سعودی وفد کی آمد اور سعودی سرمایہ کاری … تحریر : مزمل سہروردی


سعودی عرب کا ایک اعلی سطح کا وفد سعودی وزیر خارجہ کی قیادت میں دو روزہ دورہ مکمل کر کے واپس چلا گیا ہے۔ اس وفد میں سعودی سرمایہ کاری کے لیے سعودی حکومت کے تمام وزیر اور اعلی عہدیدار شامل تھے۔ کہا جا رہا ہے کہ اس سے پہلے سعودی عرب کے اتنے اعلی سطح کے وفد کی پاکستان آمد کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔

یہ دورہ اس بات کا عکاس ہے کہ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کا دورہ سعودی عرب کامیاب رہا ۔ کیونکہ سعودی وفد کا یہ دورہ وزیر اعظم شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب اوروزیر اعظم کی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کے نتیجے میں ممکن ہوا ہے۔

یہ کہا جا رہا ہے کہ اس دورہ میں پاکستان میں نو ارب ڈالر کی سعودی سرمایہ کاری کے لیے معاملات حتمی طور پر طے ہو گئے ہیں اور سعودی عرب پہلے مرحلہ میں پاکستان میں نو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کے لیے تیار ہو گیا ہے۔اگر یہ ممکن ہو جاتا ہے تو یہ کوئی چھوٹی کامیابی نہیں ہے۔ بلکہ اس سے پاکستان کے معاشی بحران کو حل کرنے میں بہت مدد ملے گی۔ پاکستانی معیشت کو ایک بڑا جمپ ملے گا جس کے نتیجے میں معیشت کا پہیہ چلنے میں مدد ملے گی۔
پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری کی بات کئی سال سے چل رہی ہے لیکن عملی طور پر کچھ ممکن نہیں ہو سکا۔ سعودی آئل ریفائنری کی بات بھی تب سے چل رہی ہے جب عمران خان کے دور حکومت میں سعودی ولی عہد پاکستان کے دورہ پر آئے تھے۔اس موقع پر گوادر میں آئل ریفائنری لگانے کی بات ہوئی تھی لیکن ممکن نہیں ہو سکا۔ اس کے بعد عمران خان حکومت نے سعودی حکومت کے ساتھ تعلقات خراب کر لیے اور ساری سرمایہ کاری ڈوب گئی۔

شاید آپ سب کو یاد ہو عمران خان نے اقوام متحدہ کے اجلاس کے سائیڈ لائنز پر ترکی اور ملائشیا کے ساتھ مل کر عربوں کے خلاف ایک اسلامی بلاک بنانے کی پلاننگ کر لی جو سعودی عرب کو بہت ناگوار گزری۔ ترکی اور ملائشیا نے مل کر اس بلاک کا پہلا اجلاس بھی بلا لیا۔ لیکن پاکستان تو اس کے اجلاس میں جا بھی نہیں سکا ۔

کیونکہ پھر عربوں نے پاکستان سے معاشی تعلقات مکمل طور پرختم کرنے کی دھمکی دی اور پاکستان اس کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ اس ناکام سفارت کاری کے نتیجے میں ایک طرف پاکستان کی عالمی سطح پر جگ ہنسائی ہوئی دوسری طرف عرب بھی ناراض ہو گئے۔ شاید آپ سب کو یاد ہو سعودی عرب نے جو ڈالر پاکستان کے اسٹیٹ بینک میں رکھوائے ہوئے تھے وہ بھی فوری واپس مانگ لیے گئے تھے اور پاکستان کو واپس بھی کرنے پڑے تھے۔

یہ سار واقعہ لکھنے کا مقصد یہ یاد کروانا ہے کہ پاکستان نے ماضی میں سعودی سرمایہ کاری کے کئی مواقع کھو بھی دیے ہیں۔ جس کا خمیازہ ہم آج بھگت رہے ہے ہیں۔ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے سعودی سرمایہ کاری کے مواقع سے بہت فائدہ اٹھایا ہے اور وہاں آج بھی سعودی سرمایہ کاری نظر آتی ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ہم نے اپنی غلطیوں سے یہ مواقع کھوئے ہیں۔ پھر پاکستان میں سیاسی عدم استحکام بھی بیرونی سرمایہ کاری کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ رہا ہے۔

جب سے دھرنوں کا رواج شروع ہوا ہے پاکستان میں سیاسی لڑائی اس عروج پر پہنچ گئی کہ یہاں کسی کو سمجھ نہیں آرہی تھی۔ اسی طرح بیرونی دنیا کو بھی پاکستان کی کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی۔ دنیا ہماری لڑائی کا تماشہ دیکھ رہی تھی اور ہماری لڑائی ہی ہماری تباہی کی بنیادی وجہ تھی۔ پاکستان میں جاری سیاسی لڑائی اور ایک دوسرے کی حکومت گرانے نے بھی دنیا کو ہم سے دو کر دیا۔ جس گھر میں لڑائی ہو وہاں کون سرمایہ کاری کرے گا۔

