ایک دوست کی مقدمہ کہانی : تحریر مزمل سہروردی


فواد چوہدری کے ساتھ میرے پرانے مراسم ہیں، یہ میرے والد کے دوست رہے ہیں۔ فواد چوہدری اور میرے والد مرحوم اعظم سلطان سہروردی دونوں پیشہ وکالت سے وابستہ تھے، دونوں کے درمیان اچھے مراسم تھے۔ میں بھی اسی تعلق کی وجہ سے صحافت کے ابتدائی برسوں میں فواد چوہدری کے چیمبر میں بہت جاتا رہا ہوں۔ ہمارے خاندان کے کچھ ذاتی مقدمات میں ہمیں فواد چوہدری کے چیمبر کی مدد بھی حاصل رہی ہے۔ وہ دوستوں کے دوست ہیں، ان کی دوستی پر آپ اعتبار کر سکتے ہیں۔

ان سب تعلقات کے باوجود میرے اور فواد وچوہدری کے درمیان سیاسی سوچ کا اختلاف رہا ہے۔ شاید وہ مجھے قائل نہیں کر سکے اور میں انہیں قائل نہیں کر سکا۔ لیکن اس کے باوجود ان کے ساتھ اور ان کے بھائی فیصل کے ساتھ ایک دیرینہ تعلقات ہیں۔ بلا شبہ فواد چوہدری نے پاکستان کی سیاست میں ایک سیاسی جماعت کی ترجمانی کو ایک نئی جدت اور شکل دی ہے۔

انھوں نے ترجمانی کی رفتار اس قدر تیز کر دی ہے کہ اب کوئی بھی ترجمان اس رفتار سے بھاگ نہیں پا رہا۔ وہ جس جماعت میں رہے ہیں اور شاید اب بھی ہیں کیونکہ اس معاملے میں ابھی ابہام ہے۔ تحریک انصاف کو بھی فواد چوہدری کے بعد ان کا متبادل نہیں مل سکا ہے۔ ان کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔
نو مئی کے بعد فواد چوہدری نے ایک دفعہ سیاست چھوڑنے کا اعلان کر دیا تھا۔ وہ آئی پی پی میں بھی رسمی طور پر شامل ہو گئے تھے۔ لیکن یہ شمولیت اصلی شمولیت نہیں تھی۔ ان کا سیاسی جسم تو شائد آئی پی پی کے پاس تھا۔ لیکن ان کی سیاسی روح وہاں نہیں تھی۔ اس لیے فواد چوہدری نے تو ظاہری اور رسمی طور پر تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کی۔ لیکن ان کی روح اور دماغ تحریک انصاف میں ہی رہ گیا۔ تحریک انصاف چھوڑنے کے بعد وہ ایک زندہ سیاسی لاش سے کم نہ تھے۔

میری اس دوران ان سے ملاقات ہوئی لیکن وہ بے قرار اور اضطراب میں نظر آئے۔ تحریک انصاف چھوڑنے کے بعد مجھے فواد چوہدری ایک ایسی مچھلی لگا جو دریا کنارے بغیر پانی کے زمین پر تڑپ رہی ہوتی ہے۔ زندہ رہنے کے لیے اسے پانی کی تلاش ہوتی ہے، فواد چوہدری بھی اپنی سیاسی زندگی کے لیے تڑپ رہا تھا اور اسے زندہ رہنے کے لیے تحریک انصاف کی ہی ضرور ت تھی۔

اسی لیے فواد چوہدری ایک دفعہ نو مئی کی مذمت کرنے اور سیاست سے علیحدگی اور پھر آئی پی پی جوائن کرنے کے باوجود دوبارہ گرفتار ہو گئے۔ فواد چوہدری کا ایک انوکھا ہی معاملہ ہے۔ ورنہ جس نے بھی ایک دفعہ نو مئی کی مذمت کر دی، اسی معافی مل گئی ہے۔ وہ دوبارہ گرفتار نہیں ہوا۔ ہے۔ سیالکوٹ کے عثمان ڈار کی مثال ہے، اور بھی کئی مثالیں ہیں۔ جس نے نو مئی کی مذمت کر دی، ریاست خوش ہو گئی۔ لیکن فواد چوہدری کے معاملے میں ایسا نہیں ہوا۔ انہیں نو مئی کی مذمت کے بعد بھی گرفتا ر کیا گیا اور کئی ماہ جیل میں رکھا گیا ہے، ان کا کیس اس حوالے سے بھی منفرد ہے کہ تحریک انصاف کے کئی رہنماں کو جیل سے الیکشن لڑنے کی اجازت ملی ہے۔

میاں اسلم اقبال، علی نواز گنڈا پور، پرویز الہی سمیت کئی مثالیں ہیں۔ لیکن فواد چوہدری کی نہ تو اہلیہ اور نہ ہی ان کے کسی بھائی کو الیکشن لڑنے کی اجازت ملی ہے۔ ان کے اوپر ایک سخت قسم کی ریڈ لائن نظر آئی ہے۔ بہر حال پہلی دفعہ کی گرفتاری کے بر عکس دوسری گرفتاری اور لمبی جیل فواد چوہدری نے نہایت حوصلہ اور استقامت سے کاٹی ہے۔ وہ کئی ماہ جیل میں رہے ہیں۔ لیکن جب بھی تار یخ پر آئے مسکراہٹ ان کے چہرے پر نظر آئی۔ پہلی جیل کی نسبت دوسری جیل میں فواد چوہدری ایک سیاستدان کے روپ میں بہتر انداز میں نظر آئے، سیاستدان سیاسی جیل مسکراہٹ سے کاٹتا ہی اچھا لگتا ہے۔

