زبردستی کی خاموشی : تحریر محمد اظہر حفیظ


زندگی مشاہدات کا نام ہے۔اس میں خوشیاں بھی ہیں اور غم بھی، دکھ بھی ہیں اور راحتیں بھی۔ زندگی کے مختلف مشاہدات تھے بچپن جوانی پھر بڑھاپا۔ صحت و تندرستی اور پھر چند بیماریاں ۔
سب مشاہدات کو بہت نزدیک سے دیکھا اور محسوس کیا ۔
بچپن میں ایک شرمیلا بچہ تھا پھر جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی شرمیلا پن بھی زندگی سے نکل گیا۔ اور شاید میں ایک بے شرم انسان بن گیا۔ کسی کا لحاظ نہ کرنا اور ہر بات کا جواب دینا فطرت ہی بن گئی تھی۔ پاکستان تقریباً سارا ہی دیکھا ۔ جاگنا مقدر بن گیا اور سونے کو تو میں بھول ہی گیا۔ جو سپنے سوتے میں دیکھنے تھے وہ بھی میرے رب نے جاگتے میں دکھا دئیے۔ بدقسمتی سے صحت کو کبھی صحت نہیں سمجھا اور بیماری کو بیماری۔ اس بری عادت نے رنگ دکھایا پہلے شوگر کے مریض ہوئے اور پھر جگربھی شوگر کی نظر ہوگیا۔ باون سال کی عمر میں نیا جگر لگ گیا بڑی بیٹی نے ایک عظیم قربانی دی اور جگر ٹرانسپلانٹ کروالیا اور اب نئے جگر کے ساتھ زندگی گزر رہی ہے۔ مکمل احتیاط کے باوجود ٹرانسپلانٹ والی جگہ پر ہرنیا بن گیا جس کو آپریشن کے تقریبا دو سال بعد رپئیر کردیا گیا پھر ایک پانچ گھنٹے کی سرجری 18 دسمبر 2023 کو عمل میں لائی گئی شکر الحمدللہ ہرنیا کامیابی سے رپیئر ہوگیا۔ بقول ڈاکٹر کے بہت بڑا ہرنیا تھا
جب مجھے آئی سی یو میں ہوش آیا تو میں آئی سی یو کے سٹاف کو بتانا چاہتا تھا کہ میں ہوش میں آگیا ہوں میرے گھر والوں کو بلائیں۔ پر میری آواز کوئی سن نہیں رہا تھا۔ مجھے احساس ہوا شاید میں مرگیا ہوں سنا تھا کہ مردے سن سکتے ہیں پر بول نہیں سکتے۔ پھر بھی میں نے کوشش جاری رکھی اپنے ہاتھ ہلانے شروع کیا تو آئی سی یو کے باہر سے کسی نے دیکھ کر سٹاف کی توجہ دلائی کہ مریض بلا رہا ہے۔ سٹاف انکل آپ ہاتھ کیوں ہلا رہے ہیں آواز دے لیتے۔ بتانے کی کوشش کی کہ بیٹے آوازیں بہت دیں پر شاید میری آواز بند ہوگئی ہے۔
ڈاکٹر صاحب آئے انھوں نے کہا شاید این جی ٹیوب آپ کے ووکل کارڈ سے ٹکرا گئی ہے۔ جس سے آواز متاثر ہوگئی ہے کوئی بات نہیں ایک ماہ تک ٹھیک ہو جائے گی ایک ماہ تک اگر بحال نہ ہو تو کسی ناک کان گلے کے ڈاکٹر کوچیک کروائیں۔ اب ایک عجیب بے بسی شروع ہوگئی میری آواز کسی کو نہیں سنائی دیتی تھی۔ اور مجھے سب کی آواز آتی تھی۔ اب میں تھوڑا تھوڑا بولنا شروع ہوگیا تھا جیسے سرگوشی کرتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کو چیک کروایا تو انھوں نے گلے کے اندر کیمرہ ڈال کر چیک کیا اور بتایا بائیں طرف کا ووکل کارڈ متاثر ہوا ہے تین ماہ تک سپیچ تھراپی کریں بہتری ہو جائے گی۔ ساڑھے چار ماہ گزر چکے ہیں آواز میں کچھ بہتری آئی ہے اب فون بھی سن لیتا ہوں۔ تھوڑی بہت بات بھی کر لیتا ہوں۔ کچھ من چلے نقل اتار کر مزے بھی لیتے ہیں کہ اتنے بھاری جسم کا بابا اور آواز اتنی کم۔ کیا کرسکتا ہوں۔
دوست احباب، بہن بھائی ، بیوی بچے اکثر کہتے ہیں کہ آپ بہت خاموش رہنے لگ گئے ہیں کیا بات ہے انکو کیا بتاؤں میرے پاس خاموشی کے علاؤہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ کچھ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ آٹھ یا نو ماہ تک آواز ٹھیک ہو جائے گی۔ اللہ بہتر جانتے ہیں مجھے یاد ہے حسن رضا بھائی کی آواز بھی متاثر ہوئی تھی دوبارہ سرجری کروائی گئی تو اس میں وہ خود اللہ پاس چلے گئے۔
مجھے پہلے تو سمجھ نہیں آرہی تھی لاکھوں روپے لگا کرجگر ٹرانسپلانٹ کروایا اور اس میں ہرنیا ہوگیا۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اکثر زیادہ وزن والے لوگوں کو ہو جاتا ہے ۔ ان کی بات مان لی ۔ اب جو مجھے زبردستی خاموش کروادیا گیا ہے ۔ اس کا ذمہ دار ڈاکٹر ہے یا اس کو بھی اللہ کی مرضی کہہ کر بری الذمہ ہو جایا جائے۔ کیا پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ لاہور کی انتظامیہ اس بات کا جواب دیں گے۔
میں بلاعنوان کے نام سے سوشل میڈیا پر ویلاگ کرتا تھا سو سے زائد ویلاگ سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ تقریبا پچھلے پانچ ماہ سے میں خاموش ہوں۔ میں اپنی بات کسی سے کہہ نہیں سکتا کسی کو بلا نہیں سکتا۔ پہلے تو ہر وقت میرے پاس کوئی نہ کوئی ڈیوٹی دیتا تھا کیونکہ میری آواز ان تک نہیں جاتی تھی ۔ اب سب اپنے کاموں میں مصروف ہیں اور میں خاموش۔
ہلکی آواز میں کوشش کرتا ہوں بلانے کی۔ پر کس کو آواز جائے۔ سنا ہے باہر کے ممالک میں ڈاکٹرز اور ہسپتال انتظامیہ کو جرمانے ہوتے ہیں پر میرے دیس پاکستان میں جیسے اللہ کو منظور کہہ کر انسانی غلطی کو بھی اللہ تعالیٰ پر ڈال دیا جاتا ہے۔
میں نے خاموشی سے ساڑھے چار ماہ گزار دئیے ہیں شاید باقی مانندہ زندگی بھی گزر جائے ۔ کوئی بات نہیں ۔ بہت سارے آئیڈیاز سوچے تھے کہ ان ٹاپکس پر ویلاگ بناؤں گا ۔ پر اب شاید عمل ممکن نظر نہیں آتا۔
کوشش جاری ہے امید واثق ہے ایک دن آواز بحال ہو جائے گی۔ لوگوں سے ملنا جلنا بھی کم ہے۔ دعا تو خاموشی سے کر لیتا ہوں پر کبھی کبھی کبھی من کرتا ہے گالی دینے کو پھر رک جاتا ہوں کہ جو اگلے کو سنائی نہ دے اس گالی کا کیا فائدہ۔
کئی عادتیں بدل رہی ہیں خاموشی کے فوائد بھی سمجھ آرہے ہیں۔ پر دکھ ہوتا ہے جب کہیں راستہ پوچھنا ہو تو بیگم صاحبہ سے کہنا پڑتا ہے آپ راستہ پوچھیں کیونکہ میری آواز راستہ بتانے والے تک جاتی نہیں ہے اگر تھوڑی بہت پہنچ بھی جائے تو اسکی مسکراہٹ میری آواز کو مزید کم کر دیتی ہے۔
فون سن لوں تو وہ کہتے ہیں اظہر حفیظ سے بات کروادیں جی بول رہا ہوں۔ گلے کو کیا ہوا کم ٹھنڈا پانی پیا کریں جی بہتر اب کس کس کو مکمل بات سناؤں سوچھا لکھ دوں۔
میں پچھلے تیس سال سے پڑھانے سے وابستہ تھا اب شاید اس شعبہ سے بھی اجازت لینی پڑے۔
خاموشی بہت اچھی چیز ہے ۔ پر تھوڑی سی آواز تو اٹھانی چاہیے کہ کسی کی غلطی نے جو مجھے خاموش کروادیا۔تاکہ باقی لوگ محفوظ رہ سکیں۔
دعاؤں کی درخواست ہے۔