اسلام آباد(صباح نیوز)وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میری دو خاندانوں سے ذاتی دشمنی نہیں،اپوزیشن لیڈرسے ہاتھ نہیں ملاتا، لیکن اگر قائد حزب اختلاف شہباز شریف سے ہاتھ ملا لیا تو اس کا مطلب ہے کہ کرپشن تسلیم کر لی۔
اکادمی ادبیات پاکستان میں ایوان اعزاز کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ مجھے کہتے ہیں اپوزیشن لیڈرسے ہاتھ نہیں ملاتا، اس سے ہاتھ ملانے کا مطلب اس کی کرپشن کوتسلیم کرنا ہے، انگلینڈ میں اگرکسی پرالزام لگ جائے تومجال ہے وہ شخص پارلیمنٹ میں گھس جائے، پاکستان میں ایسا تصورہی نہیں ، یہاں پر اربوں کی کرپشن کرتے ہیں اور اسمبلی میں تقریریں کرتے ہیں۔ مغرب کی پارلیمنٹ میں ہماری سینیٹ کی طرح تو پیسے نہیں چلتے؟ ان کا اخلاقیات کا معیار بہت بلند ہے، میں کرپشن کے خلاف لڑتا ہوں، کرپشن کی وجہ سے ہمارا مورال بری طرح نیچے گرا ہے، میری کسی سے ذاتی دشمنی نہیں، ان دوخاندانوں سے کوئی ذاتی لڑائی نہیں بلکہ ان سے دوستیاں ہوتی تھیں۔ جب قوم اچھے، برے کی تمیز ختم کر دے تو ختم ہوجاتی ہیں، جب برے کو برا نہ کہیں اسے تسلیم کرلیں مطلب زوال شروع ہوگیا۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اپنے مسلمانوں کا سنہری دور شروع ہوا تو البیرونی اور ابن بطوطہ جیسے دانشوروں کا بڑا مقام تھا اور وہ دنیا میں جہاں بھی جاتے تھے ان کی بہت قدرومنزلت کی جاتی تھی۔
انہوں نے کہا کہ جب کوئی تہذیب ترقی کرتی ہے تو اس کے رول ماڈل دانشور بن جاتے ہیں کیونکہ وہ قوم کی رہنمائی کرتے ہوئے ان کا قبلہ درست کرتے ہیں اور جب اسکالرز غلط راستے پر چلے جاتے ہیں تو تہذیبیں زوال پذیر ہو جاتی ہیں لہذا اگر دانشور درست رہنمائی کریں تو تہذیبیں زوال پذیر نہ ہوں لیکن اسکالرز بھی غلط راستے پر چلے جاتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دانشور قوم کے نظریے کا تحفظ کرتے ہیں، علامہ اقبال کے ساری دنیا میں مسلمانوں پر جو اثرات مرتب ہوئے وہ بے مثال تھے اور آج کے پاکستان میں دانشوروں کی بہت ضرورت ہے۔
عمران خان نے کہا کہ ہمارے ہاں لوگوں کو اسلام کی تاریخ کا ہی نہیں پتہ، لوگوں کو جنگیں یاد ہیں لیکن لوگوں کو پتہ ہی نہیں ہے کہ دنیا کی تاریخ میں اتنا بڑا انقلاب جنگوں کی وجہ سے نہیں آیا، اس انقلاب کی کوئی مثال نہیں ملتی۔
ان کا کہنا تھا نبی اکرمۖ کے دور میں 622 سے 632 ہجری تک 10سال کے دوران صرف 1400 لوگ جنگوں میں مرے تھے جس میں 600 مسلمان شہید ہوئے تھے اور وہ ڈیڑھ سو مربع میل پر پھیل چکے تھے تو اسلام تلوار سے نہیں آیا تھا بلکہ دراصل وہ فکری انقلاب تھا، لوگوں کے کردار بدل گئے تھے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنی نوجوان نسل کو اسلام کے اس فکری انقلاب کے بارے میں بتانا اب انتہائی ضروری ہے کیونکہ اب انہیں میڈیا اور سوشل میڈیا کی یلغار کا سامنا ہے، انسانی تاریخ میں بچوں اور نوجوان کے ساتھ کبھی ایسا نہ تھا، آج بچوں کو زیادہ تر معلوماتی اور مثبت مواد دستیاب ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہیں ایسے مواد کا بھی سامنا ہے جس کا انسانی تاریخ میں بچوں نے کبھی سامنا نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھاکہ اگر ہمیں نوجوانوں کو درست راہ پر رکھنا ہے تو اب دانشوروں کے ساتھ ساتھ فلم اور ٹی وی پروڈیوسرز کی بھی بہت زیادہ ذمے داری بنتی ہے، ہم میڈیا کو بند نہیں کر سکتے کیونکہ سوشل میڈیا حقیقت ہے۔