دہشت گردی کا سیدھا سادہ مطلب ہے بے گناہ لوگوں کو قتل کرکے خوف و ہراس پھیلانا ۔ اس تعریف کو صحیح مان کر اگر غور کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سب سے بڑا دہشت گرد خود امریکہ ہے کیونکہ امریکہ جس نے جاپان پر ایٹم بم گرا کر بربریت کا مظاہرہ کیا اور جو ویت نام ، فلسطین اور دنیا کے دیگر خطوں میں لاکھوں انسانوں کی ہلاکتوں کا موجب بنا۔
دہشت گرد اسرائیل ہے جو فلسطینیوں پر بے تحاشا ظلم ڈھارہا ہے۔ دہشت گروں کی صف میں بھارت نمایاں نظر آتا ہے جو کشمیری مسلمانوں پر مظالم ڈھاکر جبروتشدد کی بھیانک اور سیاہ تاریخ رقم کررہا ہے ۔ لیکن طرفہ تماشہ یہ ہے کہ دنیا کے ان بڑے دہشت گردوں کو کوئی بھی دہشت گرد قرار نہیں دیتا ۔ ان میں ہر کوئی نہ صرف اپنی جگہ پارسا بنا ہوا ہے بلکہ وہ اپنے آپ کو مہذب دنیا کا قائد بھی قرار دے رہاہے ۔
ستم ظریفی دیکھئے کہ دہشت گردوں کے سب سے بڑے سرپرست امریکہ نےکئی دیگر دہشت گردوں کے ساتھ مل کر دنیا سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے افغانستان پر حملہ کیا، عراق کو تاراج کیا اور لیبیا پر چڑھائی کردی ۔دوسری طرف انتہائی ننگے طریقے سے ریاستی سطح پر دہشت گردی کرنے والے اسرائیل پر ڈالروں کی بارش کررہا ہے اور اسے جدید ہتھیار فراہم کررہا ہے۔ لیکن افسوس کہ اس نے جو طریقہ اختیار کیا ہے اس سے مطلوبہ نتائج کا حصول تو کیا ممکن ہو، مزید دہشت گردوں کے پیدا ہونے کا قوی امکان ہے ۔
جہاں تک حماس، حزب اللہ عرب ممالک میں موجود چھوٹی بڑی اسلامی انتہا پسند تنظیموں کا تعلق ہے تو ان کا تجزیہ کرنے سے بھی واضح ہوتا ہے کہ اگرچہ ان تنظیموں کو براہ راست امریکہ نے سپورٹ نہیں کیا لیکن درحقیقت ان لوگوں کو توانائی امریکی پالیسیوں نے ہی بخشی ہے ۔ مثلاً اگر امریکہ اسرائیل کی سرپرستی نہ کرتا تو وہ فلسطینیوں پر یہ مظالم کیوں ڈھاتا اور اگر وہ مظالم نہ ڈھاتا تو فلسطینی اور دیگر عرب مسلمان کیوں انتہا پسند اور امریکہ کے دشمن بنتے ؟ مصر میں اگر امریکی جمال ناصر اور اسی طرح کے دیگر ڈکٹیٹروں کی سرپرستی کرکے ان سے اسلام پسندوں کو نہ پٹواتا تو وہ کیوں کر امریکہ کی دشمنی میں انتہاتک جاتے ؟ گویا دنیا کے ہر خطے میں جہاں بھی بقول امریکہ دہشت گرد ی پائی جاتی ہے،ماضی میں جھانکنے سے یہ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ کسی نہ کسی صورت میں اس کا ذمہ دار امریکہ ہے ۔
امریکہ کی ان پالیسیوں کی وجہ سے گزشتہ تین چار دہائیوں میں دنیا کے کئی خطوں میں لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کے چراغ گل ہوئے ۔ ہزاروں لاکھوں مکان اجڑ گئے ۔ زرخیز زمینیں صحراؤں میں بدل گئیں ۔ لیکن خود امریکی محفوظ رہے ۔ ویت نام کی جنگ کے بعد امریکیوں کو براہ راست کوئی زک نہیں پہنچی ۔وہ دوسروں کا تماشہ دیکھتے رہے اور پاکستانی جاگیرداروں کی طرح دنیا کی غریب اقوام کواپنے مزارع سمجھ کر چھوٹے چھوٹے مقاصد کے لئے ان کو آپس میں لڑاتے رہے اور جس وقت جس کے بارے میں بھی محسوس کیا کہ وہ خود امریکہ کو آنکھیں دکھانے لگا ہے تو امریکی عراق کی طرح لاؤ لشکر کے ساتھ آکر اپنے کسی شہری یا سپاہی کو مروائے بغیر ان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتے ۔
اس صورتحال میں امریکہ سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ اپنی پالیسیوں پہ نظرثانی کرکے دہشت گردی کی نرسریوں کو بندکردے گا لیکن گیارہ ستمبر کو جب خود یہ آگ امریکہ تک پہنچ گئی اور جس میں نہ صرف ا اس کے ہزاروں شہری جھلس گئے بلکہ اس کا غرور بھی بڑی حد تک خاک میں مل گیا تو یہ توقع کی جارہی تھی کہ شاید اب امریکہ دنیا کی چھوٹی قوموں کو لڑاکر دہشت گردوں کی پیداوار کا سلسلہ بند کردے گا ۔ لیکن افسوس صد افسوس اب بھی وہ اپنے رویے پر نظرثانی کے لئے آمادہ نظر نہیں آتا ۔
وہ اب بھی اپنی طاقت کو ہر چیز کا علاج سمجھ رہا ہے اوراب بھی وہ اسرائیل کے ہاتھوں غزہ کے مظلوم فلسطینیوں کی نہ صرف نسل کشی دیکھ رہا ہے بلکہ اس میں بھرپور حصہ دار بن رہا ہے ۔ اسلحہ امریکہ کا ہے ، پیسہ امریکہ کا ہے ، ہتھیار امریکی ہیں اور اسرائیلی انہیں استعمال کرکے فلسطینیوں کی نسل کشی کررہے ہیں ۔صرف یہ نہیں بلکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اگر اسرائیل کے ہاتھ روکنے کے لئے کوئی قرارداد آتی ہے تو امریکہ اسے ویٹو کردیتا ہے ۔ گویا وہ برملا چاہتا ہے کہ فلسطینیوں کی یہ نسل کشی جاری رہے ۔ لیکن ڈھٹائی دیکھ لیں کہ اس سب کچھ کے باوجود امریکہ آج بھی انسانی حقوق اور انسانی آزادیوں کا چیمپئن بنا ہوا ہے اور کبھی ایک تو کبھی دوسرے ملک پر انگلی اٹھاتا رہتا ہے ۔
بشکریہ روزنامہ جنگ