وہ جب مسکراتا ہے تو اس کے کارکنوں کا حوصلہ بھی بڑھتا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ایک لمبی جیل کاٹنے کے بعد بھی فواد چوہدری کی معافی ابھی نہیں ہوئی۔ انہیں پارلیمان سے دور کھ لیا گیا ہے۔ شاید پارلیمان سے دور ہونا تو فواد چوہدری کے لیے اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہوگا، وہ باہر بیٹھ کر بھی پارلیمان سے اچھی سیاست کر سکتے ہیں۔ شائد یہی خوف ان کی معافی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ فواد چوہدری پر مقدمات کی جو فہرست لاہور ہائی کورٹ میں جمع کرائی گئی ہے۔ اس میں لاہور ہال روڈ کا ایک مقدمہ بھی شامل ہے۔ جس میں فواد چوہدری پر الزام ہے کہ وہ لاہورہال روڈ کی دکان سے ایک موبائل، نقدی کی ڈکیتی کر کے فرار ہو گئے ہیں۔

یہ ایف آئی آر اگست 2023کی ہے۔ یہ نگران حکومت کا دور ہے۔ محسن نقوی پنجاب کے وزیر اعلی بن چکے تھے۔یہ کوئی سیاسی دور نہیں تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ یہ موبائل فون اور ساٹھ ہزار روپے کی ڈکیتی کا مقدمہ فواد چوہدری پر درج کرنے کا آئیڈیا کس کواور کیسے آیا۔ کس کو یہ انوکھا خیال آیا کہ فواد چوہدری کو قابو کرنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ ان پر موبائل فون اور ساٹھ ہزار روپے کی ڈکیتی کا پرچہ درج کر دیا جائے۔ ویسے تو باقی بھی جو ایف آئی آر درج کی گئی ہیں، ان میں بھی کوئی خاص جان نہیں ہے۔ لیکن فواد چوہدری کو گلہ نہیں ہونا چاہئے۔ جب وہ اقتدار میں تھے تب ان کے سیاسی مخالفین کے خلاف بھی ایسے ہی مقدمات قائم کیے جاتے تھے۔ اگر اپنے حلقے میں سڑک بنانے پر فواد چوہدری پر مقدمہ ناجائز اورغلط ہے تو احسن اقبال پر اپنے حلقے میں سٹیڈیم بنانے پر مقدمے کا اندراج بھی ناجائز اور غلط تھا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں ایک کمزور دلیل دے رہا ہوں، ایک غلطی دوسری غلطی کو جائز کرنے کا جواز نہیں بن سکتی۔

اگر میں احسن اقبال پر مقدمہ کے خلاف تھا تو مجھے فواد چوہدری پر بھی ایسے مقدمہ کے خلاف ہونا چاہئے۔ اصولی طور پر یہ بات ٹھیک ہے۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا فواد چوہدری کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ ان کے دور میں ان کے سیاسی مخالفین پر غلط مقدمات بنائے گئے تھے۔ سیاسی مخالفین کو چور چور کہنے کی جو رسم شروع کی گئی تھی، وہ گھڑی چور تک پہنچی، موبائل فون چور تک پہنچی ہے۔ سیاسی مخالفین کے بارے میں غیرشائستہ گفتگو کا جو کلچر شروع کیا گیا تھا، اس نے اتنی تلخی بڑھا دی ہے کہ اب فواد چوہدری خود سیاسی درجہ حرارت نیچے لانے کی بات کر رہے ہیں۔

ایک رائے یہ بھی کہ سیاسی درجہ حرارت کو اوپر لیجانے میں ان کا اپنا بھی کلیدی کردار رہا ہے۔ سیاسی طنز میں جو مہارت فواد چوہدری کو حاصل ہے، اس کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہے، ان کا کوئی ثانی بھی نہیں ہے۔ وہ بات ایسے کہتے ہیں کہ سیاسی مخالف کا دل جل جاتا ہے۔ سیاسی لیڈروں نے ہی ملک کا سیاسی ماحول ایسا بنا دیا ہے کہ چلی ہے رسم کہ کوئی سر اٹھا کر نہ چلے۔ لیکن پھر بھی فواد چوہدری پاکستان کی سیاست میں اہم ہیں، ان کو نظام سے باہر کرنے کے باوجود وہ بات کرتے ہیں تو پی ٹی آئی کی موجودہ قیادت سے وہ بات زیادہ وزن رکھتی ہے۔ میڈیا آج بھی ان کی طرف دیکھتا ہے۔

وہ آج بھی تحریک انصاف کے ترجمان ہیں۔ انہیں اس کے لیے کسی عہدہ کی ضرورت نہیں۔ یہ درست ہے کہ ابھی تک بانی تحریک انصاف نے فواد چوہدری کو واپس لینے کا اعلان نہیں کیا ہے۔ لیکن فواد چوہدری کی لمبی جیل سیاسی قربانیاں سب کے سامنے ہیں۔ انھوں نے اپنی غلطیوں کے ازالے کیلیے ایک لمبا لیکن مشکل سفر طے کیا ہے۔ انھوں نے وہ قرض بھی اتارنے کی کوشش کی ہے جوان پر واجب بھی نہیں تھے۔

میں سمجھتا ہوں سیاسی درجہ حرارت گرم بھی انھوں نے کیا تھا، لہذا اس درجہ حرارت کوکم بھی وہی کر سکتے ہیں، ان کے سوا کوئی نہیں کر سکتا۔ ان کی یہی صلاحیت آج ان کی واپسی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ ان کی جگہ جو آگئے ہیں، وہ ان کی واپسی سے خوفزدہ ہیں، یہ فطری بات ہے لیکن فواد چوہدری کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ مقدمات بنانے میں ہم نے بہت ترقی کی ہے، ہم بھینس چوری سے موبائل فون چوری تک پہنچ گئے ہیں۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس