سیاستدانوں کے امتحان ختم ہوتے ہیں نہ آزمائشیں۔ ساتھ ہی سیاستدانوں کے مزے بھی جاری رہتے ہیں۔اب دیکھیے ناں کہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی جناب احسن اقبال کو دوسری وزارت (بین الصوبائی وزارت)کا قلمدان بھی سونپ دیا گیا ہے ۔یہ ان کی مزید اہلیت و قابلیت بھی کہی جا سکتی ہے ۔
احسن اقبال صاحب کی عالمی سطح پر یہRecognisedاہلیت و قابلیت کا کرشمہ ہے کہ وہ28مئی2024 کو Asian Productivity Organization کی جانب سے عطا کیے گئے اعلی ترین ایوارڈ کی وصولی کیلیے کوالالمپور جا رہے ہیں۔یہ دراصل پاکستان کا بھی اعزاز ہے ۔مگر بطورِ سیاستدان جناب احسن اقبال کے امتحانات،8فروری کے انتخابات کے باوصف، ختم نہیں ہو پارہے ۔
اور یہ نیا امتحان ہے ضمنی انتخابات کا۔ 21اپریل2024 کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی 23نشستوں پر ضمنی انتخابات ہونے جا رہے ہیں ۔ قومی اسمبلی کی 6، پنجاب صوبائی اسمبلی کی12، خیبر پختونخوا اسمبلی کی2، صوبائی اسمبلی سندھ کی1اور بلوچستان اسمبلی کی2نشستوں پر ضمنی انتخابات کا یدھ پڑنے جارہا ہے۔
اِن ضمنی انتخابات میں 239امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ اِن میں قومی اسمبلی کی نشستوں کیلیے 50امیدوار مدِ مقابل ہیں۔ نشستوں کے پیشِ نظر دیکھا جائے تو بڑا میدان پنجاب میں سجنے جارہا ہے۔ گویا یہ ضمنی انتخابات سی ایم پنجاب اور وفاقی وزیر جناب احسن اقبال کیلیے ایک بڑی آزمائش سے کم نہیں ہیں ۔ بہت سی نگاہیں اِن ضمنی انتخابات پر مرتکز ہیں ۔
احسن اقبال صاحب 8فروری کے عام انتخابات کی جنگ جیت کر سرخرو ہو چکے ہیں۔ وہ ضلع نارووال میں دو حلقوں پر کھڑے تھے۔ قومی اسمبلی (این اے 76) پر بھی اور صوبائی اسمبلی (پی پی54 تحصیل ظفروال) پر بھی ۔ انہوں نے بھرپور محنت کی اور دونوں حلقوں میں فتح یاب رہے ۔ پہلے ان کا جوڑ معروف گلوکار اور فلنتھروپسٹ (اور پی ٹی آئی کے امیدوار) جناب ابرارالحق سے پڑتا تھا ۔ دونوں بار مگر ابرار صاحب بری طرح شکست کھا گئے۔ 8فروری کے انتخابات میں ابرارالحق بوجوہ نارووال سے میدان چھوڑ گئے تو ان کی جگہ کرنل(ر) جاوید کاہلوں نے لے لی ۔
وہ آزاد مگر( پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ) امیدوار تھے ۔ کرنل کاہلوں پہلے بھی نارووال کے ضلع ناظم رہے ہیں۔ ان کی اہلیہ ( رفعت جاوید) بھی ایک بار نارووال سے ایم این اے منتخب ہو چکی ہیں ۔
یوں کرنل کاہلوں، احسن اقبال کے مقابلے میں، کوئی غیر معروف نام نہیں تھے ۔ 8فروری کو انہوں نے احسن اقبال کو خاصا ٹف ٹائم دیا۔ اور وہ احسن اقبال جو ابرارالحق کے مقابلے میں ستر، اسی ہزار ووٹوں کے فرق سے فتح یاب ہوتے تھے، کرنل کاہلوں کے مقابلے میں 25 ہزار زیادہ ووٹ لے کر جیت سکے ۔
احسن اقبال نے پی پی54(ضلع نارووال کی تحصیل ظفروال) سے بھی خاصے ٹف مقابلے کے بعد اپنی سیٹ نکالی تھی ۔ان کا مقابلہ نوجوان آزاد امیدوار (مگر پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ) چوہدری اویس قاسم سے تھا ۔ چوہدری اویس قاسم ظفروال کے ایک معروف و مقتدر راجپوت خاندان کے سپوت ہیں ۔ان کے والد صاحب اور تایا ماضی قریب میں صوبائی اسمبلی و قومی اسمبلی کے کئی بار رکن اور وفاقی وزیر رہ چکے ہیں ۔
اویس قاسم خود بھی دو بار پنجاب اسمبلی کے ر کن منتخب ہو چکے ہیں ۔ ایک بار نون لیگ کے ٹکٹ پر ۔ اِس بار مگر نون لیگ اور ان کے درمیان ٹھن گئی تھی اور وہ نون لیگی ٹکٹ سے محروم ہو گئے ۔ مجبورا انہیں نون لیگ کے مقابل پی ٹی آئی کی حمایت لینا پڑی ۔ مقابلہ خوب ہوا ۔ ایسا مقابلہ کہ ظفروال میں احسن اقبال کو محض دو ، ڈھائی ہزار ووٹوں کی برتری سے فتح نصیب ہو سکی ۔
