جس معاشرے میں مزدور کا ’’پسینہ خشک‘‘ ہونے سے پہلے روزی تو درکنار روزگار چھن جائے، موت کے بعد بھی اس کے جائز اور قانونی حقوق نہ ملیں، اوقات کار تو دور کی بات حاکموں کے نزدیک کوئی اوقات ہی نہ ہو اور ان ناانصافیوں کے خلاف مزاحمت کی دو آوازیں بھی نہ اٹھیں، وہ بیمار معاشرہ کہلاتا ہے اور یہ بیماری اب یہاں کینسر کی شکل اختیار کر گئی ہے۔ ہاں ایک وقت تھا جب ایسی تحریکیں بھی چلتی تھیں اور توانا آوازیں بھی ہوتی تھیں۔ مرزا ابراہیم، حبیب جالب، نثار عثمانی، منہاج برنا اور عاصمہ جہانگیر جیسے لوگ مزاحمت کی علامت تھے۔ محض ان کا نام استعمال کرنا ہی کافی نہیں، ان جیسا کام کرنا اصل مشن ہے۔
دوستو، آج ’’یوم مئی‘‘ کا دن مزاحمت کی علامت ہے، حقوق کیلئے جان کی بھی پروا نہ کرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کا دن، ایک وقت تھا جب خود ہمارے ملک میں مزدور تحریک بہت منظم بھی تھی اور مضبوط بھی، پھر حکمران طبقہ اور مالکان کی ملی بھگت سے مزدوروں کی کمر توڑ دی گئی، آمرانہ دور کی پابندیاں سویلین ادوار میں بھی برقرار رکھی گئیں۔ دوسری طرف نام نہاد مزدور رہنما بھی مزدوروں کے سوداگر بن گئے، جس سے مزاحمتی تحریکوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔ آج کے دن آپ کو حکمرانوں اور سیاستدانوں کے منافقت سے بھرے پیغامات پڑھنے اور سننےکو ملیں گے، مگر یہ یقین کرلیں کہ یہ مزدور دشمن ہیں، ان کو اندازہ ہی نہیں کہ اس مزدور اور کسان پر آج کیا گزر رہی ہے، جو کبھی اچھے دور کا خواب دیکھتا تھا، لڑتا تھا حقوق کیلئے، کراچی سے لے کر خیبر تک مزدور کسی بھی سیاست مزاحمتی تحریک کے فرنٹ لائن سولجر ہوا کرتے تھے۔ آج لاکھوں مزدور بیروزگار ہو چکے ہیں اور مزید ہونے جا رہے ہیں، نام نہاد نجکاری کے نام پر۔ جس مزدور کو وقت پر تنخواہ نہیں ملتی، اسی پر سب سے پہلے تلوار چلتی ہے۔ یہ باتیں نہ جذباتی ہیں اور نہ ہی شاعرانہ، آپ کے سامنے بس چند حقائق بیان کردیتا ہوں، شاید بات سمجھنے میں آسانی ہو۔
آپ کو پتا ہے نہ کہ اس وقت سرکاری طور پر کم از کم تنخواہ حکومت نے 32ہزار مقرر کی ہوئی ہے۔ اس وقت 85فیصد سے زیادہ ملازمین کو یہ نہیں مل رہی، یہ بات کسی اور نے نہیں خود سندھ کے محکمہ محنت کے ایک سینئر افسر نے اعتراف کرتے ہوئے بتائی۔ ’’جی ایسا ہی ہے، میرا خود تعلق اس شعبہ سے ہے جو کم سے کم اجرت کے فیصلے پر عملدرآمد کیلئے بنایا گیا ہے۔‘‘ یاد رہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد یہ وزارت بھی اب صوبوں کے پاس ہے۔ ایک وقت تھا جب کم از کم لیبر پالیسی آیا کرتی تھی۔ اس وقت لیبر کورٹ کا یہ حال ہے، جہاں مزدور مر جاتا ہے، حق نہیں ملتا، غلطی سے فیصلہ حق میں آ بھی جائے تو یا تو برسوں ہائی کورٹ، سپریم کورٹ کا چکر کاٹے یا نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
یہ وہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے آہستہ آہستہ مزدور تحریکیں دم توڑتی چلی گئیں اور چونکہ مزدور، طالب علم کسی بھی مزاحمتی تحریک کی جان ہوا کرتے تھے، ان پر پابندیوں کی وجہ سے یونین کلچر ہی ختم ہو گیا، لہٰذا مزاحمت، مفاہمت میں بدل گئی اور حقوق مانگنے والوں نے سودے بازی شروع کر دی۔ مگر شاید نظریاتی طور پر اتنا مضبوط نہ ہونے کے باوجود بنا لیڈر نئی نسل نے دنیا بھر میں مزاحمت کو ایک نئی سمت دی ہے۔ آج کا نوجوان اپنے فیصلے خود کر رہا ہے جو آوازیں آج سے پچاس سال پہلے لاطینی امریکہ کے ممالک میں بائیں بازو کی تحریکوں میں نظر آتی تھیں وہ کبھی مصر میں Arab Spring کے مظالم کے خلاف، کولمبیا یونیورسٹی سے ایک سو کے قریب طلبہ نے ان مظالم کے خلاف آواز اٹھائی تو اسے جبر سے روکنے کی کوشش کی گئی اور میرا ہمیشہ سے یہ ماننا ہے کہ ظلم و جبر وقتی ہوتے ہیں کیونکہ ہر رات کے بعد نئی صبح کو طلوع ہونا ہی ہوتا ہے۔ آج ان آوازوں کے ساتھ 60 کے قریب جامعات کے پانچ لاکھ طلبہ و طالبات جڑ گئے ہیں، ان کا کوئی لیڈر نہیں ہے، بس وہ صرف یہ چاہتے ہیں یہ ظلم و بربریت ختم ہو۔ مگر ہم نے کیا، کیا جو کچھ چند دن پہلے لاہور میں ہوا، وہ انتہائی افسوسناک اس لیے بھی تھا کیونکہ وہ واقعہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں ہوا۔ اس وقت جرمنی غزہ کے مسئلے پر کس کے ساتھ کھڑا ہے، جرمن سفیر کو بلانے کا مقصد کیا تھا، معذرت کے ساتھ ’’شٹ اپ کال‘‘ نوجوانوں کو نہیں سفیر کو ملنی چاہیے تھی، ان کو کوئی حق نہیں تھا کہ نوجوان کو باہر نکالنے کا۔ میں نے پہلے بھی کہا نہ کہ محض عاصمہ جہانگیر یا نثار عثمانی کا نام استعمال کرنے اور ان جیسا ہونے میں فرق ہے۔ اس واقعہ نے برسوں پہلے ’’فیض میلہ‘‘ کے ایک واقعہ کی یاد تازہ کر دی۔ یہ جنرل ضیاء الحق کا دور تھا۔ وہ ضیاء جس کے ہاتھ فلسطینیوں کے خون سے بھی رنگے ہوئے تھے، اس وقت ظلم کی علامت اور اسکے درباری صرف سیاست دان نہیں بلکہ اہل قلم بھی تھے۔ ضیاء نے اہل قلم کانفرنس کے نام پر دانشوروں، شاعروں، ادیبوں اور صحافیوں کا ایک دربار سجایا۔ ان ہی میں سے ایک نامور شاعر نے اس میں شرکت کی اور پھر وہ ’’فیض میلہ‘‘ میں بھی پہنچ گئے۔ یہ ہماری جوانی کا دور تھا، فیض کے کلام ’’ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘، اقبال بانو کی آواز پر وہ ہال میں نعرہ زن تھے۔ معاشرے میں ایسے لوگ کیسے قابل ِ برداشت تھے جو کبھی ضیاء کے قصیدے پڑھیں تو کبھی فیض کو یاد کرنے پہنچ جائیں۔ ہم نوجوانوں نے جن میں ہمارے ساتھی احمد شاہ، وسعت اللہ خان، جاوید صبا، عقیل عباس جعفری، احمد نوید، غلام قادری اور کئی دوسرے شامل تھے، نے نشست نام سے تنظیم بنائی ہوئی تھی۔ ہم نے ان موصوف کو نہیں پڑھنے دیا۔ ہم سے کہا گیا، آپ لوگ خاموش رہیں یا چلے جائیں۔ ہمارا جواب تھا، ہم نہیں، یہ جائیں گے۔ فیض کسی کی ذاتی ملکیت نہیں۔
ضیاء کی آمریت ختم ہوئی تو امید تھی ایک بہتر دور کی مگر اس کے ادوار کے تمام اینٹی عوام قوانین برقرار رکھے گئے، بشمول طلبہ یونینوں پر پابندی، مزدور دشمن اقدامات، افغان پالیسی، یہاں تک کہ تمغہ جمہوریت بھی ان کو ملا جنہوں نے مزاحمتی تحریکوں کو کچلا۔ اب تو حال یہ ہے کہ تحریک شروع نہیں ہوئی اور نظریں گیٹ نمبر 4پر ہیں، اس انتظار میں کہ کب دعوت آئے اور کب حاضری لگے۔ قربانی تو اب بھی سیاسی کارکن دے رہا ہے، جن میں خواتین بھی شامل ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ ساری جدوجہد یا تو اقتدار بچانے کی ہو رہی ہے یا اقتدار میں آنے کی۔
مزدور کے ماتھے پر تو آج بھی محنت کا پسینہ ہے مگر آج بھی روزی کے بدلے بیروزگاری ملتی ہے۔ اس قیامت خیز مہنگائی کے دور میں نہ مزاحمتی ادب سامنے آ رہا ہے، نہ کوئی مزدور دوست تحریک۔ 1917ء کے روس کے انقلاب کے نتیجے میں اور کچھ نہیں تو کم از کم دنیا بھر میں مزدور کے اوقات کار تو آٹھ گھنٹے طے ہوئے، کم از کم اجرت اور پنشن، امریکہ اور یورپ خوف زدہ تھا بائیں بازو کی تحریکوں سے تو اس نے ایک طرف مزدوروں کے حقوق کو تسلیم کیا تو دوسری طرف دنیا میں نہ صرف آمروں کی بلکہ مزاحمتی تحریکوں کو جبر سے دبانے کی حمایت کی، جن ممالک نے ایسا کیا انہیں اربوں ڈالر امداد ملی اور دفاعی طور پر مضبوط کیا گیا۔ ہم نے بھی امریکی غلامی مئی 1954ء میں قبول کی اور وہ سب اقدامات کیے جس سے مزاحمت ختم ہو جائے، اس میں سب نے اپنا اپنا حصہ ڈالا، سویلین حکمرانوں سے لے کر اعلیٰ عدلیہ کے ایوانوں تک۔ کل کے نوجوان نے مزاحمت کی تھی، کیا آج کا نوجوان اپنے حقوق کیلئے مزاحمت کر پائے گا۔
بشکریہ روزنامہ جنگ