عمر بیتی جا رہی ہے۔ ہر حکومت کے بدلنے پر ہم خواب دیکھتے ہیں کہ وہ صبح اب آ جائے گی جب یہ ریاست سکیورٹی کو ترجیح دینے کی بجائے عوامی فلاح پر توجہ دے گی۔ہر جمہوری حکومت سے توقع باندھتے ہیں کہ اب آئین کی سربلندی قائم ہوگی جمہوریت کی بہتری کی طرف توجہ ہوگی، میڈیا آزاد ہوگا، عدلیہ انصاف کے مطابق فیصلے کرے گی، اختلاف رائے کو برداشت کیا جائے گا، سیاسی مخالفوں کو جیلوں میں بھیجنےکے بجائے ان کی آواز پارلیمان میں گونجنے لگے گی، اس ملک کو معرض وجود میں آئے پون صدی ہو چکی مگر وہ صبح آ نہیں رہی بلکہ مزید دور ہوتی جا رہی ہے۔
مسئلہ بڑا سادہ ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے پہلے دن سے ہی ملک میں پارلیمانی جمہوریت کا نظام رائج کیا ، سارے اختیارات وزیر اعظم کو دیئے،1973ء میں ملک کی تمام مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے مل کر متفقہ آئین بنایا، یہ آئین بھی پارلیمانی اور جمہوری ہے، ملک کی تاریخ میں اگر دو سب سے بڑی متفق چیزیں ہیں تو ان میں سے ایک قائد اعظم کی ذات ہے اور دوسرا آئین پاکستان۔ اس ملک نے اگر ترقی کرنی ہے اور اپنی شام اور اندھیری رات کو صبح میں تبدیل کرنا ہے تو انہی دو متفقات کی روشنی میں آگے بڑھنا ہوگا۔
گزشتہ دنوں آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں جہاں 9مئی پر مقتدرہ کا ردعمل سامنے آیا وہاں کچھ حیران کن جوابات بھی سننے کو ملے، پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ فوجی ترجمان نے ماضی میں مقتدرہ کے سیاسی کردارپر اعتراضات اٹھائے ہیں، ماضی کے دھرنوں میں ماضی کی مقتدرہ کے کردار پر انگلی اٹھائی گئی ہے، اسی طرح چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جنرل فیض حمید کے فیض آباد دھرنے میں کردار کا کئی بار ذکر کیا ہے۔ اگر تو واقعی ماضی کی غلطیوں کے اعتراف کا وقت آگیا ہے تو یہ بڑی خوش آئند بات ہے اور اس کا مطلب ہے کہ ہم پھر سے صبح کے خواب دیکھ سکتے ہیں۔
مگر وہ صبح تبھی آسکتی ہے جب کمانڈر عبدالرب کی سکندر مرزا کے بارے میں جھوٹی کہانی بے نقاب ہو، اسی جھوٹی کہانی کی بنا پر صدر سکندر مرزا کا بوریابستر گول کرکے اقتدار جنرل ایوب خان کےسپرد ہوا ۔جھوٹی کہانی یہ بنائی گئی کہ سکندر مرزا ایوب خان کوگرفتار کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے، ایوب خان کے دور میں سکندر مرزا جلاوطن رہے اور ان کا موقف کبھی سامنے ہی نہیں آنے دیاگیا۔ اسی طرح وہ صبح تب آئےگی جب یہ پتہ چلایا جائے گا کہ ایوب خان نے مستعفی ہوتے وقت اپنے ہی تشکیل کردہ آئین کے مطابق اقتدار سپیکر کے حوالے کرنے کے بجائے جنرل یحییٰ خان کے سپرد کیوں کیا تھا۔
وہ صبح تبھی طلوع ہوگی جب 1973ء کے آئین میں آرٹیکل 6ہونے کے باوجود جنرل ضیاء الحق نے مارشل لا نافذ کردیا تو آئین کی محافظ عدالتیں کہاں سو گئی تھیں اور اتنے سال گزرنے کے باوجود جبکہ بھٹو کی پھانسی کوبھی غیر قانونی اور ناجائز قرار دیا جا چکا ہے جنرل ضیاءالحق کو اب تک علامتی سزا کیوں نہیں ملی اور اب تک انہیں فیصل مسجد جیسی مرکزی سرکاری جگہ سے عام قبرستان میں کیوں منتقل نہیں کیا گیا، ان کے اشاروں پر بھٹو کو موت کی سزا دینے والے تو غلط اور معتوب ٹھہرائے جا چکے لیکن مرکزی ملزم کا کوئی نام لینے تک تیار نہیں۔ حقائق کو چھپا کر آپ نئی صبح کی دعا بھی نہیں کرسکتے۔
اگر ماضی کی مقتدرہ کے کارناموں پر سوال اٹھانے کی اجازت ہو تو جنرل مشرف کے غیر آئینی مارشل لا کا ساتھ دینے والے ججوں،سیاستدانوں اور صحافیوں کے بارے میں بھی کوئی عدالتی حکم آنا چاہیے، نئی صبح دیکھنی ہے تو مارشل لاؤں کا ساتھ دینے والوں کیلئےکم از کم کوئی حکم نامہ تو جاری ہونا چاہیے تاکہ مستقبل میں کوئی غیر آئینی اقدامات کی حمایت کرتے ہوئے سو بار سوچے….!
اسی طرح جنرل باجوہ کے زمانے میں عدالتوں کے ذریعے نواز شریف اور ن لیگ کے خلاف جو فیصلے کرائے گئے ان کا حساب بھی لیا جانا چاہیے، جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی کے حاضر سروس افسروں کو جس طرح استعمال کیا گیا اس کی بھی باز پرس ہونی چاہیے، جنرل باجوہ، جنرل فیض حمید اور ان کے حواریوں نے حکومت کے شتونگڑوں کی مدد سے جس طرح آزاد میڈیا کا گھیراؤ کیا اس کا بھی حساب ہونا چاہیے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جنرل پاشا، جنرل ظہیر الاسلام اور پھر جنرل فیض حمید کے زمانے میں جو جو کچھ ہوا اس نے سیاست ، صحافت، عدالت اور معاشرے کو تباہ کرکے رکھ دیا ، کاش آج کی مقتدرہ اور عدالت ان معاملات کا کچھ مداوا کردیں۔
اب جبکہ عدالت اور مقتدرہ دونوں ماضی کے کھاتے کھول رہی ہیں اور انہیں کسی نہ کسی طرح یہ احساس ہو رہا ہے کہ ماضی میں بہت کچھ غلط ہوا ہے تو انہیں اپنے حال کو بھی درست کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ کیونکہ آنے والے دور میںان کی پالیسیوں اور اقدامات پر بھی سوالات اور اعتراضات اٹھیں گے۔
اگر تو پاکستان میں واقعی نئی صبح کا آغاز کرنا ہے تو لڑائی،نفرت اور انتقام کے جذبوں کو دفن کرکے مفاہمت کو اپنانا ہوگا۔ جس طرح برصغیر کے مسلمانوں کے مختلف مکتب ہائے فکر نے مفاہمت سے مطالبہ پاکستان کی حمایت کی تھی اور قائد اعظم کی قیادت میں متحد ہوئے تھے ،اس کو مثال بنانا چاہیے ۔ اسی طرح آئین اور اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے وقت بھی سب سیاسی گروہوں نے اکٹھے ہو کر اتفاق کیا تھا ، دہشت گردی کے خلاف جنگ کے وقت بھی تمام سیاسی جماعتوں اور فوج نے متحد ہو کر حکمت عملی ترتیب دی تھی اور کامیاب ہوئے تھے، اب بھی مفاہمت کے اسی جذبے کی ضرورت ہے۔ سیاسی عمل میں تحریک انصاف کوبھی شامل کرنا چاہیے اور قومی مفاہمت کے عمل میں ایک دوسرے کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو معاف کرکے مستقبل کی طرف دیکھنا چاہیے۔ اگر ہم آپس میں دست گریباں رہے تو نہ سیاسی استحکام آئے گا اور نہ ہی معیشت کو دیریا استحکام ملےگا۔
جب تک سب فریق مفاہمت کا یہ رویہ نہیں اپناتے ہمارا نئی صبح دیکھنے اور پاکستان کو بدلنے کا خواب کبھی پورا نہیں ہوگا، یہ خواب تبھی شرمندہ تعبیر ہوگا جب ہم سیکورٹی اسٹیٹ سے فلاحی ریاست بنانے کاسفر شروع کریں گےاور ملک کوصرف اورصرف آئین اور قانون کے تحت چلانے کا عزم کریں گے…..
بشکریہ روزنامہ جنگ