فیض آباد دھرنا کمیشن کی رپورٹ : تحریر مزمل سہروردی


فیض آباد دھرنا کمیشن کی تحقیقاتی رپورٹ چیف جسٹس پاکستان نے مسترد کر دی ہے۔ یہ کوئی خبر نہیں ہے کیونکہ حکومتی وزرا پہلے ہی یہ رپورٹ مسترد کر چکے ہیں۔

وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف اور احسن اقبال سمیت متعدد وزرا اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد اس کو مسترد کر چکے تھے لہذا عدالت سے بھی اس رپورٹ کو مسترد ہی ہونا چاہیے تھا، اس لیے مجھے اس میں کوئی خبر نظر نہیں آئی۔ شاید کمیشن کے ارکان کو بھی معلوم تھا کہ ان کی تیار کردہ رپورٹ مسترد ہوجائے گی کیونکہ اس میں اہم ترین نکات مسنگ ہیں، حکومت کو بھی اس رپورٹ کی حقیقت اور اس کا انجام معلوم تھا ۔ سب کو معلوم تھا کہ رپورٹ مسترد ہو جائے گی۔

جب سب کو علم تھا کہ یہ رپورٹ عدالت میں ایک منٹ کھڑی نہیںہو سکے گی تو پھر پیش کیوں کی گئی؟ حکومت نے خود اس رپورٹ کو مسترد کیوں نہیں کیا؟۔ میں سمجھتا ہوں جو کچھ ہوا، گیم پلان ہی یہ تھا تاکہ نئی تفتیش کے لیے ٹائم مل جائے۔ اب سوال یہ ہے کہ کب تک ٹائم لیا جاتا رہے گا؟ اس کا سادہ جواب ہے، جب تک چیف جسٹس اس کیس کی جان نہیں چھوڑ دیتے۔ یا جب تک وہ ریٹائر نہیں ہو جاتے۔ اب ایک اور سوال کہ کیا چیف جسٹس اس کیس کی جان چھوڑ دیں گے؟ مجھے نہیں لگتا۔ ابھی ان کی ریٹائرمنٹ میں چند ماہ باقی ہیں، شاید یہ دھرنا کیس میں تاخیری حربے استعمال کرنے والوں کو چند ماہ نکالنا اتنا آسان نہ ہو۔ لیکن ماضی میں ایسا ہوا بھی ہے کہ چند ماہ اس طرح نکال بھی لیے گئے ہیں۔

خود کو اسٹیبلشمنٹ مخالف کہلانے والے صاحبان دلیل دیتے ہیں، حاضر اسٹبلشمنٹ نے ماضی کی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ اختلافات کے باوجود ماضی کی اسٹیبلشمنٹ کے کرداروں کی اس حد تک حفاظت ضرور کی ہے کہ انھیں کوئی عدالتی سزا نہ ہوسکے۔

اس دلیل میں وزن ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے متنازعہ کردار قانون کے مطابق عدالت میں پیش ہوئے، مقدمات بھی چلے، جنرل پرویز مشرف کو سزا بھی ہوئی،لیکن کیا کبھی اعلی عدلیہ کے کسی جج پر کوئی مقدمہ درج ہوا؟ کیا کسی جج کو عدالت میں جوابدہی کے بلایا گیا؟ مجھے تو کوئی مثال نہیں ملتی۔ وہاں ریڈ لائن برقرار ہے۔

آپس کے ادارہ جاتی اختلافات اپنی جگہ لیکن یہ ممکن نہیں کہ اعلی عدلیہ کے کسی ریٹائرڈ جج کو ہی عدالت سے سزا ہونے دی جائے، حاضر سروس جج کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس تناظر میں میری رائے ہے کہ اس بار بھی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی بلکہ دھرناکمیشن کی ناکامی بھی سامنے ہے۔

ایک سوال یہ سامنے آیا ہے کہ فیض آباد دھرنا کمیشن نے ٹی ایل پی سے بات نہیں کی اور نہ کسی عہدیدار سے تفتیش کی۔ حالانکہ فیض آباد دھرنا کی کوئی بھی تحقیقات ٹی ایل پی سے تفتیش کے بغیرممکن نہیں ہے۔ان سے تفتیش ہونی چاہیے لیکن کیا وہ سچائی بتائیں گے؟ مجھے نہیں لگتا۔ کیاوہ یہ بتائیں گے کہ ان کے دھرنا کا ماسٹر مائنڈ کون تھا، دھرنا چلانے کے لیے مالی وسائل کے ذرایع کون سے تھے؟ نہیں ہر گز نہیں۔ آپ انھیں بلا لیں۔ کا جواب واضع ہے کہ ان کو کسی نے نہیں کہا تھا۔ دھرنا دینا وہ اپنا دینی فرض سمجھتے تھے۔ ا

ب معاہدے پر فوجی افسر کے دستخط کا سوال ہے۔اس کا سادہ جواب دیا جائے گا کہ انھیں حکومت پر اعتبار نہیں تھا، اس لیے فوج کو ضامن بنا نے کی شرط رکھی گئی جو حکومت اور فوج دونوں نے قبول کر لی۔ میں سمجھتا کہ اگر ٹی ایل پی کی موجودہ قیادت کو بلایا جائے گا تو ایسا نہیں ہوگا کہ وہ کسی سازش کو بے نقاب کر دیں گے۔

ٹی ایل پی کو 2024کے انتخابات میں وہ کامیابی نہیں ملی ہے جس کی انھیں توقع تھی۔ ان کی بھی یہی رائے کہ انھیں پارلیمنٹ میں پہنچنے سے روکا گیا ہے۔ ٹی ایل پی کے امیر سعد رضوی کی رائے کہ وہ اٹک سے جیت رہے تھے۔ انھیں اسٹیبلشمنٹ سے گلے بھی ہوںگے۔ لیکن وہ کسی کے خلاف وعدہ معاف گواہ کبھی نہیں بنیں گے۔

یہی سچ ہے۔ ٹی ایل پی نے عمران خان کی حکومت میں بھی دھرنا دینے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ناکام ہوگیا۔اس لیے مجھے کوئی امید نہیں کہ فیض آباد دھرنے کی تحقیقات میں سے کچھ برآمد ہوگا۔ جب کوئی گواہ ہی نہیں ہوگا، جب کوئی ثبوت ہی نہیں ہوگا۔ تو سزا کیسے ہوگی۔

جن ثبوتوں کی ضرورت ہے وہ ممکن نہیں، اسی لیے میں فیض آباد دھرنا کمیشن کو مٹی پا کمیشن اور سب کو بچا کمیشن ہی کہتا اور سمجھتا ہوں۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس