ایرانی صدر پاکستان تشریف لا رہے ہیں : تحریر تنویر قیصر شاہد


ایرانی صدر عزت مآب جناب سید ابراہیم رئیسی رواں ہفتے پاکستان کے سرکاری دورے پر تشریف لا رہے ہیں ۔جی آیاںنوں۔ حالیہ ایران و اسرائیل مناقشے اور تصادم نے جو بین الاقوامی حیثیت اختیار کررکھی ہے، ایرانی صدر صاحب کا دورہ پاکستان غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔

ہمارے وزیر خارجہ اسحق ڈار کا کہنا ہے کہایرانی صدر کا دورہ پاکستان پہلے سے طے شدہ تھا۔ اِس دورے کا تعلق حالیہ ایران، اسرائیل تصادم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ساری دنیا کی نظریں ایرانی صدر صاحب کے اِس دورے پر مرتکز ہیں؛ چنانچہ حساس سفارتی تقاضوں کے پس منظر میں پاکستان اور ایران نہائت احتیاط کا مظاہرہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔

شدید عالمی اور گہرے اندرونی و بیرونی بحرانوں میں قومی معاملات کو بحسن و خوبی کو آگے بڑھاتے رہنے میں ایران خاصا تجربہ رکھتا ہے ۔ پچھلے چار متحارب اور متلاطم عشروں کے دوران، متنوع بحرانوں کے باوصف، ایران نے کئی پر آزمائش سفارتی محاذوں پر جس انداز اور اسلوب میں خود کو بچائے اور آگے بڑھائے رکھا ہے، دیکھ کر رشک آتا ہے۔
ایرانی سفارت کاری شاباش کی مستحق ہے ۔ امریکی قیادت میں انقلابی و اسلامی ایران پر عائد کی جانے والی متعدد و متنوع پابندیوں کے اثرات کو ایرانی ملا قیادت نے جرات و دلاوری کے ساتھ مسترد و زائل کیا ہے۔ انقلابی ایرانی پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس نے اپنے کئی رخی تزویراتی اہداف و مقاصد کے حصول کے لیے کئی خطوں میں کئی پراکسی وارز بھی شروع کر رکھی ہیں۔ یمن کے جنگجو حوثیوں، لبنان کی لڑاکا حزب اللہ، شام کے بعثی صدر صدر صدام حسین کے بعد والے عراق اور حماس کی اعلی قیادت میں ایرانی اثرورسوخ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ ایران ایسے الزامات کی تردید کرتا ہے۔

سخت امریکی معاشی پابندیوں کے باوجود ایران جس مشاقی و مہارت سے چین اور بھارت کو اپنا تیل بیچ کر اپنی سفارتکاری کے جھنڈے گاڑ رہا ہے، کیا یہ کامیابی معمولی ہے؟ خاص طور پر ایسے پس منظر میں جب کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان گزشتہ کئی برسوں سے ، معاہدے کے باوصف، ایران سے تیل و گیس حاصل کرنے میں ناکام چلا آ رہا ہے۔ موجودہ ایران و اسرائیل عالمی بحران بھی ایران کے لیے سدِ راہ نہیں بن سکتا۔ ایران اپنے راستے بنانا خوب جانتا ہے ۔

ایران ، عراق مہلک جنگ کی آتشناک بھٹیوں کے دوران بھی ایران نے اپنے ہاں عام انتخابات کروا کر ثابت کیا تھا کہ دہکتی جنگ بھی اس کا بال بیکا نہیں کر سکتی ۔گویا بحرانوں کے تعدد اور شدت نے ایران کو کندن بنا دیا ہے۔ اگرچہ کئی عالمی جابرانہ و سامراجی قوتوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ایرانی عوام کا بھرکس بھی نکل چکا ہے ۔

ایران نے مگر قومی سطح پر کسی جابر کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ یکم اپریل 2024 کو صہیونی اسرائیل نے شامی دارالحکومت، دمشق میں بروئے کار ایرانی سفارتخانے پر حملہ کرکے نصف درجن کے قریب ایرانی سفارتکاروں (جن میں دو سینئر ایرانی فوجی افسر بھی شامل تھے)کو شہید کیا تو کہا گیا تھا کہ امریکا و برطانیہ کے حمائت یافتہ اسرائیل سے ایران بدلہ نہیں لے گا یا اسے بدلہ نہیں لینا چاہیے۔دنیا نے مگر دیکھ لیا کہ تیرہ روز بعد  13اپریل2024 کو ایران نے جارح اسرائیل پر 300میزائلوں اور جنگی ڈرونز سے حملہ کرکے بدلہ لے لیا ہے ۔

ایران کی جانب سے یہ حملہ اسقدر احتیاط سے کیا گیا تھا کہ اسرائیل کا کوئی جانی و مالی نقصان نہ ہو سکا ( اسرائیل نے بھی ، جوابا، ایران ہی کی طرح ایران پر خاصا محتاط حملہ کیا ہے)ایران دراصل آتشِ انتقام کو مزید بھڑکانا چاہتا ہے نہ اِسے پھیلانا۔ اب جب کہ ساری دنیا میں اسرائیل پر (جوابی) ایرانی حملے کے کارن ساری دنیا کے میڈیا و سیاست میں ایران کا نام گونج رہا ہے،22اپریل کو ایرانی صدر جناب ابراہیم رئیسی کا پاکستان میں تشریف لانا غیر معمولی واقعہ ہے ۔ آٹھ برس قبل بھی ایرانی صدر جناب حسن روحانی پاکستان کے دورے پر تشریف لائے تھے ۔

وہ دورہ مگرکسی قدرزیادہ خوشگوار اور ثمر آور ثابت نہیں ہو سکا تھا ۔وجہ یہ تھی کہ اس دورے سے ٹھیک تین ہفتے قبل (3مارچ 2016) پاکستان کا ایک دشمن بھارتی جاسوس ، کلبھوشن یادیو،ایران سے نکل کر پاکستان میں داخل ہوتا ہوا رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا ۔ یہ بھارتی جاسوس اب بھی پاکستان کی تحویل میں ہے ۔ وہ اعتراف کر چکا ہے کہ وہ ایرانی بندرگاہ شہر (چا بہار) میں ایک جعلی نام اختیار کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف وارداتیں کرتا رہا ہے ۔

کلبھوشن یادیو کی گرفتاری سے ، وقتی طور پر ، ایران و پاکستان تعلقات میں تلخی در آئی تھی۔ اِس کے اثرات (سابق) ایرانی صدر، حسن روحانی، کے مذکورہ دورہ پاکستان پر بھی مرتب ہوئے تھے۔عجب اتفاق ہے کہ اِس بار جب نئے ایرانی صدر، جناب ابراہیم رئیسی ، دورہ پاکستان پر آ رہے ہیں، ایران و پاکستان تعلقات میں ، کچھ ہفتے قبل، خاصی تلخی و کشیدگی در آئی تھی ۔

ایران کا دعوی تھا کہ پاکستانی بلوچستان میں کچھ عناصر( جیش العدل) ایران مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں؛ چنانچہ ایران نے ،16جنوری2024کو، اچانک بلوچستان پر میزائل حملہ کر ڈالا ۔ پورے پاکستان میں اِس اقدام پر ایران مخالف جذبات بھڑک اٹھے ۔ پاکستانی عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے اور قومی غیرت کے تقاضے تھے کہ پاکستان فوری طور پر جواب دے؛ چنانچہ دو دن بعد پاکستان نے ایرانی بلوچستان پر جوابی میزائل داغ دیے ۔

پاکستان نے بھی حملے کے لیے ویسا ہی جواز فراہم کیا تھا جیسا ایران نے دعوی کیا تھا ۔ اور اِس سے قبل کہ دونوں ہمسایہ و برادر اسلامی ممالک میں مزید آگ بھڑک اٹھتی ، دونوں ممالک کے ذمے داران نے مل بیٹھ کر تلخی اور کشیدگی کی گرمی ٹھنڈی کر دی ۔ اِس کے لیے ایران نے پہل کی ( کہ ایران ہی نے میزائل داغ کر پہل کی تھی)۔ ایرانی وزیر خارجہ ، جناب حسین امیر عبداللہیان، فوری طور پر پاکستان پہنچے اور ڈیمیج کنٹرول کی کوشش کی ۔ پاکستان نے بھی شائستگی سے برادرانہ اسلوب میں جواب دیا ۔ اور یوں دونوں ممالک سے واپس کیے جانے والے سفرا نے بھی واپس اپنی اپنی جگہیں سنبھال لیں ۔

یہ ہے وہ تازہ ترین پس منظر جس میں اسلامی جمہوریہ و انقلابی ایران کے عزت مآب صدر22اپریل کو ہمارے ہاں تشریف لا رہے ہیں ۔ ہم سب اپنے معزز و محترم ایرانی مہمان کے لیے اپنی استقبالی با نہیں کھولے ہوئے ہیں۔امید کی جاتی ہے کہ یہ دورہ دونوں فریق ممالک کے لیے ثمر آور ثابت ہوگا۔ انشا اللہ۔ ایرانی صدرکے دورہ پاکستان کے موقع پر جامعہ کراچی کی جانب سے انھیں پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی دی جا رہی ہے۔

ایرانی صدر کو یہ اعزازی سند دینے کی سفارش گورنر سندھ جناب کامران ٹیسوری نے کی ہے ۔ جناب شہباز شریف کی بھی کامیابی ہے کہ جب سے وہ دوسری بار وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں، جناب ابراہیم رئیسی پہلے غیر ملکی مہمان ہیں جو پاکستان میں قدم رکھ رہے ہیں ۔یہ پاکستان کی سفارتی کامیابی بھی ہے اور صدر آصف علی زرداری کی کرشمہ ساز شخصیت کی بھی۔ یہ آصف زرداری صاحب ہی ہیں جن کے سابقہ دورِ صدارت میں پاکستان اور ایران کے درمیان اربوں ڈالر مالیت گیس فراہمی کا معاہدہ ہوا تھا ۔

ایران تو اپنی طرف گیس پائپ لائن مکمل کر چکا ہے جب کہ پاکستان ابھی تکمیل کے ابتدائی مراحل میں ہے ۔ پاکستان کی اِس بوجوہ سست روی پر ایران کچھ ناراض بھی ہے۔ درحقیقت امریکا نہیں چاہتا کہ پاکستان کسی بھی طرح ایران سے سستی گیس حاصل کرکے ایران کو مالی فائدہ پہنچا سکے۔ایرانی صدر کے دورے سے دو روز قبل امریکا نے پاکستان کے خلاف جو اقدام کیا ہے، اسے بھی ہم نظر انداز نہیں کر سکتے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس