عمران خان کی گارنٹی کون دے گا؟ : تحریر انصار عباسی


دو دن قبل مجھے ایک سورس سے معلوم ہوا کہ چند اہم شخصیات عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان معاملات کو سلجھانے کے لیے سوچ بچار کر رہی ہیں۔ اس پر میری ان شخصیات میں سے ایک سے بات ہوئی، جنہوں نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ ’’پاکستان کے خیر خواہوں‘‘ کا ایک گروپ جس میں وہ بھی شامل ہیں نہ صرف عمران خان اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان بڑھتی کشیدگی کا معاملہ حل کرنے کیلئے حکمت عملی تیار کرنے کیلئے سوچ بچار کر رہاہے بلکہ سیاسی جماعتوں کے درمیان بھی دشمنی اور نفرت کی سیاست کا خاتمہ چاہتا ہے۔مجھے بتایا گیا کہ اب تک کم از کم تین ’’پاکستان کے خیر خواہ‘‘ ایک دوسرے کے ساتھ رابطے میں ہیں اور آئندہ دنوں میں کچھ اور بھی لوگ اس گروپ میں شامل ہو سکتے ہیں تاکہ قومی ہم آہنگی اور سیاسی استحکام کیلئے حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا جا سکے۔ ابھی تک جو تین لوگ آپس میں اس سلسلے میں رابطے میں ہیں اُن میں سے دو سابق وفاقی وزراء ہیں جبکہ تیسری شخصیت ایک معروف ریٹائرڈ تھری اسٹار جنرل ہیں۔ تینوں جانے پہچانے چہرے ہیں۔مجھے بتایا گیا کہ اس مرحلے پر پاکستان کے یہ خیر خواہ اپنی شناخت ظاہر کرنے کے خواہشمند نہیں لیکن آنے والے دنوں میں وہ سامنے آ سکتے ہیں۔ اس گروپ کیلئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ عمران خان اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان خلیج کوکیونکر ختم کیا جائے اور عمران خان اور دوسری سیاسی جماعتوں کو کیسے ایک ساتھ بٹھایا جائے۔؟ اس سلسلے میں میری ایک خبر گزشتہ روز جنگ اور دی نیوز میں شائع ہوئی۔کل میرا دوبارہ اپنے ذرائع سے رابطہ ہوا جس پر اُن کا کہنا تھا کہ ممکنہ طور پر اُن کی کوشش کا ایک دو مہینوں میں کوئی نتیجہ نکل سکتا ہے یعنی اس بات کا تعین ہو جائے گا کہ آیا اسٹیبلشمنٹ عمران خان سے بات کرنے کے لیے تیار ہو گی یا نہیں۔ ’’خیر خواہوں‘‘ کے اس گروپ کے لیے شاید سب سے بڑا چیلنج یہ ہو گا کہ عمران خان کی گارنٹی کون دے گا کہ وہ جو بات کریں گے اُس پر قائم بھی رہیں گے۔ عمران خان کا ٹریک ریکارڈ دیکھا جائے تو وہ الزامات لگانے میں بادشاہ ہیں، وہ کوئی بھی الزام کسی پر بھی لگا سکتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اگر کوئی انڈرا سٹینڈنگ ہوتی ہے تو اُس میں عمران خان کو کیا کیارعایتیں دی جا سکتی ہیں۔ اگر عمران خان یہ مطالبہ کریں کہ موجودہ حکومت کو ختم کر کے اقتداراُن کے سپرد کر دیا جائے تو کیا ایسا ممکن ہے؟ اگر عمران خان کہیں کہ اُن کے اور اُن کی پارٹی کے دعوے کے مطابق اُن کو قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں اضافی سیٹیں مہیا کرنے کے لیے موجودہ قانونی اور عدالتی آپشنز سے بالا کوئی کام کیا جائے تو کیا ایسا ممکن ہے؟ 9مئی کے حوالے سے کیا اسٹیبلشمنٹ کسی عام معافی کا اعلان کر کے فوجی تنصیبات اور شہداء کی یادگاروں پر حملہ کرنے والوں کو بھلا سکتی ہے؟ اس وقت موجودہ حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے لیے یکسو ہیں جس کی بنا پر مجھے ممکن نظر نہیں آتا کہ عمران خان اور تحریک انصاف کو وہ کچھ ملے گا جس کا وہ مطالبہ کرتے ہیں اور جس کا مقصد موجودہ حکومت کو چلتا کر کے عمران خان اور تحریک انصاف کی حکومت کے لیے رستہ ہموار کرنا ہو۔ جن نکات پر اتفاق ہو سکتا ہے وہ یہ ہیں کہ عمران خان اور تحریک انصاف کے رہنماؤں اور ورکرز کے خلاف کیسوں کو میرٹ پر چلنے دیا جائے، بار بار گرفتاریوں سے اجتناب کیا جائے، ایسے مقدمات جن میں کوئی ثبوت نہیں اُنہیں ختم کیا جائے۔ الیکشن کے متعلق معاملات پر بھی مجھے کسی آؤٹ آف دی باکس حل کی توقع نہیں۔ ہاں آئندہ کے لیے ایک ایسے روڈ میپ پر ضرور بات ہو سکتی ہے اور ہونی بھی چاہیے کہ ہم ماضی کی غلطیاں بار بار نہ دہرائیں، سیاستدان مل بیٹھ کر آئین کے مطابق رولز آف دی گیم پر اتفاق کریں۔ اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کے خاتمے کے لیے آئین کے مطابق ہر ادارے کو اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کرنے کے لیے سیاستدانوں کا مل بیٹھنا لازم ہے۔ کیا عمران خان جو اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ ہاتھ ملانے تک کے لیے تیار نہ تھے اپنے آپ کو بدلنے کے لیے تیار ہوں گے؟

بشکریہ روزنامہ جنگ