(گزشتہ سے پیوستہ)
مولانا شبیر احمد عثمانی نے 12 ستمبر 1948 ء کی شام قائداعظم محمد علی جناح کا جنازہ پڑھایا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر ایلن کائسلر کے حوالے سے ایک روایت بار بار بیان کی جاتی ہے۔ یہاں مناسب ہو گا کہ ڈاکٹر کائسلر کا کچھ تعارف ہو جائے۔ ڈاکٹر کائسلر جولائی 1947 میں برطانوی ہند کے شمالی شہر ڈیرا ڈون (مسوری) میں امریکی نژاد مشنری والدین کے ہاں پیدا ہوئے۔ تقسیم کے بعد اپنے والدین کے ہمراہ پاکستان چلے آئے۔ یہاں ان کے والدین خانیوال، لاہور اور رائے ونڈ میں مقیم رہے۔ ڈاکٹر کائسلر نے ابتدائی تعلیم کے بعد کچھ عرصہ لاہور کے ایف سی کالج میں بھی پڑھایا۔ 1965 ء میں برکلے (کیلیفورنیا) منتقل ہو گئے اور اب وہیں مقیم ہیں۔ روانی سے اردو اور پنجابی بولنے والے ڈاکٹر کائسلر اکثر پاکستان آتے رہے ہیں اور دائیں بازو کے حلقوں میں خاصے معروف ہیں۔ بین المذاہب مکالمے کے مختلف اداروں سے وابستہ ہونے کے باوجود حیران کن طور پر نوے کی دہائی میں متعارف ہونے والے انتہا پسند مذہبی تصورات مثلاً غزوہ ہند وغیرہ کے پرجوش حامی ہیں۔ (غزوہ ہند کا پرچار کرنے والوں نے کبھی یہ وضاحت نہیں کی کہ مزعومہ غزوہ ہند میں آج کا بنگلا دیش صف مبارزت میں کس طرف ہو گا؟) سوشل میڈیا پر ڈاکٹر کائسلر کے لیکچر جمہور مخالف پلیٹ فارمز پر کثرت سے دستیاب ہیں۔ ان لیکچرز میں ڈاکٹر کائسلر ایک واقعہ بار بار دہراتے ہیں کہ ’مولانا شبیر احمد عثمانی سے سوال کیا گیا کہ آپ نے قائد اعظم کی نماز جنازہ کیوں پڑھائی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ‘‘ قائداعظم کا جب انتقال ہوا تو میں نے رات رسول اکرم ﷺ کی زیارت کی۔ رسول اکرم ﷺ قائداعظم کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہتے ہیں کہ یہ میرا مجاہد ہے۔ ’’سوال یہ ہے کہ مولانا کو اس سوال کے جواب میں اپنی مذکورہ خوش نصیبی کے اظہار کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ کیا قائد اعظم کا جنازہ پڑھانا کوئی قابل اعتراض فعل تھا؟ یہ تو واضح ہے کہ نماز جنازہ سے متعلق سوال کرنے والا قائد اعظم کے بارے میں حسن ظن نہیں رکھتا تھا۔ مولانا نے اسے دو ٹوک انداز میں یہ کیوں نہیں بتایا کہ قائد اعظم ان کے سیاسی رہنما، بابائے قوم اور مسلمانان ہند و پاک کے عظیم قائد تھے چنانچہ ان کی نماز جنازہ پڑھانا ایک سعادت تھی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مولانا شبیر احمد عثمانی کا سیاسی موقف بابائے قوم قائد اعظم کی دستوری، سیاسی اور سماجی بصیرت سے متصادم تھا۔ چنانچہ انہیں اپنے سیاسی موقف کا جواز تراشتے ہوئے خوابوں میں پناہ لینا پڑتی تھی۔ علامہ شبیر احمد عثمانی سے منسوب یہ روایت بیان کرنے والے بھی کسی متعین واقعاتی یا تقویمی حوالے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ واضح رہے کہ مولانا شبیر احمد عثمانی 13 دسمبر 1949 کو بہاولپور میں انتقال کر گئے تھے۔
