فٹ پاتھ بھی غصب کرلیے گئے : تحریر محمود شام


دل درد سے بھر گیا ہے۔

میرے سامنے پاکستان کے 76 سال بکھرے ہوئے ہیں۔ ہم اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ نعمتیں۔ کتنے رقبے کتنے انسان ضائع کر رہے ہیں۔

دو شعری مجموعوں کی خالق سحر علی نے آرٹس کونسل ڈسٹرکٹ سینٹرل میں ’غزہ‘ کے مقتل پر ایک شعری نشست کا اہتمام کیا۔ ہم اخباری بوڑھوں، بزرگ شاعروں کی ترکیب استعمال اب صدارت ہی رہ گئی ہے۔ موضوع بہت حساس، اس لیے جانا ضروری ہو گیا۔ پھر یہیں مشفق خواجہ ٹرسٹ لائبریری بھی ہے۔ یہاں ’روبرو‘۔ ’انجام بخیر‘۔ ’الجھی زلفیں‘۔ ’شب بخیر‘ بھی عطیہ کرنا تھیں۔ اس عمارت میں داخل ہوئے تو اس کی وسعتوں نے ہماری سوچوں کو آغوش میں لے لیا۔ کئی ایکڑ کو محیط کئی عمارتیں مگر سناٹا، موسم بہت سہانا، یہاں بیک وقت کئی ہزار انسانوں کیلئے تفریح طبع کا اہتمام ہو سکتا ہے۔ ورکشاپ ہو سکتی ہیں۔ میرپور خاص میں بھی مرکز ثقافت ایسا ہی وسیع و عریض دیکھا تھا سندھ ہی نہیں دوسرے صوبوں میں بھی ایسے مراکز اس وقت کے افسروں نے بڑے خلوص سے تعمیر کروائے۔ لیکن علم و تہذیب کے یہ گلشن ہماری آمد کو ترستے رہتے ہیں۔

ہر شہر کی اپنی صدیاں ہیں، اپنی تہذیب اپنا تمدن، اپنے ہیرو، اپنے ایدھی،اپنے ادیب رضوی، اپنے ڈاکٹر باری، اپنے عبدالقدیر خان، اپنی رتھ فاؤ، ان خواتین و حضرات کے خلوص اور عمل سے ہی یہ شہر پھل پھول رہے ہیں۔ کاش ہر شہر کو کوئی امر جلیل مل جائے، مستنصر حسین تارڑ جلوہ گر ہو ، کوئی عطاء الحق قاسمی میسر آجائے، کوئی مجاہد منصوری تو ان کی افادیت اور صلاحیت واضح ہو۔ ہر شہر میں اہل قلم ہیں، اسکالرز ہیں، پروفیسرز ہیں، وہ ریٹائرڈ جنرل، بریگیڈیئر، ایڈمرل، سیکرٹری ہیں۔ جو دوسرے ملکوں میں جاکر پنشن وصول نہیں کر رہے ہیں۔ میڈیا نے چند سو سیاستدانوں کو پاکستان کے افق پر ایسا غالب کردیا ہے کہ پوری قوم کے بارے میں ہی ہمارا تاثر منفی ہو گیا ہے۔ ہم شہروں کو ان ارکان اسمبلی کے حوالے سے پہچاننے لگے ہیں۔ حالانکہ شہر والے انہیں اپنا حقیقی نمائندہ نہیں سمجھتے۔ شہروں کے ادبی، علمی اور ثقافتی حلقوں کے درمیان ایک رابطہ ہونا چاہئے۔ ہمارے ہاں سیاستدانوں نے بلدیاتی نظام کو بھی پورے اختیارات اور خلوص سے چلنے نہیں دیا۔ ورنہ اس سطح کی نمائندگی بھی شہروں کی خوبیاں اُجاگر کرتی ہے۔ امریکہ میں ہر سال ’سٹی لیڈز کنونشن‘ ہوتے ہیں۔ میئرز کی کانفرنسیں ہوتی ہیں۔ ہمارے بڑے شہر چھوٹے شہروں کے فنڈز ہڑپ کرجاتے ہیں۔ صرف صدر جنرل پرویز مشرف کے دَور میں وفاق نے شہروں کو فنڈز براہ راست دیئے تو کچھ پیش رفت ہوئی۔

بلدیاتی انتخابات بھی جمہوریوں کے دَور میں سپریم کورٹ کرواتی رہی۔ اب چیف جسٹس پاکستان نے شہروں سے تجاوزات ختم کرنے کیلئے کچھ مہلت مقرر کی ہے۔ سیاستدان ہوں، مقتدرہ، رینجرز، پولیس، سب کو تجاوزات کی عادت گھٹی میں ملتی ہے۔ یہ بھی غور کیجئے کہ ہمارے ہاں جتنے اعلیٰ منصبی ہیں۔ انہیں عدم تحفظ کا احساس کچھ زیادہ ہی رہتا ہے۔ ہماری اکثریت پیدل چلتی ہے۔ لیکن شہروں سے فٹ پاتھ غائب ہوتے گئے ہیں۔ اب سپریم کورٹ نے خاص طور پر فٹ پاتھ بحال کروانے کا حکم دیا ہے۔ 27ستمبر2020 ءکو میں نے انہی کالموں میں فریاد کی تھی ’’میرے فٹ پاتھ واپس کرو۔‘‘ ایک درد مند پاکستانی آصف انصاری جو پاکستان ٹیلی وژن میں سینئر پروڈیوسر رہے ہیں۔ اعلیٰ عدالتوں اور متعلقہ محکموں کو اپنی اپیل کے ساتھ اس کی نقول ارسال کیں۔ فٹ پاتھ ہر شہر کی پہچان اور رگیں ہوتے ہیں۔ فیس بک پر میں نے یہ بھی سوال کیا کہ فٹ پاتھ کا اُردو متبادل کیا ہو سکتا ہے۔ قدم راہ، قدم گزار یا قدم رو۔ زیادہ قبولیت ’قدم رو‘ کو ملی ہے۔ بہت سوں کا اصرار یہ ہے کہ فٹ پاتھ عام فہم ہے۔ اس کے متبادل کی ضرورت کیا ہے۔ میں تو اپنے ساتھ قارئین کو لے کر چلنے کا عادی ہوں۔ جاننا چاہا کہ پاکستان کے شہروں میں پیدل چلنے والوں کیلئے سہولت ہے یا نہیں، بہاولنگر سے بہرام علی، جام پور سے آفتاب نواز مستوئی، کراچی سے اشرف مدراس والا، خالد شیخ، اصغر علی، علی بیگ، شاہ ولی اللہ، مشتاق کھرادی، انشرح احمد، اعظم منہاس، طاہر سلطانی، پرویز صلاح الدین خان، شبانہ کریم، ڈاکٹر جاوید منظر، مختار احمد بٹ، فہیم شناس، جمیل احمد، شاہانہ جاوید، حاجی محمد سہیل خان، راؤ جاوید اقبال، اظفر شمیم، جہاں آراء لطفی، رکّوانور، آصف انصاری، عابد حسین، بنت اظہار، شکیل شیخ، صالحہ عزیز، ام حبیبہ، جاوید خان، انور جاوید ہاشمی، یاسمین یاس، احمد مسعود خان ۔حیدر آباد سے خلیل جبار، زیب سندھی، حسن شیخ۔ جھنگ سے اقبال حسن زبیری۔ فیصل آباد سے عامر مہتاب۔ بونیر سے اعجاز سائر۔ ٹانک سے منصور الہدیٰ۔ پنوں عاقل سے شہاب الدین محمد، صحافی شاہنوار ۔ شکار پور سے ظفر علی۔ چکوال سے یسریٰ پری۔ نواب شاہ۔ قاضی احمد۔ سکرنڈ۔ فہیم شناس ۔ دادو سے غلام سرور کیئرو۔ باجوڑ سے ضیاء الدین۔ لاہور سے سلیم شہاب، محمد اسحاق، صائمہ کاردار۔ لودھراں سے رمضان خالد۔ اسلام آباد سے رانا عبدالباقی۔ ڈیرہ اللہ یار سے نظام جتوئی۔ میرپور خاص سے حسنات حسرت۔ میرپور آزاد کشمیر سے جویریہ یاسمین۔ملتان سے غلام مہدی۔ لاہور سے بھی ممتاز کارٹونسٹ میکسم۔ ان سب خواتین و حضرات کا جواب نفی میں ہے۔ ملتان سے غلام مصطفیٰ۔ کراچی سے حنا طارق کا کہنا ہے کہ فٹ پاتھ ہیں۔ راولپنڈی سے محمد خرم شبیر بھی ہاں کہتے ہیں۔ جھنگ سے نجم الحسن لکھتے ہیں کہ ہماری گاؤں کی پگڈنڈیاں ہی ہمارے فٹ پاتھ ہیں۔

مجھے اپنے صحافتی فرائض کی انجام دہی کیلئے اکثر غیر ملکوں میں جانا ہوا ہے تو شہر کی نفسیات سے آگاہی کیلئے فٹ پاتھ سے ضرور راہ و رسم بڑھائی ہے۔ بہت سی نظمیں غزلیں نازل ہوئی ہیں۔ واشنگٹن، نیو یارک، سنسناٹی، بوسٹن، شکاگو، برسلز، جنیوا، زیورچ، بیجنگ، شنگھائی۔ ہینان، بینکاک، رنگون، نوم پنہ، وینتیاں، لندن، مانچسٹر، گلاسگو، دبئی، قطر، ٹورنٹو، ملٹن، اوٹاوہ، دہلی، جالندھر، ممبئی، حیدر آباد دکن۔ سب جگہ پیدل چلنے سے تازگی ملی ہے۔

تجاوزات اور غصب۔ ہماری تاریخ میں تہذیب و تمدن کو کچلتے آرہے ہیں۔ میں تو ہر شہر کو ایک دنیا سمجھتا ہوں۔ شہر چھوٹے ہوں یا بڑے یہ کسی بھی کشور حسین کے ماتھے کا جھومر ہوتے ہیں۔ہر شہر میں مقیم صاحب دل سے میری گزارش تو یہی ہے کہ اپنے شہر کے وسائل کو اپنا قیمتی اثاثہ سمجھیں۔ اس شہر کیلئے آواز بلند کرنا آپ پر اس شہر کا حق بنتا ہے۔ ہر شہرملک کی معیشت کو تقویت پہنچاتا ہے۔ بلدیاتی اداروں کا ایک کنسورشیم ہونا چاہئے۔ یہ مملکت بڑی زرخیز ہے۔ امکانات بیکراں ہیں ان شہروں میں اتنے وسائل ہیں کہ یہ اپنے بیٹوں کو روزگار دے سکتے ہیں۔ شہریت اور مدنیت کی تعلیم ضروری ہے۔ اب تو سوشل میڈیا نے رابطوں میں آسانیاں اور تیز رفتاری فراہم کردی ہے۔ اب ہر شہر کے درد مندوں کا دوسرے شہروں کے دردمندوں سے میل جول سہل ہوگیا ہے۔ اپنے شہر سے محبت کریں۔ اس کی شان میں نظم و نثر میں کچھ لکھیں۔

یہ مرا شہر میری دنیا ہے

میری چاہت مری تمنّا ہے

اس کی گلیاں تو میری محسن ہیں

کوئی مشکل ہو یہ معاون ہیں

بشکریہ روزنامہ جنگ