میں بیمار ہوں!! … تحریر : سہیل وڑائچ


میرے سارے دوست دشمن متفق ہیں کہ میں بیمار ہوں مگر میں اس بات کو ماننے کیلئے تیار نہیں۔ پہلے میرے دشمنوں نے کہنا شروع کیا تھا کہ میں بیمار ہوں، اب آہستہ آہستہ سارے دوست بھی مجھے علاج کا مشورہ دے رہے ہیں، وہ میری صحت کی بحالی کیلئے مجھے نسخے بھی تجویز کرتے رہتے ہیں مگر مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں تھوڑا بہت کمزور ضرور ہوا ہوں، میرا ایک بازو کٹ گیا تھا مگر اس کے باوجود میں پوری طرح طاقتور ہوں۔ میرا نظریہ یہ کہتا ہے کہ دوست دشمن سب مجھ سے خوفزدہ ہیں اور میرے نظریے کو دبانے کیلئے مجھے بیمار قرار دیتے ہیں تاکہ مجھے کڑوی دوائیاں دیکر میرا قبلہ بدل دیں۔ اسی لئے میں اوپر اوپر سے تو دوستوں کے مشورے سن لیتا ہوں مگر ان پر عمل نہیں کرتا، بہت سے دوست مجھ سے ناراض ہو کر مجھے ناقابل علاج قرار دے رہے ہیں مگر مجھے اسکی پروا نہیں میرا نظریہ اتنا مضبوط ہے کہ میں اکیلا بھی رہ جاؤں، بھوکا بھی مرجاؤں تو اپنی راہ نہیں بدلوں گا۔

میں تضادستان ہوں پہلے بھارت جیسے میرے دشمن کہا کرتے تھے میں بیمار ہوں، ظاہر ہے اسے ایسا ہی کہنا چاہئے تھا، میں دشمن کی باتوں کی پروا کیوں کرتا! میرے قیام سے لیکر آج تک میری سب سے زیادہ مالی امداد امریکہ نے کی ہے، اسے یکایک پتہ نہیں کیا ہوا کہ کچھ عرصہ پہلے اس نے بھی مجھے سمجھانا شروع کر دیا کہ میں بیمار ہوں مجھے علاج کروانا چاہئے۔ مجھے یقین ہو گیا کہ ہنود اور یہود اپنی سازشوں میں کامیاب ہو گئے ہیں اور پوری دنیا میں اسلام کے قلعے کو کمزور کرنے کیلئے مجھے بیمار قرار دیا جا رہا ہے، اس لئے میں نے امریکہ کی بھی ایک نہ سنی۔ چین نے ہر مشکل صورتحال میں میرا ساتھ دیا ہمارے جہادی بھائیوں کو عالمی پابندیوں سے بچانے کیلئے کئی بار آؤٹ آف دی وے جا کر ویٹو بھی کیا، نیوکلیئر اور میزائل پروگرام میں بھی مدد کی معلوم نہیں کیا ہوا کہ چین نے بھی پہلے سرگوشیوں میں اور پھر کھلے بندوں میری بیماری کا ذکر شروع کر دیا، مجھے میری بیماری دور کرنے کے چینی مشورے اچھے تو نہیں لگے مگر میں چپ رہا۔ اب تو حد ہی ہو گئی ہیکہ میرے برادر اسلامی ملک سعودی عرب نے بھی امریکہ اور چین والا رویہ اختیار کر لیا ہے اور بالکل وہی مشورہ دیا ہے، جس سے لگتا ہے کہ میرے سعودی بھائی بھی مجھے بیمار سمجھتے ہیں اور امریکی، چینی ڈاکٹروں کی طرح سعودی ڈاکٹر بھی وہی علاج تجویز کر رہے ہیں۔

دبے دبے لفظوں میں مجھ تک یہ بات پہنچتی ہے کہ میری بیماری شیز و فرینیا جیسی ہے جس میں مریض خود کو صحت مند سمجھتا ہے مگر اس کے دور اور قریب سب دوستوں اور دشمنوں کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ بیمار ہے ۔شیز و فرینیا کا مریض اکثر علاج نہیں کرواتا کیونکہ وہ اپنے آپ کو تندرست سمجھتا ہے جبکہ اسے باقی لوگ پاگل لگتے ہیں۔ شیزوفرینیا کے مریض ہر ایک پر شک کرتے ہیں کسی کے مشورے کو نہیں مانتے، انہیں ایسا لگتا ہے کہ دنیا میں ہر طرف ان کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں وہ چاروں طرف سے گھیرے جا رہے ہیں۔ مجھے کہا جاتا ہے کہ میرا حال بھی شیزوفرینیا کے مریض جیسا ہے مگر میں اس کو کیوں مانوں؟

میرے دوست دشمن متفق ہیں کہ میری بیماری بھارت سے کشمکش ہے، سب سے پہلے امریکیوں نے کہنا شروع کیا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دشمنی ختم ہونی چاہئے پھر چینی بھی یہی کہنے لگے اس بار وزیر اعظم شہباز شریف اور سعودی کرائون پرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں بھارت سے تعلقات کی بحالی پر زور کا نقطہ شامل ہے گویا اب دائرہ مکمل ہو گیا ہے، ہمارے سارے دوست ہمیں ایک ہی بات سمجھا رہے ہیں مگر ہماری بیماری ایسی ہے کہ ہمیں سب غلط لگتے ہیں اور ہم خود کو صحیح سمجھتے ہیں۔

وزیر اعظم بھٹو نے شملہ معاہدہ کیا تو ہم نے اسے بھارتی ایجنٹ کہہ کر پھانسی پر لٹکا دیا، نواز شریف نے مودی کو پاکستان بلایا واجپائی سے معاہدہ کیا تو اسے بھارت کا یار قرار دیکر دیس نکالا دے دیا۔ جنرل مشرف بھارت سے چناب فارمولا کے تحت سمجھوتہ کرنے والے تھے کہ انکے قریبی جرنیلوں نے ہی انہیں نہتا کر کے فارغ کروا دیا۔ ہماری بیماری ہی ایسی ہے کہ ہمیں ہر کوئی غدار، سازشی اور دشمن نظر آتا ہے مگر ہمیں یہ مان لینا چاہئے کہ یہ بیماری ہے اور اگر یہ بیماری برقرار رہی تو ہمیں ہمارے دوست بھی ہمیں چھوڑ جائیں گے اور ہم یک وتنہا رہ جائیں گے۔

ہم تو خیر بیمار ہیں دوسری طرف بھارتی وزیراعظم بھی مذہبی جنون کی انتہا پر ہے اور پاکستان سے بات کرنے کو بھی تیار نہیں، ایسے میں ضروری ہے کہ نواز شریف، آصف زرداری اور ملک کی مقتدرہ، پاکستان کی سب جماعتوں بشمول تحریک انصاف سے مشورہ کر کے پارلیمینٹ کا ایک وفد تشکیل دے۔ چین، امریکہ اور سعودی عرب کو اعتماد میں لے کہ ہم بات چیت کیلئے تیار ہیں اب بھارت پر زور دیا جائے کہ وہ ہم سے بامعنی بات چیت کرے۔ نواز شریف اس وقت بھی پاکستان کے واحد سیاست دان ہیں جن کی وزیر اعظم مودی عزت کرتا ہے ہمیں نواز شریف کو گھر بٹھا کر ضائع نہیں کرنا چاہئے بلکہ ملک کے سب سے بڑے مسائل کے حل کیلئے انہیں آگے لگانا چاہئے۔ تاہم یہ بیماری بھی تب ہی ٹھیک ہو گی جب سیاسی بیماری ٹھیک ہو گی اور اس کیلئے ضروری ہے کہ محاذ آرائی کے بجائے مصالحت کی طرف بڑھاجائے ۔

عثمانی خلافت کے آخری دنوں میں ترکی کو سب دوست دشمن یورپ کا مرد بیمار کہتے تھے مگر ترکوں کو خود اپنی بیماری کا نہ احساس تھا اور نہ وہ اس کا علاج کرنے پر تیار تھے، جرمنی کا بھی یہی حال رہا۔ ترکی اور جرمنی کا قبلہ تو جنگوں میں شکستوں نے بدلا۔ ہمیں اپنی بیماری کا احساس ایسی کسی ہزیمت سے پہلے ہی ہو جانا چاہئے اور ہمیں اپنی پالیسیاں نئے زمانے اور نئے تقاضوں کے مطابق بدلنی چاہئیں۔ نواز شریف، آصف زرداری اور عمران خان تینوں بھارت سے اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں گویا عوامی رائے تو یہی ہے، اس رائے کے بعد کسی اور فیصلے کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے، فیصلے جلدی کریں زمانہ قیامت کی چال چل رہا ہے مگر ہمارے اندر تبدیلیاں بہت کم رفتار سے آ رہی ہیں جس طرح محمد بن سلمان نے تیزی سے سعودی عر ب کو بدلا ہے تضادستان کو بھی ایسے ہی بدلنے کی ضرورت ہے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