آج پاکستان میں سیاسی استحکام دنیا کو نظر آرہا ہے۔ عام انتخابات کے نتائج کو متنازعہ بنانے کی جتنی بھی کوشش کی گئی وہ سب کوششیں ناکام ہو گئی ہیں۔ دنیا نے پاکستان کے عام انتخابات کے نتائج قبول کر لیے ہیں۔ دنیا پاکستان کی نئی شہباز شریف کی حکومت کے ساتھ چلنے کے لیے تیار نظرآرہی ہے۔

سعودی وفد کا دورہ اس بات کا عملی ثبوت ہے۔ سعودی سرمایہ کاری کا باب جو کئی سال سے بند ہو چکا تھا اب دوبارہ کھل گیا ہے اور سرمایہ کاری کی بات پاکستان نہیں سعودی عرب کی طرف سے کی جا رہی ہے۔شہباز شریف کے دورہ سعودی عرب کے اختتام پر پاکستان نہیں سعودی عرب کی طرف سے سات ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا گیا۔ اب بھی سرمایہ کاری کی بات سعودی عرب کی طرف سے ہی کی جا رہی ہے۔

ویسے تو نگران حکومت میں بھی پاکستان کی جانب سے سعودی سرمایہ کاری کو حاصل کرنے کی بہت کوشش کی گئی۔ لیکن نگران حکومت کو وہ پذیرائی حاصل نہیں ہوئی تھی جو موجودہ حکومت کو حاصل ہوئی ہے۔ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ اسٹبلشمنٹ کی مکمل سپورٹ کے باوجود دنیا نے نگران حکومت کے ساتھ بات نہیں کی۔ اسی لیے انتخابات ناگزیر تھے۔ آج جب انتخابات کے بعد پاکستان میں ایک مضبوط حکومت معرض وجود میں آگئی ہے دنیا اس حکومت کے ساتھ بات کر رہی ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حکومت نے پہلے ڈیڑھ ماہ میں ہی معاشی میدان میں وہ کامیابیاں حاصل کی ہیں جن سے ایک مثبت امید پیدا ہوئی ہے۔ آپ دیکھ لیں ایک ماہ سے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کتنا اوپر جا رہا ہے۔ پاکستان اسٹاک ایکسچینج سعودی وفد کی آمد سے قبل ہی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ کا ہے۔

آئی ایم ایف کا وفد پاکستان سے تیسری قسط کا رویو مکمل کر کے جا چکا ہے اور اس نے تیسری قسط جاری کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ نئے قرض کے معاہدے کے لیے پاکستان کے وزیر خزانہ امریکا پہنچ چکے ہیں۔وہاں سے بھی مثبت خبریں آرہی ہیں۔ ویسے بھی اگر پاکستان اور آئی ایم ایف کے معاملات ٹھیک نہ ہوتے تو پاکستان سعودی عرب کے معاملات بھی آگے نہ بڑھتے۔ بجلی کی قیمت بھی کم ہوئی ہے۔

آپ سب کہہ سکتے ہیں کہ میں پٹرول کی قیمت بڑھنے کا ذکر نہیں کر رہا۔ یہ درست ہے کہ پٹرول کی قیمت بڑھی ہے۔ پٹرول کی قیمت بڑھنے سے مہنگائی بڑھتی ہے۔ لیکن پٹرول عالمی سطح پر مہنگا ہوا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان میں بھی مہنگا ہواہے۔ پٹرول پر اب پاکستان کی حکومت کا کنٹرول نہیں ہے۔ عالمی حالات ایسے ہیں کہ پٹرول مہنگا ہو رہا ہے۔ جیسے عالمی منڈی میں پٹرول سستا ہوگا پاکستان میں بھی سستا ہو جائے گا۔

بہر حال پھر بھی مہنگے پٹرول کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن پھر بھی دیگر معاشی محاذوں پر ملنی والی کامیابیوں کو صرف پٹرول کی قیمت بڑھنے پر نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اگر پاکستان میں سیاسی استحکام اسی طرح قائم رہا تو نہ صرف سعودی سرمایہ کاری بلکہ دیگر ممالک سے بھی سرمایہ کاری بھی پاکستان آئے گی۔ لیکن اگر اندر لڑائی پھر شروع ہو گئی تو پھر کچھ نہیں ہو سکتا۔ اسی لیے میثاق معیشت پر زور دیا جاتا ہے۔ تا کہ معاشی فیصلوں کو سیاسی لڑائی سے دور رکھا جا سکے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس