عملی رپورٹنگ سے عرصہ ہوا کنارہ کشی اختیار کرچکا ہوں۔ اس کے باوجود گئے دنوں میں بنائے تعلقات کی بدولت کبھی کبھار کوئی اہم ترین خبر من وسلوی کی طرح مل جاتی ہے۔ ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کے حوالے سے بھی یوں ہوگیا۔ مارچ 2024 کی پانچ تاریخ کو خبر ملی کہ وہ پاکستان تشریف لارہے ہیں۔ کچھ دوستوں سے مذکورہ خبر کی تصدیق کے لئے رابطہ کیا تو وہ تردید یا تصدیق کو رضا مند نہیں تھے۔ دریں اثنا اسلام آباد میں تعینات سفارت کاروں سے مسلسل ومتحرک رابطے میں رہنے والے چند ساتھیوں نے یہ کہتے ہوئے گویا تصدیق فراہم کردی کہ گزشتہ چند دنوں سے ایرانی سفارت خانہ کی وسیع پیمانے پر تزئین ہورہی ہے۔ تزئین وآرائش کا یہ عمل مجھے کسی بڑی شخصیت کی آمد کی خبر دیتا محسوس ہوا۔ اسے بنیاد بناتے ہوئے تصدیق کی تلاش جاری رکھی اور بالآخر مجھے ایک اہم عہدے پر فائز شخصیت نے محض ہاں کہتے ہوئے جان چھڑالی۔
خود کو ملی خبر کا ذکر چھیڑ دیا تو چند روز بعد وزارت خارجہ کی ترجمان نے صحافیوں کے لئے ہفت روزہ بریفنگ کے دوران اس کی تصدیق سرکاری اندازمیں فراہم کردی۔ تفصیلات میں جانے سے اگرچہ گریز کیا۔ سفارتکاری کو ہماری صحافت بہت جذباتی انداز میں پیش کرتی رہی ہے۔اس کی وجہ سے عام پاکستانی مثال کے طورپر یہ تصور کرتا ہے کہ پاکستان کی ایران سے قربت ہمارے عرب دوستوں کو ناراض کردیتی ہے۔ بے شمار و جوہات کی بنیاد پر یہ تاثر قطعا غلط بھی نہیں ہے۔ سعودی عرب کی نئی قیادت مگر بہت تیزی سے ماضی کے تعصبات بھلاکر مشرق وسطی کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کو بے چین ہے۔ اس کے علاوہ ہمارا دیرینہ یار چین بھی سرد جنگ کے اختتام کے بعد دنیا کی واحد سپرطاقت ہوئے امریکہ کی من مانیوں پر سوال اٹھانا شروع ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ روس اور یوکرین کی جنگ نے عالمی امور پر امریکی بالادستی پر ہزاروں سوالات اٹھادئیے ہیں۔ دنیا کا تقریبا ہر ملک اب مجبور ہورہا ہے کہ امریکہ کی ترجیحات پر توجہ دیتے ہوئے اپنے قومی تقاضوں اور مفادات کو ذہن نشین کرتے ہوئے دیگر ممالک سے تعلقات نئے سرے سے ترتیب دے۔ قومی ترجیحات کے ساتھ ہی ساتھ ہر ملک یہ سوچنے کو بھی مجبور ہے کہ وہ اپنے ہمسائے بدل نہیں سکتا۔ جغرافیائی حقیقتوں کو نگاہ میں رکھتے ہوئے لہذا قومی ہی نہیں بلکہ علاقائی مفادات کی نشان دہی کے بعد ان کے حصول کے لئے ہر ملک کو اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر علاقائی اتحاد بھی تشکیل دینا ہوں گے۔ اس ضمن میں اگر کوئی تنظیمی بندوبست میسر نہ ہو تب بھی مشترکہ مفادات کی نشاندہی کے بعد اس کے حصول کیلئے مشترکہ حکمت عملی تیار کی جاسکتی ہے۔
مذکورہ بالا تناظر میں سوچیں تو ایران بھی پاکستان کا ہمسایہ ہے۔ ہمسائیگی کے علاوہ ہمارے تاریخی اور تہذیبی رشتے بھی بہت گہرے ہیں۔ دونوں ممالک کی بدقسمتی مگر یہ بھی رہی کہ وہ ماضی میں سینٹو اور آر سی ڈی جیسے اداروں کے رکن ہوتے ہوئے بھی ایک دوسرے کی معیشتوں کو اشتراک کے مواقع فراہم نہیں کرپائے۔ دور شہنشایئت میں ایران خود کو ہمارے خطے میں امریکی مفادات کا حتمی نگہبان تصور کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ رعونت سے برتاؤ کرتا رہا۔ ٹھوس حقیقت جبکہ یہ بھی رہی کہ شہنشاہ ایران کے خلاف ابھرتی عوامی تحریک کو ہمارے اقبال نے اپنے کلام کے ذریعے بے پناہ تقویت بخشی۔ ایرانی قیادت کے بے شمار نمائندے آج بھی اقبال لہوری کو اپنا مرشد مانتے ہیں۔ انقلاب ایران کے بعد مگر صدام حسین نے اپنی حماقتوں سے عرب وعجم اختلافات کو بھڑکانا شروع کردیا۔ اس کی بدولت ایران کو ہمارے ہاں محض ایک مسلک سے وابستہ کردینے کی سوچ کو فروغ ملا اور پاک-ایران تعلقات فرقہ وارانہ محدودات کے دباؤ میں سکڑنا شروع ہوگئے۔
مذکورہ حقائق کو نگاہ میں رکھتے ہوئے شہباز حکومت کے 8فروری کے بعد اقتدار سنبھالتے ہی ایرانی صدر کی پاکستان آمد ہر حوالے سے دو ممالک کے مابین ایک نئے دور کے امکانات سے بھرپور تھی۔ روشن امکانات نے مگر جی کو دھڑکا بھی لگادیا۔ وسوسوں بھرا دل یہ سوچنے کو مجبور ہوا کہ عالمی معاملات کے اجارہ دار ممالک پاکستان اور ایران کے مابین گرم جوش دوستی کے امکانات ہضم نہیں کر پائیں گے۔ رواں مہینے کے آغاز میں اسرائیل نے دمشق میں قائم ایرانی سفارت خانے سے وابستہ عمارت پر میزائل پھینکے تو میرے خدشات درست ہوتے محسوس ہوئے۔ ابھی ان خدشات کا تسلی بخش تجزیہ ہی نہیں کرپایا تھا کہ ایران نے اسرائیل پر ڈرون طیاروں اور بلاسٹک میزائلوں کی بوچھاڑ سے حساب برابر کرلیا۔
ایران نے اپنے تئیں حساب برابر کرلیا ہے۔ اسرائیل مگر اس کے بعد تلملایا ہوا ہے۔ حماس کی وجہ سے دیوار سے لگا اس کا وزیراعظم نیتن یاہو غصے سے بپھرا ایران کے خلاف ایک بھرپور جنگ کا آغاز کرنے کو بے چین ہے۔ ممکنہ جنگ کے نتائج پاکستان ہی نہیں دنیا کے خوش حال ترین ممالک بھی تیل کی ممکنہ عدم دستیابی کی وجہ سے برداشت نہیں کرپائیں گے۔ کساد بازاری کی وجہ سے نازل ہوئی مشکلات سے کہیں زیادہ خطرناک یہ امکان بھی ہے کہ ایران-اسرائیل جنگ دنیا کو بالآخر تیسری عالمی جنگ کی جانب دھکیل سکتی ہے۔ مذکورہ امکان کو ذہن میں رکھتے ہوئے امریکی صدر بائیڈن نیتن یاہو کو ایران پر مزید اقتصادی پابندیاں لگاتے ہوئے ٹھنڈا کرنے کے چکر میں ہے۔اسے یہ فکر بھی لاحق ہے کہ اگر وہ ایران اور اسرائیل میں جنگ روک نہ سکا تو آئندہ نومبر میں امریکی صدارتی انتخاب بری طرح ہارسکتا ہے۔
اسرائیل کو ٹھنڈا رکھنے کی خاطر ایران پر اقتصادی وسفارتی دباؤ کو مزید بڑھاتے ہوئے اسے عالمی دنیا میں تنہا کردینے کی کوشش ہورہی ہے۔ ایسے ماحول میں ایرانی صدر کی پیر کے روز پاکستان آمد واشنگٹن کو یہ پیغام بھی دے گی کہ پاکستان کے اپنے مفادات ہیں اور وہ محض امریکہ کو ہر حال میں خوش رکھنے کی خاطر انہیں نظرانداز نہیں کرسکتا۔شہباز حکومت نے اس تناظر میں نہایت جرات و دلیری سے ایرانی صدر کو خوش آمدید کہا ہے۔ واشنگٹن کو اس ضمن میں حکومت پاکستان کا اپنایا رویہ پسند نہیں آئے گا۔ مذکرہ حقیقت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے آپ کو یہ خبر بھی دینا ہوگی کہ ایران-اسرائیل کے مابین کشیدگی کی وجہ سے واشنگٹن میں ابھرے ایران مخالف جذبات کو ذہن میں رکھتے ہوئے تہران نے سفارتی ذرائع سے اسلام آباد کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ اگر وہ واشنگٹن میں ایرانی صدر کی پاکستان آمد کے بارے میں پائی خفگی سے خود کو پریشان محسوس کررہا ہے تو ایرانی صدر کے دورہ پاکستان کو رواں برس کے ستمبر-اکتوبر تک موخر کیا جاسکتا ہے۔ اسلام آباد نے مگر جرات سے ایرانی صدر کو طے شدہ شیڈول کے مطابق پاکستان آنے پر اصرار کیا۔ دیکھنا ہوگا کہ واشنگٹن اسے ہضم کرپائے گا یا نہیں۔
بشکریہ روزنامہ نوائے وقت