حافظ نعیم، اردگان نہ عمران : تحریر نوید چوہدری


ایم کیو ایم کے عروج کے دوران کراچی میں اپنے موقف پر ڈٹ کر کھلی سیاست کرنا بہت بہادری کی بات ہے۔ پی ٹی آئی کی مقبولیت کی لہر کے دوران اسی شہر کے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ جماعت اسلامی میں آج بھی پورا دم خم ہے۔ اسی لیے حافظ نعیم کو ملک گیر شہرت حاصل ہوئی اور اب وہ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر بن چکے ہیں۔ ان سے بہت سی توقعات وابستہ کر لی گئی ہیں۔ ایک بڑے دانشور خورشید ندیم نے لکھا ہے کہ حافظ نعیم کی صورت میں پاکستان کو بھی ایک طیب اردگان میسر آسکتا ہے۔واضح رہے کہ ترکی کے تاریخ ساز سربراہ طیب اردگان نے بھی اپنی سیاست کا آغاز بلدیاتی الیکشن سے کیا تھا۔ وہ استنبول کے میئر رہے۔ غیر معمولی کارکردگی کے سبب آج نہ صرف ترکی کے اعلی ترین منصب پر فائز ہیں بلکہ ان کا شمار بااثر عالمی لیڈروں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ پاکستان اور ترکی کے زمینی حقائق میں کچھ مماثلت بھی ہے پھر بھی یہاں حالات قدرے مختلف ہیں۔ جماعت اسلامی کی امار ت سے بزرگ سید منور حسن کی فراغت کے بعد سراج الحق امیر بنے تو ان سے بھی بہت توقعات وابستہ کی گئیں لیکن پوری نہ ہو سکیں۔ سراج الحق کی طرح ہی نسبتا جوان حافظ نعیم نے تقریب حلف برداری کے موقع پر شعلہ بیانی کی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ بہت جلد پوری جماعت سمیت سڑکوں پر ہوں گے اور احتجاجی سیاست میں بہت دور تک جائیں گے۔ اس کے چند روز بعد انہوں نے ایک حیران کن بیان بھی دیا کہ پی ٹی آئی کی اچھی خاصی چلتی حکومت کو گرا کر ملک میں بحران پیدا کیا گیا۔ اس کے ذمہ داروں کا احتساب ہونا چاہیے۔ بالکل یہی مقف خود پی ٹی آئی کا بھی ہے۔ جبکہ اسٹیبلشمنٹ اور دوسری سیاسی جماعتیں اس بات پر متفق ہیں عمران خان کی حکومت ملک کو معاشی، سفارتی اور سیاسی حوالے سے اس نہج پر لے آئی تھی کہ اگر اسے ہٹایا نہ جاتا تو وطن عزیز کسی بڑے حادثے سے دوچار ہوسکتا تھا۔ بعد میں یہ ثابت بھی ہوا کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ تڑوا نے کی کوششیں کی گئیں کبھی پاکستان پر پابندیاں لگوانے کے لیے بین الاقومی سطح پر لابنگ کی گئی۔ تاریخ میں پہلی بار اسرائیل کی حکومت چیخ اٹھی کہ پاکستان میں پی ٹی آئی کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ حافظ نعیم کو یہ سب نظر نہیں آیا۔ ذرا تصور کریں پراجیکٹ عمران کے تسلسل میں جنرل فیض آرمی چیف بن جاتے تو فسطائیت کا خوفناک دور شروع ہوجاتا۔حافظ صاحب سے پہلے والے امیر جماعت سراج الحق بھی پی ٹی آئی کے لیے نرم گوشہ رکھتے تھے لیکن کبھی کبھار اسکے خلاف بیان بھی دے دیا کرتے تھے۔ ایک وقت تھا کہ سراج الحق پانامہ کیس کی درخواست لے کر سپریم کورٹ پہنچ گئے بعد میں عمران خان نے اعتراف کیا کہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے درخواست دائر کرنے کے لیے کہا تھا (یعنی فیصلہ بھی پہلے ہی تیار تھا) مولانا فضل الرحمن راوی ہیں انہوں نے ایک ملاقات میں سراج الحق کو ٹوکا کہ اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر چل کر سیاستدانوں کے خلاف درخواستیں دینا مناسب نہیں۔ بہر حال جماعت اسلامی کی اپنی سیاست ہے۔ عام تاثر ہے کہ کراچی کے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی ہی سنگل لارجسٹ پارٹی بن کر سامنے آئی تھی۔ پیپلز پارٹی نے اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے نتائج میں ردوبدل کیا اور جماعت اسلامی جگہ خود اکثریتی پارٹی بن گئی۔ ایسا نہ ہوتا تو حافظ نعیم ہی میئر کراچی ہوتے اور یقینی طور پر شہر کے اساطیری شہرت والے میئر کے طور پر خود کو منوانے والے نعمت اللہ کی طرح یا ان سے بھی بڑھ کر کام کرتے۔ بلدیاتی تنازع پر جماعت اسلامی کا پیپلز پارٹی سے ناراض ہونا فطری بات تھی۔ لیکن عام سوجھ بوجھ رکھنے والے بھی اس وقت حیران رہ گئے جب حافظ نعیم کو جماعت کے چند اور ذمہ داروں کے ساتھ زمان پارک میں عمران خان سے ملاقات کرتے ہوئے دیکھا۔ اس سے پہلے تازہ تازہ نو مئی ہوچکا تھا۔ یہ اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارنے کے مترادف تھا۔ حافظ نعیم میئر کراچی تو نہ بن سکے لیکن امیر جماعت اسلامی پاکستان بن گئے۔ دو روز قبل ان کے ساتھ رات کے کھانے پر تفصیلی نشست ہوئی۔ محسوس ہوا کہ امارت کا بوجھ اپنے کندھوں پر آنے کے بعد اب وہ غیر جذباتی ہوکر بتدریج ایک واضح پروگرام کے تحت آگے بڑھنا چاہ رہے ہیں۔ یہ طے کیا جاچکا جماعت اسلامی کسی سیاسی اتحاد میں شامل نہیں۔حالیہ عام انتخابات میں دھاندلی کے خلاف آواز بلند کی جائے گی لیکن قانون کے دائرے میں رہ کر کیے جانے والے احتجاج کا فوکس عوامی مسائل ہوں گے۔ اس نشست میں شریک پی ٹی آئی کے ہمدردوں کے لیے حافظ نعیم کا یہ مقف کسی دھچکے سے کم نہیں تھا۔ حافظ نعیم کو یقین ہے کہ عام انتخابات میں پی ٹی آئی نے سب کا صفایا کردیا ہے لیکن اسے اقتدار سے باہر رکھ کر انتقام کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ویسے انہیں اپنے اس تجزئیے پر ازسر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت نہ صرف برقرار ہے بلکہ بڑھی ہے۔ ن لیگ کو اپنی سستی، غفلت اور اسٹیبلشمنٹ پر اندھا دھند اعتماد کرنے سے جھٹکا ضرور لگا ہے لیکن اسکی سیاست ختم نہیں ہوئی۔ ایسا صرف اسی صورت ممکن ہے جب مرکز میں شہباز اور پنجاب میں مریم حکومت ہر شعبے میں ناکام ہو جائیں اور نواز شریف پارٹی کی تنظیم سے مکمل لاتعلقی اختیار کرلیں۔ ظاہر ہے ایسا نہیں ہوگا۔ اسی طرح جے یو آئی اپنی سٹریٹ پاور کے ساتھ میدان میں موجود ہے۔ مولانا فضل الرحمن کو خطے خصوصا افغانستان کی صورتحال کے تناظر میں وقتی طور پر سائیڈ لائن ضرور کیا گیا ہے لیکن انہیں یکسر غیر متعلق نہیں بنایا جاسکتا۔ وہ سسٹم کے لیے کسی بھی وقت مشکلات کھڑی کرسکتے ہیں۔یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ پی ٹی آئی کو مختلف صورتوں میں محفوظ رکھنا مقتدرہ کی اپنی ضرورت بھی ہے۔ امید ہے حافظ نعیم کو اس حوالے سے بھی جلد ادراک ہوجائے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملک کے تمام ادارے ناکام ہوچکے ہیں۔ آئین پر عمل درآمد کرنے کے سوا اور کوئی راستہ نہیں۔ حافظ نعیم پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات کے حامی ہیں۔ چین، افغانستان اور ایران کی موجودگی میں بھارت سے دوستی کی باتوں پر ناخوش نظر آئے۔ لیکن امر واقعہ ہے کہ بھارت کے ساتھ بھی آگے بڑھنا ہوگا اور اس موقع پرامریکہ کو بھی ناراض نہیں کیا جاسکتا۔ جماعت اسلامی کو بطور سیاسی پارٹی سفارتی نزاکتوں کا باریک بینی سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ماضی میں قاضی حسین احمد مرحوم کی اسٹیبلشمنٹ کے ایما پر مہم جوئی علاقائی امن اور خطے کی خوشحالی اور بھارت سے تعلقات کے حوالے سے ملک کو بہت بھاری پڑی تھی۔ حافظ نعیم کے خیالات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ طے ہے کہ جماعت اسلامی اب اپنی سیاست خود کرے گی۔ جو حلقے یہ سمجھ رہے تھے کہ حافظ نعیم، عمران خان کی طرح دھرنوں، دنگوں سے افراتفری کو بڑھاوا دیں گے وہ جان لیں ایسا کچھ نہیں ہونے والا۔ جب احباب کا خیال ہے کہ جماعت اسلامی کے نئے امیر کی صورت میں پاکستان کو بھی ایک طیب اردگان مل گیا ہے وہ بھی اپنی رائے پر دوبارہ غور کریں کیونکہ جماعت اسلامی کو ملک گیر سطح پر عوام کو متحرک کرنے میں بہت وقت لگے گا۔

بشکریہ روزنامہ نئی بات