ظفروال کی یہ سیٹ خاصی متنازع اور پر شور ہو گئی تھی ۔اویس قاسم چونکہ سابق وفاقی وزیر اور نون لیگی رہنما ،دانیال عزیز، کے گروپ میں شامل تھے اور دانیال عزیز کو بھی خاصے عزیز ، اس لیے دانیال عزیز نون لیگی قیادت سے، 8 فروری کے انتخابات میں،اویس قاسم کے لیے ٹکٹ لینے میں کوشاں تھے ۔ جبکہ احسن اقبال اِس سیٹ پر اپنے صاحبزادے ، احمد اقبال، کو کھڑا کرنے کے شدید خواہش مند تھے ۔ اِسی بنیاد پر دانیال عزیز اور احسن اقبال میں سخت تناو اور تلخیوں نے جنم لیا ۔ دانیال عزیز نے احسن اقبال اور نون لیگ بارے ایسے بیانات کے گولے داغ ڈالے کہ تلخی حد سے متجاوز ہو گئی ۔
نتیجہ یہ نکلا کہ دانیال عزیز کو نون لیگ کا ٹکٹ ملا ، نہ اویس قاسم کو۔ پی پی54، ظفروال میں خود احسن اقبال نون لیگ کے ٹکٹ پر کھڑے ہو گئے ۔ انتخابات کے دوران جب دانیال عزیز اور ان کے اکلوتے صاحبزادے کو پولیس نے پر اسرار طور پر گرفتار کرکے انتخابی مہمات سے دور رکھنے کی کوشش کی توچوہدری اویس قاسم اور دانیال عزیز نے احسن اقبال سے مزید دوریاں اختیار کر لیں۔
اب21اپریل کے ضمنی انتخابات کے لیے پھر اویس قاسم اور احسن اقبال ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ اویس قاسم پی ٹی آئی کی طرف سے اور احسن اقبال کے جواں سال صاحبزادے (احمد اقبال) نون لیگ کی جانب سے ۔ صحیح معنوں میں یہ کانٹے کا مقابلہ ہونے جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر جناب احسن اقبال اپنے صاحبزادے ( جو پہلے بھی نارووال میں ضلع ناظم کی حیثیت میں اچھی خدمات انجام دے چکے ہیں) کو جتوانے کیلیے ایڑھی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں ۔
امریکہ سے اعلی تعلیم حاصل کرکے آنے والے احمد اقبال نے ظفروال میں اپنے لیے کئی دھڑوں کی حمایت حاصل کررکھی ہے ۔مثلا سابق رکن صوبائی اسمبلی میاں رشید اور سابق صوبائی وزیر مذہبی امور پیر سعید الحسن شاہ ان کے بازو بن چکے ہیں۔ ان کی پارٹی صوبے کی حکمران اور ان کے والد صاحب وفاقی وزیر ہیں ۔ پچھلے کئی برسوں کے دوران احسن اقبال نے نارووال شہر میں درجنوں میگا پراجیکٹس کی تکمیل کرکے اہلِ نارووال کے دل جیت رکھے ہیں ۔ یوں احمد اقبال کو اپنے حریف، چوہدری اویس قاسم ، پر بظاہر خاصی سیاسی و سماجی برتری حاصل ہے۔
یہ مقابلہ جیتنا مگر احسن اقبال اور احمد اقبال، دونوں باپ بیٹے کے لیے حلوہ نہیں ہے۔ اویس قاسم کو جیت سے ہمکنار کرانے کیلیے دانیال عزیز، سابق وفاقی وزیر چوہدری طارق انیس اور ان کا گروپ پوری طاقت اور تندہی سے میدانِ عمل میں ہے۔ 8فروری کے انتخابات میں تو پی ٹی آئی سہمی ہوئی تھی۔ اب تو مگر پی ٹی آئی کے حوصلے خاصے بلند ہیں۔ یوں اندازے یہی ہیں کہ پی ٹی آئی کے ووٹرز پوری طاقت کے ساتھ اویس قاسم کی حمایت میں نکلیں گے۔
8فروری کا انتخاب جیتنے کیلیے احسن اقبال کو جتنا زور لگانا پڑا تھا، شائد اب 21اپریل کو اپنے صاحبزادے کے حق میں ضمنی انتخاب جیتنے کیلیے دگنا تگنا زور لگانا پڑے گا۔یہ حلقہ بوجوہ اس قدر مشکل بن چکا ہے کہ 8فروری کے انتخابات کے لیے خود محترمہ مریم نواز شریف کو ظفروال جا کر ایک بڑے جلسہ سے خطاب کرنا پڑا تھا۔ وفاقی وزیر کے صاحبزادہ ہونے کے ناتے احمد اقبال کیلیے کئی آسانیاں بھی ہیں اور کئی مشکلات بھی ۔ آئیے ، دیکھتے ہیں 21اپریل کو احمد اقبال کا اقبال مزید بلند ہو سکے گا یا نہیں !
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس