بی جے پی کو انتخابات میں جموں وکشمیر میں شرمندگی کا سامنا ہے. صدیق واحد

سری نگر: بھارت میں عام انتخابات کے تیسرے مرحلے کا  آغاز ہو گیا ہے ، آرٹیکل370 ختم کر کے جموں وکشمیر کو بھارت  میں ضم کرنے کا دعوی کرنے والی جماعت بی جے پی  کا ایک بھی امیدوار مقبوضہ کشمیر میں موجود نہیں  ہے ۔تاہم خطے کی سیاسی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے سیاسی تجزیہ کار صدیق واحد نے میڈیا کو بتایا کہ میرے خیال میں بی جے پی ایک سادہ سی وجہ سے اپنی امیدوار نہیں کھڑے کر رہی۔ وہ سادہ وجہ یہ ہے کہ انہیں ممکنہ شرمندگی سے بچنا ہے کیوں کہ وہ ہار جائیں گے۔اس سے ان کی پارٹی کا مقصد یہ ہو گا کہ وہ کوشش کریں گے کہ وہ ایسے لوگوں کے ساتھ ساز باز کر لیں جن کا موقف ان کے پارٹی موقف اور سوچ سے قریب تر ہو۔ غیر ملکی اخبار کی رپورٹ کے مطابق بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد یہاں پہلے عام انتخابات منعقد ہو رہے ہیں جس میں انڈیا کی حکومتی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) خود تو براہ راست حصہ نہیں لے رہی تاہم کشمیر کی روایتی سیاسی جماعتیں ان میں حصہ ضرور لے رہی ہیں۔کشمیر میں ہونے والے یہ انتخابات تین مراحل میں ہوں گے جس کا آغاز 13 مئی کو ہو گیا ہے۔خطے میں 55 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز کو اپنے نمائندے چننے کا حق حاصل ہے۔2019 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کے ضامن آئینی آرٹیکل کو منسوخ کرنے کے بعد خطے میں نئے سرے سے حلقہ بندیاں کی گئی ہیں۔کشمیر کی روایتی علاقائی جماعتیں جن میں جموں کشمیر نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی سرِ فہرست ہیں،

ریاست کی خصوصی درجے کی منسوخی کو غیر پارلیمانی اور غیر آئینی قرار دے رہی ہیں۔ان جماعتوں کو  نئی دہلی  میں مودی حکومت کے خلاف بنے انڈیا اتحاد کی سر پرستی حاصل ہے۔دوسری طرف کشمیر میں اگست 2019 کے بعد وجود میں آئی نئی تنظیمیں، جن میں جموں کشمیر اپنی پارٹی اور ڈیموکریٹک پراگریسیو آزاد پارٹی قابل ذکر ہیں جو فلاح و بہبود وغیرہ کی بنیاد پر انتخاب میں حصہ لے رہی ہیں۔جموں کشمیر پیپلز کانفرنس ویسے تو پرانی تنظیم ہے مگر انتخابات میں نئی پارٹیوں کے ساتھ کھڑی نظر آرہی ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ بھارت  کی حکمران جماعت بی جے پی نے کشمیر سے کسی بھی امیدوار کو اپنے ٹکٹ پر کھڑا نہیں کیا۔جموں کشمیر نیشنل کانفرنس نے سرینگر پارلیمانی حلقہ سے آغا سید روح اللہ مہدی کو اپنا امیدوار چنا ہے۔ ان کا کہنا تھا یہ انخابات اس لیے اہم ہیں کیوں کہ ہمارے جمہوری اور قانونی تشخص کو حتم کر نے کے بعد یہ پہلے انتخابات ہیں۔یہ ہمیں موقع فراہم کر رہے ہیں کہ اپنا موقف انڈیا کی پارلیمنٹ اور عوام کو بتا سکیں کہ پانچ اگست 2019 کو لیا گیا فیصلہ کشمیر کی عوام کو منظور نہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ جن اصولوں پر ہم نے ملک (انڈیا) کے ساتھ الحاق کیا تھا وہ سب ٹوٹ گئے ہیں۔آرٹیکل 370 کے بیانیہ پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان الطاف ٹھاکر کا کہنا تھا یہ فیصلے مرکز میں لیے جاتے ہیں۔ جب 370 منسوخ ہوا تب بھی جموں کشمیر نیشنل کانفرنس کے تین رکنِ پارلیمان موجود تھے۔ یہ تب کچھ نہیں کر پائے، اب کیا کریں گے؟حریت کانفرنس اور اس سے منسلک سیاسی رہنما ہمیشہ سے کشمیر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کا بائیکاٹ کرتے آئے ہیں۔ لیکن اس مرتبہ ساری حریت قیادت جیلوں میں ہے میر واعظ عمر فاروق نے دی ہندو اخبار کو اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ انڈین حکومت نے یکطرفہ تبدیلیوں سے مسئلہ کشمیر کو پیچیدہ بنا دیا ہے اور اب الیکشن بائیکاٹ کی کال دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