وزیراعظم نے کہا کہ کبھی کبھار مجھے شکایت آتی ہے کہ یوٹیوب یا ٹک ٹاک پر کوئی ویڈیو نکل آئی ہے، ہم پی ٹی اے کو کہہ کر وہ بلاک کراتے ہیں تو اگلے دن کوئی اور مواد نکل آتا ہے، ہم اسے روک نہیں کر سکتے لیکن اپنے بچوں کی تربیت کر سکتے ہیں کہ اس طرح کے مواد سے انہیں کیسے نمٹنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے سب سے بڑا بحران یہ ہے کہ ہماری اخلاقیات بہت بری طرح نیچے گری ہے، نبی اکرمۖ کے انقلاب کی بنیاد ہی اخلاقیات تھی کہ اچھا کو سراہا جائے اور برائے کی مذمت کی جائے، جب ایک قوم اچھے برے کی تمیز ختم کردیتی ہے اور برائی کو تسلیم کر لیتی ہے تو وہ مر جاتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے سب سے بڑا بحران یہ ہے کہ ہماری اخلاقیات بہت بری طرح نیچے گری ہے، نبی اکرمۖ کے انقلاب کی بنیاد ہی اخلاقیات تھی کہ اچھا کو سراہا جائے اور برائے کی مذمت کی جائے، جب ایک قوم اچھے برے کی تمیز ختم کردیتی ہے اور برائی کو تسلیم کر لیتی ہے تو وہ مر جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں دو طرح کے چیلنجز درپیش ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ہم کرپشن کو تسلیم کر بیٹھے ہیں،اس لیے میں نے رحمت اللعالمین اتھارٹی بنائی۔عمران خان نے کہا کہ رحمت اللعالمین اتھارٹی بنانے مقصد یہ ہے کہ ہم بچوں کو رول ماڈل دے سکتے ہیں اور بچوں کا رول ماڈل وہ ہے جو دنیا کی تاریخ کے سب سے عظیم لیڈر ہیں، ہمیں بچوں کو بتانا چاہیے کہ دنیا کے عظیم ترین لیڈر میں ایسی کونسی خوبیاں تھیں کہ انہوں دو سپراوورز کے سامنے کھڑا کر کے دنیا کی امامت کرا دی۔انہوں نے کہا کہ اگر ہمیں اپنے معاشرے کی خلاف بہتر بنانی ہے تو ہمیں نبی اکرمۖ کی سیرت کے اوپر پروگرام کر کے بچوں کو متبادل پیغام دینا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس معاشرے کے لیے ایک فکری انقلاب چاہیے، ہمیں اخلاقیات چاہئیں، ہمارے لیے انتہائی شرمناک چیز ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ جنسی جرائم بڑھ رہے ہیں، تین سال پہلے زینب کیس ہوا تھا تو پورا ملک کھڑا ہو گیا تھا لیکن آج کل کہیں بچوں سے زیادتی تو کہیں عروتوں سے ریپ ہو رہا ہے لیکن کوئی ردعمل نہیں ہے، جس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بہت زیادہ بڑی تعداد میں رونما ہورہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارتی فلمیں 40سال میں بہت بدلی ہیں اور اس کے اثرات ان کے خاندانی نظام پر مرتب ہو رہے ہیں، دلی کو ریپ کیپیٹل کہا جاتا ہے اور اگر ہم وہی ثقافت اپنائیں گے تو اس کے اثرات مرتب ہوں گے لہذا یہ دانشور کا کام ہے وہ معاشرے کی رہنمائی کریں اور متبادل طرز زندگی کے بارے میں بتائیں۔
انہوں نے کہا کہ یہ حکومت دانشوروں اور مصنفوں کی مکمل حمایت اور مدد کرے گی اور میں آپ سے امید کرتا ہوں کہ آپ ہمارے معاشرے خصوصا نوجوانوں کی رہنما کریں گے۔