انتخابی جنگ کے نئے ہتھیار اور مودی کی ہرزہ سرائی : تحریر افتخار گیلانی


2014میں بھارت میں ہو رہے عام انتخابات کو کورکرنے کیلئے میں صوبہ بہار کے سمستی پور قصبہ میں وارد ہوگیا تھا۔ معلوم ہوا کہ ہوٹل کے سامنے ہی ایک مقامی سینما ہال کے منیجر کے کمرے میں قصبہ کے سیاسی کارکن، ذی عزت اور دانشور قسم کے افراد شام کو جمع ہوتے ہیں اور ایک مقامی کلب جیسا ماحول ہوتا ہے۔ میں بھی سیاسی سن گن لینے کیلئے ایک بن بلائے مہمان کی طرح ان کے کلب میں پہنچا۔نئی دہلی کے صحافی کی اپنے دفتر میں کوئی عزت و وقعت ہو یا نہ ہو، مگر دارالحکومت کے باہر قدم رکھتے ہی اسکا وقار خاصا بلند ہو جاتا ہے۔ صوبوں کے سیاسی کارکن تو دہلی کے پتر کار کا ذکر سنتے ہی بچھ جاتے ہیں کہ کیا معلوم کہ اس کی رسائی ان کے اعلی لیڈروں تک ہو۔ یہ کسی حد تک سچ بھی ہے کہ پارلیمنٹ کے اجلاس کو کور کرنے کی وجہ سے دہلی کے صحافی کی صوبوں میں کام کرنے والے اپنے ہم منصبوں کی نسبت اقتدار تک رسائی زیادہ آسان ہوتی ہے ۔ ایک مفروضہ یہ بھی ہوتا تھا کہ اعلی لیڈر تو علی الصبح دہلی سے شائع ہونے والے اخبارات ہی پڑھکر اپنی رائے بناتے ہیں۔ خیر سینما ہال کے اس کلب نما کمرے میں، میرا بڑا پر تپاک استقبال ہوا۔ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے، ایک مقامی سیاسی کارکن نے گفتگو کے درمیان کہا کہ اگر ان انتخابات میں نریندر مودی جیت جاتے ہیں، تو بھارت کیا پوری دنیا میں آئندہ انتخابات کے لڑنے کا طریقہ کار بدل جائیگا۔ مزید وضاحت کرتے ہوئے اس نے کہا کہ یہ انتخاب روایتی طریقوں، انسانی احساسات اور ٹیکنالوجی کے درمیان ایک جنگ ہے۔ ان انتخابات میں پہلی بار سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے ، مودی نے افواہوں،آدھے سچ کر پھیلا کر عوام کی ذہن سازی کرکے اکثریت حاصل کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ سمستی پور کے اس مقامی سیاسی کارکن نے یہ تو ثابت کردیا کہ جنوبی ایشیا میں بہاریوں سے بڑھ کر کوئی سیاسی نبض شناس نہیں ہے ۔ اس نئی انتخابی اسٹریٹجی کے خالق ویسے تو بی جے پی کے ہی لیڈر اور مودی کے گورو کیشو بائی پٹیل ہیں، جس نے 1995میں گجرات کے صوبائی انتخابات میں چھوٹے چھوٹے کیم کارڈرز کا استعمال کیا۔ اس وقت ان پر خاصی ڈیوٹی ہوتی تھی۔ اس کا طریقہ یہ نکالا گیا کہ برطانیہ میں پارٹی کے ہمدرد افراد بھار ی تعداد میں اپنے ساتھ یہ کیمرے لے کر آگئے اور ان کو اپنے پاسپورٹ پر درج کروادیا۔انتخابی مہم کے دوران یہ غیر بھارتیہ گجراتی کیم کارڈر ہاتھ میں لئے ریکارڈنگ کرتے نظر آتے تھے۔ بعد میں انتخابات ختم ہونے کے بعد وہ ان کو اپنے ساتھ واپس لے کر گئے۔ مگر ان کیم کارڈر نے انتخابی مہم میں ایسا رنگ ڈالا کہ کانگریس کی کیمپین پھیکی پڑ گئی اور تب سے اس صوبہ میں اب بی جے پی کی حکومت ہے۔ مگر انتخابات میں ٹیکنالوجی کے استعمال کو بہار کے ایک فرد پرشانت کشور نے ایک ا نتہا تک پہنچادیا۔ اقوام متحدہ کے صحت عامہ کے شعبہ میں کام کرنے کے بعد وطن واپسی پر انہوں نے انتخابی اسٹریجی کو سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے اور سڑکوں پر گاجے باجے کے بجائے، موبائل فونز پر ایس ایم ایس، اور دیگر پلیٹ فارمز کی مدد سے مہم چلاکر عوامی ذہنوں کو براہ راست متاثر کرنے کا کام شروع کرنے کا بیڑا ٹھایا۔ ان کی پہلی محدود مہم 2012میں مودی کیلئے اسوقت تھی، جب وہ گحرات صوبہ کے وزیر اعلی کے بطور تیسری مرتبہ منتخب ہوگئے۔ویسے ایک بار ایک نجی ملاقات میں کانگریس لیڈر راہول گاندھی نے مجھے بتایا تھا،کہ کشور ان کی دریافت تھی۔ ان کے مطابق انہوں نے ہی کشور کو بھارت واپس آکر ان کے دفتر میں کام کرنے کی ترغیب دی تھی۔ کشور نے ایک غیر سرکاری تنظیم سٹیزن فار اکانٹیبل گورننس (CAG)، اور پھر انڈین پولیٹیکل ایکشن کمیٹی بناکر مختلف سیاسی پارٹیوں کیلئے کام کیا۔ 2014کے انتخابات میں بڑے پیمانے پر انہوں نے مودی کیلئے کام کرکے ان کو قطعی اکثریت حاصل کروانے میں مدد دی اور پھر ایک سال بعد مودی سے الگ ہوکر انہوں نے بہار میں نتیش کمار اور لالو پرساد یادو کے اتحاد کیلئے کام کرکے بی جے پی کو ہروایا۔ پھر 2017 کے پنجاب قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کے لیے کانگریسی لیڈر امریندر سنگھ سمیت مختلف اوقات میںمختلف سیاسی پارٹیوں کیلئے کام کیا۔ گو کہ پرشانت کشور اب بطور الیکشن حکمت علمی کار کے ریٹائرڈ ہو چکے ہیں، مگر اب اس طرح کے کئی ادارے بھارت میں سرگرم ہیں۔ اب تو انتخابات لڑنے والے امیدوار انفرادی طور پر بھی ان کی خدمات مستعار لیتے ہیں۔ 2014کے بعد یہ ایک نئی پود وجود میں آئی ہے، جن پر سیاسی جماعتوں اور انفرادی طور پر امیدواروں کو بھاری بھرکم رقوم خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ پرشانت کشور کے ایک ساتھی شیوم شنکر سنگھ نے اپنی ایک کتاب HOW TO WIN AN INDIAN ELECTION میں ایسے طور طریقوں کا احاطہ کیا ہے،جن سے موجودہ دور میں انتخابات کی جیت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے بعد میں کشور کی انڈین پولیٹیکل ایکشن کمیٹی (IPAC)سے استعفی دیکر براہ راست حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی) کے اہم لیڈروں رام مادھو وغیرہ کے ساتھ کام کرکے پارٹی کی انتخابی اسٹریجی کو ترتیب دینے کا کام کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ شاید سیاسی پارٹیوں کو اب نجی فرموں کی خدمات کی مزید ضرورت نہ رہے، کیونکہ پارٹیاں اب اندر ہی اس طرح کے شعبے بناکر کنسلٹنٹ بھرتی کرتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنا ڈیٹا بھی محفوظ رکھتے ہیں۔ اس میں کنسلٹنٹس کے لیے بھی فوائد ہیں۔ انہیں نہ صرف مسابقتی تنخواہ ملتی ہے، بلکہ سیاسی رہنماں کے ساتھ براہ راست کام کرتے ہوئے مہم میں مزید شامل ہونے کا موقع بھی ملتا ہے۔ سنگھ کا کہنا ہے کہ مودی کیلئے جو چائے بیچنے والا یا نچلے طبقہ سے تعلق رکھنے والا برانڈ بنایا گیا وہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی تھی۔ اس میں یہ بتانا مقصود تھا کہ مودی ایک انتہائی موثر وزیر اعلی ہیں جنہوں نے گجرات کو بدل کر رکھ دیا ۔ ایک چائے بیچنے والی شبیہ کو اجاگر کرکے یہ بتانا مقصود تھا کہ وہ نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور کانگریس کی اقربا پروری اور اشرافیہ سے لڑتے ہوئے وہ ایک اہم عہدے تک پہنچ گئے۔ سنگھ کا کہنا ہے ان کو یہ واضح ہو گیا کہ مودی نے جو برانڈ اپنے لیے تیار کیا تھا وہ کوئی حادثہ نہیں تھا، بلکہ سوچی سمجھی حکمت عملی تھی۔ آن گرانڈ اور آن لائن مہم کے مثر امتزاج سے کانگریس اور گاندھی خاندان کے خلاف منفیت کی ایک فضا پیدا ہوگئی۔کتاب کے مطابق کہ ایسی فضا شاذ و نادر ہی خودبخود بنتی ہے۔ عوامی ذہنوں کو اپنی گرفت میں لینے والے ایک آئیڈیا کے لیے بہت محنت اور مسلسل تکرار درکار ہوتی ہے اوراب جدید ٹیکنالوجی کا اس میں بڑا ہاتھ ہے۔ (جاری ہے)

بشکریہ روزنامہ 92 نیوز