی لائن آف کنٹرول کے پار حالات مخدوش ہورہے تھے۔ گو کہ نسل وزبان کے لحاظ سے ان دونوں خطوں میں شاید ہی کوئی مماثلت ہو، مگر 1846کے امرتسر ایگرمنٹ کی رو سے اس خطے کی جو سرحدیں متعین ہوئی ہیں، ایک دوسرے کے معاملات سے لاتعلق رہنے کے باوجود اس نے دونوں اطراف کے باشندوں کا مستقبل ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کیا ہواہے۔ایک طرح سے ان کو لازم و ملزوم کردیا ہے۔ آزاد کشمیر کا نیلم اور مظفر آباد کا علاقہ وادی کشمیر کے ضلعوں بالترتیب کپواراڑہ اور بارہمولہ سے منسلک ہے۔مگر اس کا بڑا حصہ باغ، پلندری، راولا کوٹ،کوٹلی ،میر پور،بھمبر وغیرہ 1947 سے قبل جموں ڈویژن کا حصہ ہوتا تھا۔مظفر آباد اور نیلم کے علاقے تو انتہائی دور افتادہ علاقے مانے جاتے تھے۔حتی کہ جب ڈوگرہ حکومت نے 1930کی دہائی میں شیخ محمد عبداللہ کو جو ایک استاد تھے کو مظفر آباد ٹرانسفر کیا، تو اس نے وہاں جانے کے بجائے استعفی دیکر سیاسی تحریک میں شمولیت اختیار کی۔ خیر آزاد کشمیر میں جن مطالبات کو لیکر طوفان برپا ہوگیا ہے اور جس کے نتیجے میں کئی جانیں بھی چلی گئیں، کو بڑی آسانی کے ساتھ افہام و تفہیم کے ساتھ حل کیا جاسکتا تھا۔ بجلی کے بل اور آٹے کی قیمتوں میں کمی یا اسی سبسڈی کی مانگ، جس کا اطلاق گلگت بلتستان پر ہوتا ہے، کوئی ایسے مطالبات نہ تھے ،جن پر کوئی مراعات نہیں دی جاسکتی تھیں۔نومبر سے دسمبر 2023 تک جاری رہنے والے مذاکرات کے دوران عوامی ایکشن کمیٹی نے مطالبات کی 10 نکاتی فہرست کابینہ کمیٹی کو پیش کی۔ اس فہرست میں آٹے پر سبسڈی، منگلا ہائیڈرو پاور پلانٹ کی پیدا ہونے والی بجلی کے نرخوں میں کمی، ضرورت سے زیادہ سرکاری مراعات کا خاتمہ اور دیگر سماجی و اقتصادی اصلاحات شامل تھیں مگر معاملہ حکومت پر اعتماد کاہے ۔ 2021کے اسمبلی انتخابات کے بعد تو اس خطے میںچار سال میں تین وزرا اعظم تبدیل ہو چکے ہیں۔ اگست 2021 میں پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی پارٹی نے جب اسمبلی میں اکثریت حاصل کی، تو سردار عبدالقیوم نیازی کو وزیر اعظم بنایا گیا، مگر پھر نامعلوم وجوہات کی بنا پر ان کو ہٹا کر ایک کارباری شخصیت تنویر الیاس کے سر پر تاج سجایا گیا۔ ایک سال کے بعد ان کو بھی معزول کرکے ایک عجیب و غریب حکومت سردار انوارالحق کی قیادت میں برسراقتدار آئی، جو خود تو عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف سے ہی منتخب ہوگئے تھے، مگر ان کی حکومت کو پاکستان کی دیگر جماعتوں نواز شریف کی مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی حمایت حاصل ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس طرح کی نازل کی ہوئی حکومت اور عوام کے درمیان خلیج تو ہونی ہی ہے۔ایک ایسے نازک سرحدی خطے میں ایسے تجربات کرنے کا مطلب ہی عدم استحکام کو دعوت دینا ہے۔ ان کے حامی بتاتے ہیں کہ انہوں نے اپنے ایک سالہ دور میں خفیہ فنڈز استعمال کرنے سے انکار کیا ہے۔ تمام سرکاری ٹھیکے ای ٹینڈرنگ کے ذریعے دینے پر زور دے رہے ہیں اور وزیراعظم ہاؤس اور دفتر کے اخراجات میں 90 فیصد سے زائد کمی کی ہے۔ انہوں نے غیر سرکاری مقاصد کے لیے اپنی سرکاری گاڑی کا استعمال کم کر دیا، نئی گاڑیوں کی خریداری پر پابندی لگا دی اور بیوروکریسی سے غیر مجاز گاڑیاں مرحلہ وار ختم کرا دیں، وزرا کے لیے پٹرول کی حد مقرر کی اور گاڑیوں کی دیکھ بھال کے چارجز کو ختم کر دیامگر حکومت کی کفایت شعاری اور سرکاری ملازمین کے لیے بائیو میٹرک حاضری اور ٹیکس چوری کے خلاف کریک ڈان جیسے مخلصانہ فیصلے بھی عوام کے گلے نہیں اتر رہے ہیں، جس کی وجہ سے وزیر اعظم اپنی ہی مخلوط حکومت میں الگ تھلگ بھی ہو گئے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ 1987کے انتخابات میں جموں و کشمیر میں ریکارڈ توڑ انتخابی دھاندلیوں کے بعد جب نیشنل کانفرنس۔کانگریس کی مخلوط حکومت ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی قیادت میں برسراقتدار آگئی، تو کئی ماہ بعد اس نے بجلی فیس میں اضافہ کردیا۔ اس پر مظاہرے شروع ہوئے، تو پولیس نے سرینگر کے ڈاون ٹاون میں فائرنگ کرکے چار افراد کو ہلاک کردیا۔ ایک تو ایسی حکومت، جس کو عوامی منڈیٹ حاصل نہیں تھا، پھر اس کا بجلی کی شرحوں میں اضافہ کرناآگ میں تیل ڈالنے والا معاملہ تھا۔ جن حکومتوں کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی کوئی عوامی ساکھ نہیںہے، وہ اس طرح کی اصلاحات یعنی سبسڈی کم کرنا یا بجلی یا پانی کی دریں بڑھانا، کی متحمل نہیں ہوسکتی ہیں۔وہ تو عوام کا غم و غصہ کم کرنے یا اس پر لگام لگانے کیلئے مراعات دیتی ہیں، جیسا کہ 1953میں شیخ عبداللہ کی معزولی اور گرفتاری کے بعد بخشی غلام محمد نے کیا۔کشمیریوں کا پیٹ سستے چاولوں سے بھر کر ان کو آزادی اور شیخ عبداللہ کو دس سال تک بھلا دیا۔ فاروق حکومت کے خلاف لاوا پکتا گیا اور اس کے دو سال بعد ہی لوگ سڑکوں پر تھے ۔فاروق عبداللہ خود بتاتے ہیں کہ اس دوران انہوں نے کئی بار نئی دہلی کی حکومت کو باور کرانے کی کوشش کی کہ جموں و کشمیر کو دیگر ریاستوں کے مقابلے زیادہ گرانٹ کی ضرورت ہے مگر کسی نے ان کی نہیں سنی۔ (جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ 92 نیوز