اس ضمن میں سابق وفاقی سیکرٹری داخلہ اور آئی جی پنجاب پولیس چوہدری فضل حق نے نظریہ پاکستان کونسل اسلام آباد کے ماہنامے ’نظریہ‘ میں ایک مضمون لکھا تھا۔ اقتباس ملاحظہ ہو۔ ’علامہ شبیر احمد عثمانی نے قائداعظم کی وفات کے بعد بتایا کہ قائد مرحوم نے انہیں ایک نشست میں بتایا تھا کہ وہ لندن میں خود اختیار کردہ جلاوطنی کو سرور کائناتﷺ کے حکم پر ختم کر کے واپس آئے تھے جو انہیں رسول پاکﷺ نے ایک خواب میں دیا تھا۔ خواب کی تفصیل بیان کرتے ہوئے قائد نے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ کا حکم نہایت واضح تھا۔’’ محمد علی واپس جاؤ اور وہاں کے مسلمانوں کی قیادت کرو‘‘۔ قائداعظم نے یہ خواب سنا کر تاکید کی تھی کہ اس واقعہ کا ذکر ان کی حیات میں کسی سے نہ کیا جائے۔‘‘ ( بحوالہ ڈاکٹر صفدر محمود، روز نامہ جنگ، 29 ستمبر 2011 ء)۔ قائد اعظم برطانیہ میں اپنا عبوری قیام ختم کر کے 1934 ء میں ہندوستان واپس آئے تھے۔ حیرت ہے کہ نبی آخر الزماں ﷺ کے حکم کی سعادت سے سرفراز ہونے والے محمد علی جناح کے مقام سے مولانا شبیر احمد عثمانی جیسے متبحر عالم دین دس برس تک بے خبر رہے اور انہوں نے مسلم لیگ میں شمولیت کے لئے 1944 ء تک توقف فرمایا۔ قائد اعظم جیسے قانونی نکتہ رس ذہن نے مبینہ طور پر علامہ شبیر احمد عثمانی کو یہ تاکید کرتے ہوئے کہ’ ’اس واقعہ کا ذکر ان کی حیات میں کسی سے نہ کیا جائے۔‘‘ یہ کیسے فرض کر لیا کہ علامہ شبیر احمد عثمانی کی وفات ان کے بعد ہو گی۔ زندگی اور موت کے بارے میں تو کوئی متعین پیش بینی نہیں کی جا سکتی۔قرار داد مقاصد کے کیف و کم کا تجزیہ کرنے سے پہلے 11 اگست 1947 ء کی طرف لوٹنا ہو گا۔ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کا افتتاحی اجلاس نوزائیدہ ریاست کی پہلی سرکاری تقریب تھی۔ محمد علی جناح اس موقع پر تین حیثیتوں سے ایوان کو خطاب کر رہے تھے۔ وہ دستور ساز اسمبلی میں اکثریتی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کے منتخب صدر تھے۔ وہ پاکستان کے نامزد گورنر جنرل تھے اور اس تقریر سے کچھ ہی دیر پہلے نئی دستور ساز اسمبلی نے انہیں اپنا سربراہ منتخب کیا تھا۔ ان نمائندہ ترین حیثیتوں میں قائد اعظم اہل پاکستان نیز بیرونی دنیا پر پاکستان کی نئی ریاست کے خد و خال واضح کر رہے تھے۔ وہ نہ تو کسی عوامی اجتماع میں خطاب کر رہے تھے اور نہ اپنے سیاسی رفقا سے مخاطب تھے۔ یہ تقریر دراصل پاکستان کے سیاسی اور آئینی خد و خال تراشنے کی پہلی کوشش تھی۔ اس موقع پر اسمبلی میں کوئی مذہبی رسم منعقد نہیں کی گئی۔ حتیٰ کہ تلاوت قرآن تک نہیں کی گئی۔ ضمیر نیازی نے اپنی کتاب’Press in Chains ‘ میں دستاویزی حوالوں سے بیان کیا ہے کہ پاکستان کے کچھ اعلیٰ سرکاری اور سیاسی عہدیداروں نے قائد اعظم کی اس تقریر کی اشاعت رکوانے کی کوشش کی تھی۔ روزنامہ ڈان کے مدیر الطاف حسین نے دھمکی دی کہ وہ خود قائد اعظم سے بات کر کے اس تقریر کے بارے میں براہ راست احکامات حاصل کرینگے۔ اس پر قائد اعظم کے برخود غلط رفقا کو وقتی طور پر اپنی سازش لپیٹنا پڑی۔ تاہم یہ امر واضح ہے کہ پاکستان میں روز اول ہی سے نظریاتی کشمکش کی بنیاد موجود تھی۔ اس کا ثبوت 3 ستمبر 1947 کو اخبارات میں شائع ہونے والا مولانا شبیر احمد عثمانی کا بیان تھا۔ اگلی نشست میں قائد اعظم کے فرمودات اختصار سے بیان کر کے ان پر مولانا شبیر عثمانی کا دستاویزی موقف دیکھیں گے۔ (جاری ہے)
بشکریہ روزنامہ جنگ