تنویر جہاں اور درویش میں تعلق در بارہ اعلان ِبازار چھتیس برس سے تجاوز کر گیا۔ اب رائے، خیال اور زاویہ نظر میں فاصلہ اس قدر بڑھ گیا ہے جو ستلج کے مقام پر پنجاب کے پانچ دریاؤں کے پاٹ کے برابر ہوتا ہے۔ ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک حد نظر جواب دے جاتی ہے مگر دریا تو وہی ہیں اور یہ کہ گزشتہ زمینوں پر ہوائے اولیں شام کے بہاؤ کا تعلق بھی باقی رہتا ہے۔ 21 اپریل کی شام تعلق کی ڈور صحرائے خشک کے منطقے سے گزر رہی تھی۔ کچھ برا بھلا کہنے کو بالائی منزل پر آئی تھیں مگر دیکھا کہ عینک ناک کی پھننگ تک اتر آئی ہے اور نمک آلودہ آنسو رخساروں پر پھیل رہے ہیں۔ اپنی بات ایک طرف رکھ کے حال دریافت کیا۔ جانتی ہیں کہ درویش نے دماغ کافر، دل رواداراور آنکھ کربلائی پائی ہے۔ عرض کی کہ بھائی حیدر تقی نہیں رہے۔ نامعلوم انہیں کیا کہنا تھا اور اگر کچھ کہا بھی ہوتا تو جواب میں ’ترکش ما‘ میں خدنگ نمک آلود قطار اندر قطار پرے جمائے رکھے تھے۔ خبر مگر ایسی تھی کہ خاموشی سے واپس چلی گئیں۔ دکھ تعلق کی آخری حد ہوتا ہے۔ آج جو یہ کالم لکھنے بیٹھا ہوں تو داغ دہلوی یاد آتے ہیں۔ داغ وارفتہ کو ہم رات ترے کوچے سے / اس طرح کھینچ کے لائے ہیں کہ جی جانتا ہے۔ داغ سے کوئی ایک صدی پہلے میر نے کہا تھا۔ ’’گلی میں اس کی گیا، سو گیا نہ بولا پھر / میں میرؔ میرؔ کر اس کو بہت پکار رہا‘‘۔ سونے والے ماندگان رفتگاں کی پکار سے کہیں لوٹتے ہیں۔’’ جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں‘‘۔ اب قرار پایا کہ روزنامچے کا دفتر سیاہ کرنے کی جو مہلت باقی ہے، حیدر بھائی کے دست شفقت سے محرومی ہی میں تمام کرنا ہو گی۔ جن بادلوں کو ہوائے بے مہر اڑا لے گئی، وہ کہیں لوٹتے ہیں۔ فراق کی دھوپ کا جو ٹکڑا لمحہ عمر پہ اترتا ہے، اس سے نجات کی گھڑی کسے نصیب ہوئی ہے۔ تو اس بے طناب خیمہ لمحے میں جو وقت باقی بچا ہے اس سے مکالمہ تو کرنا ہو گا۔
اکتوبر 2021ءکے دن تھے۔ خطہ خلیج کے ایک مرد مردود کی فریب کاری کے جال میں الجھ کر بندہ درویش اسلام آباد میں تھا۔ اتفاق سے یہ وہی دن تھے جب دندان آز نے دندان آزار کا روپ اختیار کر لیاتھا۔ عجیب دن تھے اور ایسے عجیب دن ہماری تاریخ میں ہر گام پر پیش پا رہے ہیں۔ میاں نواز شریف2017ءمیںمعزول ہو گئے تھے۔عمران خان وزارت عظمیٰ کے منصب پر رونق دے رہے تھے۔ اخبار کا کالم اگر صاحبان اختیار میں نامہ بری کا ذریعہ نہ ہو تو دام شاخ میں خنجر قاتل کی آزمائش ٹھہرتا ہے۔ جنہیں مرتبہ حضوری حاصل نہ ہو، ان کیلئے ہر حرف گردن زدنی اور ہر لفظ دار و رسن کی آزمائش ٹھہرتا ہے۔ 2021ءکے اس موسم خزاں میں درویش نے ایک کالم لکھا۔ عنوان کیا تھا ’’درویش کے دانت سویلین ہو گئے ہیں‘‘۔ متن میں کہیں پردہ حجاب میں یہ بھی بتا دیا کہ درویش کے دانت دباؤ برداشت نہیں کر رہے۔ اس لکھے پہ چار برس گزر گئے۔ اصحاب دباؤ تاریخ کے منجدھار میں آ گئے۔ کچھ رخصت ہوئے، باقی منہ چھپاتے پھرتے ہیں۔ لکھنے والا بری الذمہ ہے۔ مرور ایام میں یہ صدمہ البتہ گزرا کہ اکتوبر 2021ءمیں جو دانت سویلین ہوئے تھے، وہ اپریل 2024 ءآتے آتے نمائشی ہو گئے۔ اپنے دانت کیسے ہی کمزور کیوں نہ ہوں، نان و لحم سے لطف کشید کرتے ہیں۔ کل ملا کے چار برس ہی تو گزرے ہیں۔ دباؤ میں ٹیس دیتے دندان خال خال صدمہ فراق دے گئے۔ اب نمائشی دانتوں کی ایک مالا لب و دنداں کے حجرہ ہائے تاریک میں رکھی ہے۔ اسے تاریخ کا استعارہ ہی سمجھئے کیونکہ اگر مغل شہنشاہ اکبر کا رتن ابوالفضل فیضی حقائق کی تاب نہیں لا پاتا تو کم مایہ بیربل کی حکایت گوشِ اختیار پر کیا قیامت ڈھاتی۔ بیربل تو غریب بھاٹ تھا، ترکی النسل بیرم خان نے بھی کل ملا کے یہی کہا تھا کہ تخت طاؤس کے یمین ویسار میں نشستہ دو بندگان کار میں حیلہ ہائے بندوبست کا اختلاف ہے۔ دبیر الملک لمحہ وقت کی نزاکت پر آنکھ رکھے ہے اور طریق حیلہ جو سے کام نکالنا چاہتا ہے۔ بندگان عالی کے دوسری طرف بیٹھا مشیر الملک پیش قبض سے ہاتھ نہیں اٹھاتا اور دراصل کمپنی بہادر کے طویل المدتی مفاد پر پہرہ دے رہا ہے۔ لمحہ موجود میں درپیش یہ بنیادی تضاد ممالک محروسہ پر طویل مدتی قبضے کا سوال ہے۔ پیش آمد بحران اور پیش آمدہ منصوبہ سازی میں تضاد ہے۔ روزنامہ جنگ کا ابوالفضل فیضی اپنے بیان میں ٹھوکر کھا گیا اگرچہ ایسی ٹھوکر بھی نہیں کھائی۔ وہ غریب استاد ابن استاد جدلیات کا تضاد ہی تو بیان کر رہا تھا۔ اس میں مشکل یہ ہے کہ درویش کے دانت چار برس پہلے محض سویلین ہوئے تھے یعنی دباؤ برداشت کرنے سے قاصر تھے، اب محض نمائشی موتیوں کی مالا جڑی ہے۔ دباؤ تو دور کی بات ہے، خوش ذائقہ نوالہ نرم بھی کام و دہن پر بار ہو رہا ہے۔ سیاسی لغت میں بحران شدید ہو گیا ہے۔ گزشتہ کل میں دباؤ سہنا مشکل تھا۔ نمائشی دانتوں کے ساتھ تو لقمہ تر پر دندان آز کی نمائش بھی مشکل ہو رہی ہے۔ 2018ءمیں چھوٹنے والی مہتابی 2021ءمیں بندوبست دیوانی کی اندر سبھا پر تمام ہوئی۔ فروری 2024ءکی نوٹنکی میں نمائشی دانتوں کے سہارے جمائی سرگم کیسے سامان گوش و بصر کر سکے گی۔ آئی ایم ایف کا ایک ارب ڈالر منجدھار سے باہر تو لے آئے گا لیکن پتن کے پار نہیں پہنچا سکتا۔ سیاہ بخت سویلین تکلیف میں ہے۔ تین برس پہلے اسکے دانت دباؤ برداشت کرنے سے قاصر تھے۔ اب تو سندر بن کی قدآدم گھاس میں رفیق حسین کے افسانے ’ہر فرعون را موسیٰ‘ کے غریب کلوا پاسی کے مانند دیوہیکل درندے کے پیروں تلے کچلا جا چکا ہے۔ تماشائی کے دانت دباؤ برداشت کرنے سے انکار کر چکے البتہ پارلیمان کے ایوانوں میں نمائش کیلئے بلاٹکٹ رکھے ہیں۔ ’’و ہ دیکھنا چاہے پردیسی، پاس آئے دیکھے جی بھر کر‘‘۔ ان چار برس میں فرق محض یہ ہے کہ گزشتہ دانت حقیقی تھے اور دباؤقبول کرنے سے منکر تھے۔ اب کٹے پھٹے ہونٹوں کے پردے میں نمائشی دانت رکھے ہیں۔ دباؤ برداشت کرنا تو ایک طرف، ’’نورِ دیدہ اش روشن کْنَد چشمِ زلیخا را‘‘ کا سامان ہیں۔
بشکریہ روزنامہ جنگ