کئی دنوں سے سوچ رہی تھی، حالات کے اُلجھے دھاگے سنورنے کی بجائے ایسی گانٹھوں کی شکل دھارتے جا رہے ہیں جنھیں دانتوں سے کھولنا بھی دشوار ہے، ایک طرف ذرا ٹھنڈی ہوا چلنے سے لوگوں کے چہرے پر اطمینان اور سکون کی کیفیت ٹھہرنے لگتی ہے تو دوسری طرف بھڑکے ہوئے احساسات آتش فشاں کی صورت پھٹتے سب کچھ راکھ کرتے چلے جاتے ہیں، مجموعی مطلع دھند آلود، بدبودار اور نامہربان رہتا ہے ۔ایسا نہیں کہ فکر کرنے والے سیاستدان، افسران اور سول سوسائٹی کے لوگ بالکل خاموش ہیں وہ وقتاً فوقتاً اس جوہڑ میں لفظوں اور عمل کے پتھر پھینکتے رہتے ہیں مگراک ذرا سا ارتعاش ذرا سے سُکھ کی بجائے ڈھیروں غلاظت اور بدبو سے ماحول کو بدصورت بنا کر گزر جاتا ہے ۔آس، جستجو اور یقین کی چھتری تلے برسوں سے سفر کی حالت میں تھکے وجود بے یقینی کے دھندلکوں میں ٹھوکریں کھاتے زخمی ہوئے جاتے ہیں ۔اس ساری بگڑی صورتِ حال کا ایک ہی سبب ہے کہ ریاست منصف نہیں، ریاست ماں بننے کو تیار نہیں، جو ریاست ماں بننے کی روش ترک کردے وہ ایثار، فلاح، ہمدردی اور مہربان رویوں سے بے نیاز ہو کر ظلم وزیادتی اور بے انصافی کی راہ پر چل پڑتی ہے۔ ہمارے ساتھ بھی کچھ یہی معاملہ ہے، ریاست نے اول دِن سے اصل وارثان کو ان کے جائز حقوق اور وراثت سے محروم رکھ کر صرف زندہ رہنے کے لئے تگ و دو میں اس طرح مصروف کر رکھا ہے کہ دیگر معاملات پر وہ توجہ ہی نہ کرسکیں۔
75 سال سے ہر سال دہرائے جانے والے خوابوں، نعروں، بڑھکوں اور کھوکھلے وعدوں کی اصلیت کُھلنے سے ہر بھرم ٹوٹ چکا ہے، سوشل میڈیا پر موجود درست تاریخی حوالوں، مباحثوں اور تحریروں نے تمام کرداروںکی تہہ در تہہ شکل سے روشناس کر دیا ہے، اب ملک کے وسیع تر مفاد اور درپیش خطرات کے نام پر نہ کوئی بہلنے کو تیار ہے نہ بیوقوف بننے کو راضی ۔
زمین کو پلاٹ اور لوگوں کو آلہ کار سمجھ لیا جائے تو دونوں پرائے ہو جاتے ہیں، پرانے واقعات کو چھوڑئیے حالیہ منظرنامے پر توجہ کریں، ملک میں اربوں کے اخراجات کے عوض آزاد مرکزی و صوبائی حکومتیں قائم ہیں مگر کہیں بھی مکمل طور پر حکومتی رٹ قائم نہیں، ریاست کے اندر کئی گرو ہ دندناتے پھر رہے ہیں ۔ان کا جب دل چاہتا ہے وہ دنگا فساد کرتے ہیں، سڑکیں بند کر دیتے ہیں، اسمگلنگ سمیت ہر قسم کی لاقانونیت کرتے ہیں۔
صوبائی ہم آہنگی کی کوشش کی بجائے صوبائی مخاصمت بڑھائی جا رہی ہے ۔سب سے زیادہ نقصان میں پنجابی مزدور اور کسان ہے ۔کسی ٹھیکیدار کے بلاوے پر گوادر اور دیگر جگہوں پر مزدوری کرنے جانے والے غریبوں کے نوجوان بیٹے بے دردی سے قتل ہو رہے ہیں ۔کتنے سال سے آئے روز اپنی سرحدوں کے اندر پنجابی ماؤں کے اکلوتے، بے قصور سپاہی اپنوں کے ہاتھوں جان کی بازی ہارتے جا رہے ہیں ، ان کے مداوےکی کوئی تدبیر نظر نہیں آتی، صرف ایک بیان سے کب تک دکھی دلوں کی تشفی ہوگی ۔
پنجاب کے ہر شہر میں پٹھان، بلوچ اور دیگر پوری آزادی سے کاروبار پر براجمان ہیں، یہاں محل تعمیر کر کے بیٹھے ہیں، انتخابات کے ذریعے حکومتوں کا حصہ بنتے ہیں کہ پنجابی کو جو غلط تاریخ ازبر کرائی گئی اور ایثار کا سبق دیا گیا اس سے باہر نکلنے نہیں دیا جارہا ۔جب زمان پارک سے حکومت ہورہی تھی تو کے پی کے اور گلگت کی پولیس ہمارے شہر کی سڑکوں پر پوری آزادی کے ساتھ توڑ پھوڑ کر رہی تھی اور سب تماشا دیکھ رہے تھے ۔
پنجابی مزدور کو کہیں امان نہیں اور اب پنجابی کسان بھی بے آسرا ہو رہا ہے، آڑھتی کے ہاتھ ایک بڑے پیزے کی قیمت پر من گندم بیچنے پر مجبور ہوا کہ اگلی فصل سے بھی نہ جائے، گنا اگائے گا تو چینی والے دیہاڑیاں لگائیں گے ۔اگر کسان سے یونہی بے مروتی برتی جاتی رہی تو پھر پنجاب سبزے اور دریاؤں والا نہیں ہاؤسنگ کالونیوں کا جنگل بن جائے گا ۔پورے ملک میں طاقتور گروہ ہیجان کی کیفیت پیدا کئے ہوئے ہیں اور اس سب کی وجہ ریاست کی عدم مساوات پر مبنی پالیسی ہے ۔چھوٹے مجرم سے رعایت نہیں اور بڑے کو پوچھنا نہیں، 9مئی ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے، پہلے جن لوگوں نے پریس کانفرنسز کر کے سیاست سے توبہ کی، بعد میں انھوں نے مخصوص جماعت کی وفاداری میں دھڑلے سے انتخابات میں حصہ لیا، کچھ لوگ آج بھی جیلوں میں ہیں اور بہت سے آزاد پھر رہے ہیں ۔جس نے پورے معاملے کی شفافیت پر سوال اٹھا رکھا ہے ۔جان بوجھ کر بے یقینی کی کیفیت پیدا ہوئی ہے، گنڈاپور کو صوبے کا وزیراعلیٰ بنا دیا گیا ہے جس کی ہر بات وفاق اور پنجاب پر حملے سے شروع ہوتی ہے، کسی کا کوئی محاسبہ نہیں۔کشمیر میں حالیہ افراتفری بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے، آہستہ آہستہ ملک خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے ۔پھر مہنگائی، ٹیکسز کے مقابلے میں پروٹوکول، مہنگی گاڑیاں، تزئین و آرائش پر اخراجات کی تفصیل لوگوں کا حوصلہ اور صبر پست کر رہی ہے، فسادکرنے والوں کو وہ لوگ میسر آگئے ہیں جن کے پاس کھونے کو کچھ نہیں اس لئے ریاست ماں کو غور کرنا چاہیے اور تقسیم کرکے تماشا دیکھنے کی بجائے اپنا سخت اور مہربان کردار ادا کرنا چاہئے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