کسانوں کی بلبلاہٹ کا مستقل مداوا : تحریر الطاف حسن قریشی


ہم ایک زمانےسے یہ کہاوت سنتے آئے ہیں کہ حکومت ماں کی طرح ہوتی ہے اور وُہ اَپنے شہریوں کی بچوں کی طرح دیکھ بھال کرتی ہے۔ اُسے جونہی یہ احساس ہوتا ہے کہ اُس کے بچوں کو کوئی گزند پہنچنے والی ہے یا پہنچ رہی ہے، تو وہ اَپنے پَر پھیلا کر اُن کی حفاظت کیلئے پہنچ جاتی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب حالات بڑی حد تک تبدیل ہو چکے ہیں اور حکومت نے سوتیلی ماں کا روپ دھار لیا ہے اور اُس کی ممتا سنگ دلی میں بدل گئی ہے۔ یوں تو ایک زمانے سے کاشت کاروں اور مزارعوں کے حالات سے حکومت چشم پوشی سے کام لیتی آئی ہے اور اُنہیں اپنی غیرمعمولی محنت کا صلہ افلاس اور بدحالی میں ملتا رہا ہے، مگر اِس بار ہماری نگران حکومت نے مافیاؤں کی مال بٹورنے کی لامحدود خواہش پوری کرنے میں تمام حدود پھلانگ ڈالیں اور صرف ایک اقدام سے بہت بڑا قومی بحران پیدا کر دیا جس کے باعث منتخب حکومتیں بےچارگی کی تصویر بنی ہوئی ہیں۔

آجکل دعوے تو یہ کیے جا رہے ہیں کہ حکومت کے معاملات میں بڑی شفافیت آ گئی ہے اور طاقتور سوشل میڈیا کی موجودگی میں کوئی شے پوشیدہ نہیں رہتی، مگر گزشتہ سال ستمبر اور اَکتوبر کے مہینوں میں ایک ایسی تباہ کُن واردات کی گئی جس کی عوامی سطح پر کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ کہا جا رہا ہے کہ نگران دورِ حکومت میں متعلقہ شعبے کی طرف سے یہ تخمینہ لگایا گیا کہ ملک میں گندم کی شدید قلت پیدا ہونے والی ہے جبکہ پاسکو کے گودام گندم کے ذخائر سے بھرے ہوئے تھے اور یہ خوش آئند خبریں بھی آ رہی تھیں کہ مختلف ذرائع سے کسانوں میں زیادہ سے زیادہ گندم اگانے کا جذبہ پیدا ہو گیا ہے اور اَگلے سال گیہوں پہلے سے کہیں زیادہ وافر مقدار میں پیدا ہو گی۔ اِن تمام حقائق کو نظرانداز کرتے ہوئے نگران حکومت کے ذمہ دار اَفسروں نے پرائیویٹ کمپنیوں کو غالباً آذربائیجان سے گندم درآمد کرنے کی اجازت دے دی اور بڑی رازداری سے ایک ارب ڈالر مالیت کی گندم درآمد کر لی گئی جس کے نتیجے میں تمام گودام پُر ہو گئے۔ منتخب حکومت نے گندم کے سرکاری نرخ 3900 روپے فی من مقرر کیے جو 2023ء میں بھی یہی تھے، جبکہ کسانوں کے اخراجات میں خاطرخواہ اِضافہ ہو چکا ہے، چنانچہ اُن کی طرف سے مطالبہ کیا گیا کہ سرکاری قیمتِ خرید میں اضافہ کیا جائے۔ اضافہ تو کیا ہوتا، اُن کے لیے بری خبر یہ آئی کہ حکومت کے پاس نئی گندم خریدنے کیلئے وسائل دستیاب ہیں نہ رکھنے کیلئے کوئی جگہ ہے۔ قدرتی طور پر کسانوں پر ایک قیامت ٹوٹ گئی، کیونکہ اگر حکومت خریدار نہیں ہو گی، تو گندم کے نرخ بہت نیچے آ جائیں گے اور آڑھتی ملی بھگت کے ذریعے کسانوں کو تازہ فصل 2000 روپے من پر فروخت کرنے پر مجبور کر دیں گے۔ اِس خونخوار ہوس ناکی کے نتائج بہت خطرناک ہوں گے۔ ایک طرف کسانوں کی معاشی حالت پہلے سے بھی کہیں بدتر ہو جائے گی جو معاشرے میں شدید بےچینی کا باعث بنے گی اور طبقاتی کشمکش بھی تیزتر ہو جائے گی۔ دوسرا بڑا نقصان یہ ہو گا کہ بددل کسان اگلے سال اجناس اگانے میں دلچسپی ہی نہیں لے گا جس کے قومی پیداوار پر شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

اِس وقت گندم کی خریداری کا مسئلہ پنجاب میں سنگین صورتِ حال اختیار کر گیا ہے۔ کسان برادری سراپا احتجاج ہے جبکہ نگران حکومت آنے والی منتخب حکومتوں پر ایک کاری وار کر کے رخصت ہو چکی ہے۔ پنجاب کی وزیرِاعلیٰ محترمہ مریم نواز معاملات کو سنبھالنے کے اعلانات تو کر رہی ہیں، لیکن اِس مسئلے کا مستقل حل تلاش کرنا چاہیے۔ قومی سطح پر ہمیں زراعت کے معاملات کو اوّلین ترجیحات میں شامل کرنا اور مالک اور مزارع کا ایک مستقل اور منصفانہ رشتہ طے کرنا ہو گا۔ ماضی میں زرعی اصلاحات ہوتی رہی ہیں، مگر جاگیرداریاں آج بھی قائم ہیں اور کاشت کار پہلے کی طرح خستہ حال دکھائی دیتے ہیں جو موسم کی سختیاں جھیلتے ہوئے رات دن فصلیں اگانے اور اُن کی دیکھ بھال میں لگا دیتے ہیں۔ بڑے بڑے جاگیرداروں کو فصل کی پیداوار بڑھانے میں کم ہی دلچسپی ہوتی ہے، کیونکہ اُنہیں بیٹھےبٹھائے اپنا وافر حصّہ مل جاتا ہے۔ مزارعین کو بٹائی کا جو حصّہ ملتا ہے، وہ ایک معیاری زندگی بسر کرنے کیلئے کافی نہیں ہوتا۔ اُن کی اولاد اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کر سکتی۔ دیہات میں اچھے تعلیمی اداروں کی بڑی قلت ہے۔ جناب شہبازشریف نے دانش اسکول قائم کر کے غریب بچوں کیلئے بھی معیاری تعلیم فراہم کرنے کا اچھا قدم اٹھایا تھا، مگر اِس کا دائرہ محدود ہی رہا۔ اِس پراجیکٹ پر غیرمعمولی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ دراصل ہمیں اپنی دیہی آبادی میں حقیقی معاشرتی انقلاب برپا کرنے کیلئے یہ اصول طے کرنا ہو گا کہ زمین کو کاشت کرنے والا اِس کا مالک ہو گا یا مالک کے مقابلے میں مزارع کا حصّہ تین گنا مقرر کیا جائے۔ آج پنجاب میں مقامی طور پر جو ایشو پیدا ہو رہا ہے، اُس کیلئے اِس امر کا پوراپورا اِہتمام کیا جائے کہ حکومت کسانوں سے گندم خریدے اور وَافر گندم برآمد کرنے کی منصوبہ بندی کرے۔ اگر تمام دماغ مل کر بیٹھیں گے،تو یقیناً راستے نکل آئیں گے۔

نہایت قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ ہم زراعت کو بڑی حد تک نظرانداز کرتے آئے ہیں۔ مَیں نے قیامِ پاکستان سے پہلے سر چھوٹو رام کو کاشت کاروں کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرتے دیکھا۔ اُنہوں نے وزیرِ زراعت پنجاب کی حیثیت سے ایسے قانون منظور کروائے جن کی رو سے زرعی شعبے کو بڑا تحفظ ملا۔ مشرقی پنجاب میں چھوٹے چھوٹے مسلمان زمیندار تھے جو بنیوں کے مقروض رہتے اور اُن کی زمینیں قرق ہو جاتیں۔ سر چھوٹورام نے یہ تمام راستے بند کر دیے اور زراعت کو ایک مراعات یافتہ شعبہ بنا دیا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد مَیں نے وزیرِ زراعت ملک خدا بخش بُچہ کو زراعت کی ترقی کیلئےتن دہی سے کام کرتے دیکھا۔ اُنہی کی کوششوں سے پاکستان میں سبز انقلاب آیا تھا۔ جنرل ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں Peasant Commission (چھوٹے کاشت کاروں کا کمیشن) قائم ہوا، جس نے قابلِ قدر خدمات سرانجام دیں۔ آج ہماری زرعی یونیورسٹیاں اور تحقیقی ادارے ویران دکھائی دیتے ہیں جبکہ فوڈ سیکورٹی دنیا کا بڑا مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