یقین مانیں ملکی سیاست کے بارے میں کچھ نیا لکھنے کی گنجائش محدود سے محدود تر ہوچکی ہے۔ سیاسی موضوعات پر خود کو دہراتے ہوئے مجھ جیسے قلم گھسیٹ اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے فریقین میں سے کسی ایک کے ذہن پر چھائے تعصبات وغصے ہی کو بھڑکائے چلے جارہے ہیں۔ جن کلیدی وجوہات نے ہماری سیاست کو جامد کررکھا ہے ان کے بارے میں کھل کر لکھنے کی جرات میسر نہیں۔ وہ نصیب ہو بھی جائے تو خوف سے مفلوج ہوا ذہن حقائق کوقابل فہم زبان میں بیان کرنے کے قابل نہیں رہا۔
مجھ جیسے کاہل اور نکمے صحافیوں کے ساتھ پنجابی محاورے والاہتھ یہ بھی ہوگیا کہ حکمرانوں کی جانب سے جاہل وبے شعور ٹھہرائے پاکستانیوں کو مفسدانہ خیالات سے بچانے کے لیے پہلے ٹویٹر اور اب ایکس کہلاتے پلیٹ فارم کو بند کردیا گیا ہے۔ وطن عزیز کی تقریبا تین عدالتوں میں خود کو حقوق کاحامل شمار کرتے چند پاکستانی مذکورہ پلیٹ فارم کی بندش کے خلاف درخواستیں دے چکے ہیں۔ نوٹس پہ نوٹس اور تاریخ پہ تاریخ کے باوجود ایکس کے ساتھ غالب کے بیان کردہ ہے کہ نہیں ہے والا معاملہ برقرار ہے۔
ٹویٹر کی بندش سے اکتاکر ریگولر اور سوشل میڈیا کو سیاست سے ہٹ کر کچھ ایسے موضوعات کی تلاش کے لیے بھی ٹٹولنا پڑا جن پر لکھا جائے تو قارئین پڑھنے سے گریز نہ کریں۔ نئے موضوعات کی تلاش میں فیس بک کا جائزہ لیا تو وہاں ایک ڈرامائی سلسلے کے بارے میں توتکار سنائی دیتی بحث جاری تھی۔ موضوع اس بحث کا بھارت کے ایک فلم ساز اور ہدایت کار کا نیٹ فلیکس کے لیے تیار کردہ ڈرامائی سلسلہ ہے۔ نام اس سلسلے کا ہے ہیرامنڈی۔
سچی بات ہے یہ نام سن کر میں بھی چونک گیا۔ بارہ دروازوں والے پرانے لاہور کی گلیوں میں پیدا ہوکر جوان ہوا ہوں۔ کالج پہنچنے تک ہیرامنڈی کے بارے میں تجسس لاحق رہا۔ اس کی تسکین کے لیے آٹھویں جماعت پاس کرلینے کے بعد لاہور کے رنگ محل مشن ہائی سکول سے چند دوستوں کے ہمراہ اس محلے تک پیدل چل کر پہنچ جاتے۔ ہم جہاں سے اس بازار تک پہنچتے تھے وہاں نوگزہ کی خانقاہ ہے۔ وہاں تک پہنچتے ہی لیکن ہمارے قدم رک جاتے۔ خوف لاحق ہوجاتا کہ اگر کسی نے ہمیں دیکھ لیا۔ گھر والوں تک خبر پہنچ گئی تو سنبھال نہیں پائیں گے۔ خانقاہ پار کرتے ہی لہذا دائیں ہاتھ مڑ کر شاہی مسجد اور قلعہ کے درمیان واقع حضوری باغ چلے جاتے۔ ہم میں سے کوئی ایک بھی اپنی بزدلی کا لیکن اعتراف نہ کرتا۔ دوسروں ہی کو بکری ہوجانے کے طعنے دیتے۔ کالج پہنچنے تک سعادت حسن منٹو کے افسانوں نے اس بازار اور وہاں کے باسیوں کے بارے میں جو کچھ بھی لکھا اس نے ہیرا منڈی کی عورتوں کو ذلت واستحصال کی علامت بناکر ذہن میں بٹھادیا۔ نوگزے کا مزار پار کرکے دائیں ہاتھ مڑنے کے بجائے اب ٹیکسالی دروازے تک سیدھا چلے جانے کی ہمت بھی میسر ہوچکی تھی۔ ایسا مگر سورج کی روشنی ہی میں ہوتا اور دن کے وقت وہاں جو ماحول دیکھنے کو ملتا وہ تھکن اور اکتاہٹ سے جمائیاں لیتا محسوس ہوتا۔
ہیرا منڈی بنانے والے ہدایت کار نے مگر اس بازار کو قطعی مختلف نگاہ سے دیکھا اور پیش کیا ہے۔ فیس بک پر اس کے بنائے ڈرامائی سلسلے کی لیکن ایسے لوگ بھد اڑاتے پائے گئے جو عموما لبرل تصور ہوتے ہیں۔ میں سمجھنے سے قاصر رہا کہ ایسے لوگ ہیرا منڈی پر بنائے ڈرامے کے بارے میں چراغ پا کیوں ہیں؟ سرسری نگاہ نے خبر دی کہ لبرل خواتین وحضرات کو گلہ ہے کہ نیٹ فلیکس کے لیے بنائی ہیرا منڈی قیام پاکستان سے تقریبا 20سے 25سال قبل تک کے شہر لاہور کی حقیقی تصویر کشی میں ناکام رہی۔ فیس بک پر چھائی بحث کے باوجود میں ہیرامنڈی کو نیٹ فلیکس پر دیکھنے کو مائل نہ ہوا۔
گزشتہ ہفتے مگر نیویارک ٹائمز نے اپنے صفحہ اول پر مذکورہ ڈرامائی سلسلے کے بارے میں ایک طویل مضمون شائع کیا۔ اس کی بدولت علم ہوا کہ اس ڈرامے کا ہدایت کار بھارت کا مشہور فلم ساز وہدایت کار ہے۔ غالبا اس کے والدین جنوبی پنجاب کے کسی شہر سے بمبئی منتقل ہوئے تھے۔ اس کے والد کو فلم سازی کا جنون تھا۔ بہت سال کی محنت کے بعد اس نے مگر جو فلم بنائی وہ باکس آفس پر بری طرح ناکام ہوگئی۔ ناکامی سے دلبراشتہ ہوکر وہ کثرت شراب نوشی کا شکار ہوگیا۔ اس کی بیوی نے گھر کو سنبھالا اور بچوں کو پالا۔ اسی باعث ہیرامنڈی کے تخلیق کار نے جس کا نام سنجے ہے اپنے نام کا آخری حصہ -لیلا بھنسالی -اپنی ماں سے مستعار لیا ہے۔
نیو یارک ٹائمز ہی کی بدولت علم یہ بھی ہوا کہ پاکستان سنجے لیلا بھنسالی کے ذہن میں اس لیے بھی ہمیشہ بسارہتا ہے کیونکہ اس کے باپ نے مرنے سے چند گھنٹے قبل ہسپتال میں لیٹے ہوئے فرمائش کی کہ بازار سے وہ کیسٹ ڈھونڈ کر لایا جائے جس میں ریشماں کا گایا مقبولِ عام نغمہ ہائے اورباموجود ہو۔ سنجے بہت کاوش سے وہ کیسٹ ڈھونڈ کر لایا تو اس کا باپ کومے میں جاچکا تھا۔ اس کے باوجود والدہ کے اصرار پر اسے یہ گانا کیسٹ پلیئر پر چلانا پڑا۔ زندگی کے آخری سانس لیتے ہوئے ہائے اوربا سننے کی فرمائش نے سنجے کو قائل کردیا ہے کہ موسیقی کسی بھی فرد کی روح پر ناقابل بیان انداز میں اثرانداز ہوتی ہے۔ اسی باعث وہ اپنی فلموں کی کہانی کو موثرانداز سے آگے بڑھانے کے لئے اب خودہی موسیقی بھی ترتیب دیتا ہے۔
نیویارک ٹائمز میں شائع ہوا مضمون پڑھنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ ہفتے اور اتوار کی رات کھانے کے بعد نیٹ فلیکس کے ذریعے ہیرامنڈی کودیکھ ہی لیا جائے۔سچی بات ہے پہلی قسط دیکھتے ہوئے میرا ذہن بھی تلملانا شروع ہوگیا۔ سکول کے آخری سالوں میں سورج ڈھلتے ہی میں اپنے گھر سے روزانہ گرمیوں کے موسم میں مختلف گلیوں سے گزرتا ہوا نوگزے کی خانقاہ سے دائیں ہاتھ مڑ کر حضوری باغ ہواخوری کے لیے جاتا تھا۔ ہیرا منڈی کی گلیاں اور وہاں کے مکانات میرے ذہن میں نقش ہیں۔ میری آنکھ پر پٹی باندھ کر آپ نوگزے کی خانقاہ سے شاہی مسجد کی جانب بڑھیں تو میں اپنے قدموں اور رفتار سے آپ کو بتاسکتا ہوں کہ اب ہم کس مقام تک پہنچے ہیں۔ میرے دائیں یا بائیں ہاتھ کیا نظرآرہا ہوگا۔ سنجے لیلا کے لیے لانگ شاٹس کسی بھی صورت اس لاہور کے نہیں دکھاتے جو میں نے اپنے بچپن میں دیکھا اور میں یہ تسلیم کرنے سے قطعی منکر ہوں کہ 1960 کی دہائی میں اس بازار کا نقشہ 1920 سے 1940 کی دہائیوں کے مقابلے میں کاملا تبدیل ہوچکا ہوگا۔ قصہ مختصر سنجے لیلا نے جو ہیرا منڈی دکھائی ہے وہ کسی بھی صورت لاہور میں اس نام سے واقعہ محلے کی حقیقی نمائندگی نہیں کرتی۔
لاہور میں ہیرامنڈی کے نام سے قائم محلے کے بازار،گلیوں اور مکانات کی غیر حقیقی منظر کشی کے علاوہ سنجے لیلا کے بنائے ڈرامائی سلسلے کے کردار جو اردو بولتے ہیں وہ کسی بھی صورت لاہور کی نمائندہ نہیں۔ 1970 کے وسط تک اندرون لاہورفقط پنجابی ہی بولی جاتی تھی اور روزمرہ زندگی میں اس کا گھریلو ورژن بہت میٹھا،نفیس اور پراثر ہے۔وجہ اس کی یہ ہے کہ بارہ دروازوں والا شہر غزنی کے ایاز نے بسایا تھا جس کا مزار آج بھی لاہور کے سوہابازار کے باہر واقع ہے۔ ایاز کی وجہ سے افغانستان سے آئے تیراندازوں اور چابک سواروں نے اپنے محلے آباد کیے اور وہاں بولی پنجابی ا فغانستان میں مستعمل فارسی کے دری لہجے اور محاوروں کی عکاس بھی تھی۔
مذکورہ بالا وجوہات کی بناپر لاہور کی محبت میں مبتلا لبرل جائز بنیا دوں پر سنجے لیلا کو کڑی تنقید کا نشانہ بنارہے ہیں۔اس ڈرامے کی پہلی قسط میں غیر حقیقی ترجمانی کی بابت تلملانے کے با وجود میں نے اس ڈرامے کو لیکن آخری قسط تک دیکھا ہے۔ وجہ اس ڈرامے کی کہانی اور مرکزی کردار ہیں۔فلم یا ڈرامہ ڈاکومینٹری کی صنف سے قطعا مختلف ہے۔ کئی تاریخ دانوں نے مثال کے طورپر کافی تحقیق کے بعد شدت سے اصرار کیا ہے کہ انار کلی نام کا کوئی کردار موجود نہیں تھا۔ اس کے باوجود اس کردار کے حوالے سے کئی کامیاب وناکام ڈرامے اور فلمیں بنائی گئی ہیں۔ ایسی ہی فلموں میں مغل اعظم بھی شامل تھی۔ ہیرا منڈی کے ہدایت کار نے نیویارک ٹائمز سے گفتگو کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ اس فلم کو موصوف نے 100سے زیادہ بار سینماہاؤس میں جاکر دیکھا تھا۔ اس نے جو ڈرامہ بنایا وہ اس کے خیالوں میں بسی ہیرامنڈی کے بارے میں ہے۔ اسے لاہور کی تاریخ اور جغرافیے کے تناظر میں دیکھیں گے تو جماندرواور خاندانی لاہوریوں کو غصہ آئے گا۔ سنجے لیلا کی ہیرامنڈی کو محض ڈرامائی سلسلے کے طورپر دیکھنا چاہیے۔ ویسے ہی جیسے ہم شیکسپیئر کے وہ ڈرامے پڑھتے یا دیکھتے ہیں جن میں بیان کردہ بادشاہ حقیقی دنیا میں موجود نہیں تھے۔ شیکسپیئر نے لیکن انھیں ایجاد کرکے حقیقی اور امر بنادیا ہے۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت