ایک نیک روح کی رحلت پر چند آنسو … تحریر : تنویر قیصر شاہد


نمازِ عصر کے فورا بعد سب لوگ جناز گاہ میں یکجا ہو گئے تھے ۔غروبِ آفتاب میں بھی شاید گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ رہ گیا تھا ۔ لوگوں کے اژدہام میں ان کا جسدِخاکی رکھا تھا ۔ جسدِ خاکی سفید براق کفن میں لپٹا پڑا تھا ۔ سفید کفن کے اوپر سبز رنگ کی چادر تھی جس پر مقدس کلمات لکھے گئے تھے ۔ جنازہ ہو چکا تھا ۔ اور اب اگلے مستقل گھر منتقلی کا سفر تیار تھا ۔

دل شکستہ عزیز واقارب ، دوست احباب اور دعا بہ لب مخلصین یوں سرگوشیوں میں باتیں کررہے تھے جیسے شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ۔ سب لوگ آخری دیدار کے لیے امنڈے پڑ رہے تھے ۔میں نے بھی خود کو بمشکل گھسیٹتے ہوئے آگے بڑھایا ۔کفن کو ذرا سا منہ سے ہٹا دیا گیا تھا ۔

رخصت ہونے والے کاچہرہ دیکھا تو دل نے شہادت دی کہ ایک نفسِ مطمئنہ اپنے رب کے پاس جا رہا ہے ۔ پھر بھی ٹوٹے دل کے ساتھ آنکھیں چھم چھم برس گئیں ۔ معا خیال آیا کہ وہ کہاں پیدا ہوئے تھے، کہاں مقدور بھر تعلیم حاصل کی، رزق کے حصول کے لیے کہاں کہاں قدم دیے اور اب وہ کہاں لحد کے سپرد کیے جا رہے ہیں؟ایسے میں جناب انور مسعود یاد آ گئے :

ملک عدم توں ننگے پینڈے آوندا ایس جہانے

بندہ اِک کفن دی خاطر کناں پینڈا کر دا اے

یہ ہمارے 80سالہ بزرگ ، حاجی مقبول احمد، تھے۔ان کی شبیہ مجھے ہمیشہ اپنے والد صاحب مرحوم کی یاد دلاتی تھی ۔ویسا ہی ناک نقشہ ، ویسا ہی لمبا قد،ویسا ہی اکہرا بدن ۔ چہرے پر ہمیشہ مسرتیں بکھیرے رخصت ہونے والے یہ نیک روح میرے چچا بھی تھے ۔ شفیق و کریم ۔ چنگے بھلے تھے کہ ایک روز سینے میں دباؤ اور درد کی شکائت کرنے لگے ۔ باجماعت نماز ادا کرکے گھر تشریف لاتے تو شکائت کرتے : یار سانس پھول گئی ہے ۔

رفتہ رفتہ یہ شکائت روز افزوں ہونے لگی تو محبت و احترام کرنے والے صاحبزادگان اسلام آباد کے جدید ترین ، نجی اسپتال لے گئے ۔ مختلف النوع ٹیسٹوں سے معلوم ہوا کہ ایک پھیپھڑے میں پانی در آیا ہے ۔ پانی نکالنا ضروری قرار پایا۔ اِس کے لیے چھوٹا سا آپریشن کیا گیا ۔ یہ آپریشن ہی پھیل کر آخری بلاوے کا سبب بن گیا ۔

یکم رمضان المبارک 2024 کو وہ اسپتال گئے تھے اور ستائیسویں کی مبارک شب ہم سب کو روتا کرلاتا چھوڑ کر ملکِ عدم روانہ ہو گئے ۔ بس27ایام میں ایک نہائت پاکیزہ اور محتاط زندگی اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔ احمد فراز یاد آئے :ہوا ہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم/ کہ تو نہیں تھاترے ساتھ ایک دنیا تھی !

اللہ کے ایک مقبول بندے حاجی مقبول احمد مرحوم و مغفور کو گزرے آج30 دن ہو چکے ہیں ۔ ابھی تک مگر یوں لگتا ہے جیسے وہ ابھی ابھی نماز ادا کرکے مسکراتے ہوئے مسجد سے ہمارے گھر تشریف لائیں گے اور اِدھر ادھر نظریں دوڑاتے ہوئے کہیں گے:بچے ابھی اسکول سے نہیں آئے؟ ان سے وابستہ لاتعداد یادیں یلغار کرتے ہوئے آرہی ہیں اور قلب و روح کو دلگیر اور افسردہ کر رہی ہیں۔ان کے اوصافِ حمیدہ ہی نے انھیں خاندان بھر میں ممتاز ترین اور منفرد ترین حیثیت دے رکھی تھی ۔ ہر فیملی ممبر ، دوست اور واقف کار گواہی دیتے ہیں کہ چغلی کرتے کبھی انھیں نہیں دیکھا سنا گیا ۔

ان کی زبان اور ہاتھ سے کسی شخص کا دل دکھا نہ کسی کو گزند پہنچا۔ کسی نے دل آزاری کی بات اگر کہہ دی ہے تو صبر کے ساتھ خاموشی اختیار کیے رکھی ۔ ان کی یہ خاموشی زیادتی کے مرتکب کو نادم کیے رکھتی ۔بزرگانِ دین اور خصوصا صوفیائے کرام کی دینی خدمات کا ذکر والہانہ اسلوب میں کرتے۔ یاد پڑتا ہے کہ جب کبھی وہ اور میرے والد صاحب اکٹھے بیٹھتے، اپنے مرشد پاک کی دل افروز باتوں کی داستانوں کو بخوشی دہراتے ۔انھیں اپنے والد گرامی اور میرے والد صاحب کی مانند اپنے مرشد سے بے حد انس تھا۔ اپنے مرشد خانے کا جاری کردہ ماہنامہ جریدہ بھی باقاعدہ ان کے زیر مطالعہ رہتا۔

دینِ اسلام سے محبت و رغبت کے اظہار میں مبالغہ نہیں کرتے تھے ۔ دراصل صبر اور خاموشی ہی ان کا تاعمر وظیفہ حیات رہا ۔اپنی اہلیہ محترمہ کے ساتھ حج کا فریضہ بھی ادا کیا اور خود کئی بار عمرے کیے۔ عبدالقادر جیلانی حضرت غوثِ اعظم اور مولانا روم کے مزاروں کی زیارات کے لیے بغداد اور قونیہ تک کا سفر شوق و الفت سے کیا ۔اِس سعادت کے حصول کے لیے ان کے چھوٹے صاحبزادے نے ان کا بھرپور ساتھ نبھایا۔ایں سعادت بزورِ بازو نیست، تانہ بخشد خدائے بخشندہ۔فارغ اوقات میں سیرت ِپاکۖ پر لکھی گئی کتابوں کا مسلسل مطالعہ ان کا وظیفہ حیات رہا ۔

کئی سال قبل جب معروف ادبی جریدے نقوش نے سیرتۖ پر کئی جلدیں شایع کیں تو مجھے بھی یہ ایمان افروز عظیم تحقیق پر مشتمل جلدیں خریدنے کی توفیق ملی۔ یاد آ رہا ہے کہ ایک مرتبہ جب موسمِ گرما کے دوران وہ ہمارے گاوں والے گھر تشریف لائے تو بیٹھک کے کارنس پر رکھی یہ جلدیں دیکھ کر بے حد خوش ہوئے ۔ وہ جب تک وہاں قیام پذیر رہے، یہ جلدیں مسلسل ان کے زیر مطالعہ رہیں۔ میں نے دیکھا کہ کئی اہم باتیں وہ اپنی ڈائری میں بھی نوٹ کرتے رہے۔ جب کبھی خاندانی اکٹھ ہوتا،وہ مجھ سمیت خاندان کے کئی افرادسے نقوش کی اِن حیرت انگیز جلدوں کا محبت و شوق سے ذکر فرماتے۔

نعتیہ مجالس میں ذوق و شوق سے شریک ہونا ان کی واحد انٹرٹینمنٹ تھی۔اپنے شہر ہی میں جہاں کہیں ایسی روح پرور مجلس منعقد ہوتی ، وہ جنوں کی حالت میں وہاں پہنچتے اور رات گئے گھر واپس آتے۔

نعتیہ کلام کے خاص مجموعے بھی ان کے سرہانے کے اوپر بنی شیلف پر سجے نظر آتے تھے ۔ جن دنوں ریڈیو پاکستان پر صبح کے اوقات میں اسلامی پروگرام نشر ہوتے تھے ، چچا جان ڈیوٹی پر جانے سے قبل ریڈیو پر یہ پروگرام کان لگا کر سنتے ۔ اِس ضمن میں ان کے پسندیدہ علمائے کرام میں سے مولانا شاہ بلیغ الدین سرِ فہرست تھے ۔ان گئے ایام میں حضرت مولانا شاہ بلیغ الدین کی ریڈیو پاکستان پر صبح کے وقت کی گئی اسلامی تاریخ پر مشتمل تقاریر کا بے حد شہرہ تھا۔مرحوم شاہ بلیغ الدین صاحب کو اللہ تعالی نے ابلاغ کا ایک خاص ملکہ عطا فرما رکھا تھا۔ ان کے بعد کسی دوسرے عالمِ دین کا آج تک ریڈیو پر ایسا چراغ روشن نہ ہو سکا۔

واقعہ یہ ہے کہ انھیں زندگی بھر نعت شریف اور صوفیانہ کلام پڑھنے اور یاد کرنے کا شغف بھی رہا ۔ جہاں کہیں دلکش اور دلکشا نعت نظر نواز ہوتی، اپنی ڈائری میں لکھ لیا کرتے تھے ۔

ان کی ڈائری میں لاتعداد صوفیانہ اشعار بھی محفوظ تھے ۔ زیادہ تر ازبر بھی تھے۔ جب کبھی فیملی میں کوئی چھوٹی موٹی تقریب ہوتی ، عزیز و اقارب کی فرمائش پر وہ ذہن میں محفوظ نعتیہ اشعار ایک خاص لے اور لحن کے ساتھ پڑھتے ۔ کلام خوانی سے قبل وہ بڑے صبر کے ساتھ خود کو سنبھالتے ،ہولے سے مسکراتے اور پھر وجد میں آکر الفاظ ان کی زبان پر جاری ہو جاتے۔ ان کی نعت گوئی مجلس میں نور افشانی کا باعث بن جاتی۔ اب بس بہار کی یادیں اور پھول کی خوشبو ہی باقی رہ گئی ہیں۔

روئے گل سیر نہ دیدم کہ بہار آخر شد

حیف در چشم زدن صحبتِ یار آخر شد

(ترجمہ: ابھی تو پھول کا جی بھر کے دیدار بھی نہ کرپائے تھے کہ موسمِ بہار ختم بھی ہو گیا۔ افسوس کہ پلک جھپکتے ہی صحبتِ یار ختم ہو گئی )

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس