آجکل تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کا بہت شور ہے۔ حکمران جماعت کے کچھ ذمے داران کو بھی مذاکرات کا بخار چڑھا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ انھوں نے بھی مسلسل رٹ لگائی ہوئی ہے کہ تحریک انصاف سے مذاکرات ہونے چاہیے۔ ایک کاروباری شخصیت نے بھی وزیر اعظم کو مشورہ دیا کہ اڈیالہ جیل کے قیدی سے مذاکرات ہونے چاہیے۔
تحریک انصاف کے رہنماں کی جانب سے بھی ہمیں مذاکرات کے گیت سنائی دینے لگے۔ لیکن یہ گیت کافی بے سرے تھے۔ ایک دھن میں کہا گیا کہ مذاکرات صرف اور صرف اسٹبلشمنٹ سے ہو ں گے۔ یہاں تک کہا گیا کہ مذاکرات صرف اور صرف اور صرف آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی سے ہوں گے۔
ایک دھن سننے کو ملی کہ مذاکرات سیاسی اکائیوں سے ہوں گے لیکن پہلے مینڈیٹ واپس کیا جائے۔ پھر دھن بجی کہ پہلے قیدیوں کو رہا کیا جائے۔ پھر دھن بجی کہ پہلے اڈیالہ کے قیدی کو رہا کیا جائے، پھر مذاکرات ہوں گے۔ اب خبر یہ ہے کہ اتنی بے سری دھنوں کے بعد اڈیالہ کے قیدی نے سب دھنیں بجانے پر پابندی لگا دی ہے اور کہا ہے کہ ان کی منظوری کے بغیر کوئی دھن نہیں بجائی جائے گی۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف سے مذاکرات ہو رہے ہیں؟ کیا تحریک انصاف سے مذاکرات ممکن ہیں؟ میں سمجھتا ہوں جب مذاکرات کی بات کریں تو ہمیں جیل سے باہر تحریک انصاف اور جیل میں قید بانی تحریک انصاف کو الگ الگ دیکھنا ہوگا۔ ہمیں پارلیمان میں موجود سنی اتحاد کونسل یا تحریک انصاف اور بانی تحریک انصاف کو الگ دیکھنا ہوگا۔
میں سمجھتا ہوں کہ پارلیمان میں موجود تحریک انصاف سے ملک کی سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی شکل میں رابطے میں ہے۔ ان سے بات بھی ہو جاتی ہے۔ اسی طرح پارلیمان میں موجود تحریک انصاف عرف سنی اتحاد کونسل سے ملک کی اسٹبلشمنٹ بھی رابطے میں ہے۔ اور دونوں نے مل کر چلنے کی کوئی راہ نکالی ہوئی ہے۔
یہ مذاکرات اور رابطے انفرادی ہیں۔ جس سے جب بات چیت کی ضرورت ہوتی ہو جاتی ہے۔ اور جس سے جس قسم کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے، حاصل کر لیا جاتا ہے۔ عمر ایوب اسد قیصر اور بیرسٹر گوہرسے سب رابطے میں ہیں۔ شیر افضل مروت سے بھی رابطے ہیں۔ کوئی بھی رابطے سے باہر نہیں ہے۔اسی طرح کے پی حکومت کے وزیر اعلی کا بھی سب سے رابطہ ہے۔ اسٹبلشمنٹ اور ان کے درمیان رابطہ ہے اور تعاون بھی ہے۔
رمضان میں کور ہیڈ کواٹر میں تحریک انصاف کی ساری کابینہ کور کمانڈر کے ساتھ افطاری کر رہی تھی۔ تعاون اور رابطوں کی اس سے بہترین شکل کیا ہو سکتی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی بھی وزیر اعلی کے پی گنڈا پور کو ملے ۔ دونوں کی بغل گیرہوتے فوٹو بھی آئی۔ وزیر اعلی وزیر اعظم کے ضروری اجلاسوں میں بھی شریک ہوتے ہیں۔
وزیر اعظم کے ساتھ تصاویر بھی آتی ہیں۔ وزیر اعلی کے پی ایس آئی ایف سی کا کوئی اجلاس مس نہیں کرتے۔ چونکہ اس اجلاس میں عسکری قیادت بھی موجود ہوتی ہے۔اور وزیر اعلی کے پی عسکری قیادت سے ملنے کا کوئی موقع ضایع نہیں کرتے۔ یہ تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ ملک میں تحریک انصاف کا کسی بھی سطح پر کوئی بائیکاٹ نہیں چل رہا۔ پی ٹی آئی کا سب سے رابطہ ہے۔ باقی میڈیا میں جو ماحول ہے، وہ سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے۔
یہ درست ہے کہ اس وقت عمران خان سے اسٹبلشمنٹ کا نہ تو کوئی رابطہ ہے اور نہ ہی کوئی بات چیت ہو رہی ہے۔ شاید بانی تحریک انصاف کو ایک غصہ یہ بھی ہے کہ ان کے لوگوں سے بات ہو رہی ہے، ان سے بات نہیں ہو رہی ہے۔ اسی لیے وہ اکثر اسٹبلشمنٹ پر غصہ نکالتے نظر بھی آتے ہیں۔ کے پی حکومت کی کور ہیڈ کواٹر کی افطاری کے بعد انھوں نے غیر ضروری طور پر سخت باتیں کیں۔ شاید وہ سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف کے جو لوگ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے ساتھ رابطے میںہیں،وہ ان رابطوں کو سبو تاژ کرسکتے ہیں۔
وہ یہ باور کراتے ہیں جب تک ان سے بات نہیں ہوگی ،کسی اور سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ اب سوال یہ ہے کہ اسٹبلشمنٹ کیوں اڈیالہ کے قیدی سے بات کرے؟ ایسی کیا ضرورت ہے جو اڈیالہ کے قیدی سے بات کیے بغیر پوری نہیں ہو سکتی۔عام انتخابات ہو گئے ہیں۔ نتائج عالمی سطح پر قبول کر لیے گئے ہیں۔ پارلیمان اور حکومتوں نے کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ پارلیمان نے کام شروع کر دیا ہے۔ اس کے لیے پارلیمان میں رابطوں سے کام چلایا جا رہا ہے۔
اس کا ریموٹ بٹن اڈیالہ میں نہیں ہے۔ اب اسٹیبلشمنٹ کو ایسی کیا ضرورت ہے جس کے لیے بانی تحریک انصاف سے بات چیت ضروری ہے۔ بات چیت ضرورت کے اصول پر ہوتی ہے۔ مذاکرات یک طرفہ نہیں ہوتے۔ بانی تحریک انصاف عام انتخابات سے پہلے کوئی بات چیت کرتے تو ممکن تھی۔ عام انتخابات نامی آگ کا دریا اسٹبلشمنٹ نے عبور کر لیا ہے۔
ایسا احتجاج بھی نہیں ہو رہا ۔ پھر کیوں بات ہوگی اور کیا بات ہوگی۔ اسٹبلشمنٹ ایسا کیا دے سکتی ہے جس سے عمران خان خوش ہو جائیں۔ اقتدار ابھی دیا نہیں جا سکتا۔ رہائی بھی مشکل ہے۔ پھر بات چیت کیا ہوگی۔ آج بانی تحریک انصاف رہا ہو جائیں تو وہ پشاور چلے جائیں گے اور وہاں کی حکومت کو کھل کر مرکز اور اسٹبلشمنٹ کے خلاف استعمال کریں گے۔ اس کا کون رسک لے سکتا ہے۔
اس طرح تو گنڈا پورکے لیے بھی مسائل پیدا ہو جائیں گے۔ وہ بھی ایسی رہائی نہیں چاہیں گے۔ بانی تحریک انصاف اس وقت اسٹبلشمنٹ کے کسی کام کے نہیں ہیں۔ابھی اسٹبلشمنت اور حکومت کا ہنی مون چل رہا ہے۔ ابھی خلع کا وقت بھی نہیں آیا۔ اس لیے فی الحال کسی بات چیت کا کوئی امکان نہیں۔ سیاسی جماعتوں کو بھی اس وقت بات چیت کا کوئی فائدہ نہیں۔
مذاکرات ضرورت کے تحت کیے جاتے ہیں ضرورت طاقتور کی اہم ہوتی ہے۔ کمزور نے تو موقع سے فائدہ اٹھانا ہوتا ہے۔ سیاسی جماعتیں اسٹبلشمنٹ کی ضرورت کو اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتی ہیں، اسے ہی مذاکرات کہا جاتا ہے۔ فی الحال طاقتورنے آگ کا دریا عبور کر لیا ہے۔لہذا اب اسے مذاکرات کی ضرورت نہیں۔ یہ بات سمجھیں اور انتظار کریں۔
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس