فلسطین بھی گزشتہ 76سال سے ہماری دلی دعاؤں کا مرکز اسی طرح رہا ہے۔ جیسے مقبوضہ کشمیر کے مظلوم مگر بہادر نوجوان۔ اکثر سوچتا ہوں کہ کروڑوں مسلمان اپنی نمازوں میں دونوں کیلئے رو رو کر التجائیں کرتے ہیں۔ قبول کیوں نہیں ہوتی ہیں۔ کیا ہمارے دل اور دماغ دست دعا بلند کرتے وقت ایک نہیں ہوتے۔ میرا وجدان مجھے ہمیشہ جواب دیتا ہے۔
اسلام کے دامن میں اور اس کے سوا کیا ہے
اک ضرب یداللہی، اک سجدہ شبیری
فلسطینی اور کشمیری ملت اسلامیہ کی کوتاہی، بے حسی اور مسلم حکمرانوں کی اپنے ہی لوگوں پر ظلم و ستم کی قیمت چکارہے ہیں۔ سب سے زیادہ غیر نمائندہ انتظامی قیادتیں مسلم ملکوں میں ہی ہیں۔ غیر مسلم ملکوں میں رہنے سہنے کے سسٹم قائم کیے گئے ہیں۔ قانون کا نفاذ تعزیرات سب کیلئے ایک ہیں۔ طبقاتی تقسیم،قبائلی معاشرے سب سے زیادہ مسلم ملکوں میں ہی ہیں۔ اسلام نے زندگی کے جو اصول صراحت سے بیان کیے ہیں ان پر عمل تو غیر مسلم ملکوں میں اور ان کی صریح خلاف ورزی اسلامی دنیا میں نظر آتی ہے۔ تاریخ گواہی دیتی ہیکہ فلسطینیوں اور کشمیریوں میں جو جرات انکار اور بے تابی اظہار ہے۔ مسلم حکمراں اسکے شدت سے مخالف ہیں۔ وہ آزادی فکر کو برداشت نہیں کرتے ہیں۔ مسلمان بہرہ وروں کی اسی عادت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسری جنگ عظیم کے اتحادیوں نے مشرق وسطی، جنوبی ایشیا میں مسلمان مملکتوں کو اس طرح تقسیم در تقسیم کیا کہ وہاں حکومتیں کسی اسلامی اساس تو کیا عام جمہوری بنیادوں پر بھی استوار نہیں ہونے دیں۔ مختلف قبائل میں اقلیم بانٹ دی گئیں۔ ہمارے حکمران۔ مدبر۔ عسکری طاقتیں براہ راست مغربی اسٹیبلشمنٹ کے زیر نگوں ہیں۔ ہم اپنے تمام عسکری اور اقتصادی مسائل کیلئے واشنگٹن،نیو یارک، لندن،پیرس کے تابع ہیں۔ ہمارے بادشاہوں،حکمرانوں اور رؤسا کے اثاثے، نقدیاں،مغربی بینکوں کی ساکھ بڑھاتے ہیں۔ مغرب کے ممالک اپنے ہاں تو ایک فرد کی جان، مال اور رائے کو تحفظ دیتے ہیں۔ مگر مسلم حکمرانوں کو یہ چھوٹ دیتے ہیں کہ وہ اپنی رعایا پر اظہار، روزگار اور فیصلہ سازی میں شرکت کے دروازے بند رکھیں۔غیر مسلم ممالک اپنے ایک فرد کی بھی کسی غیر ملک میں بے عزتی، نا انصافی برداشت نہیں کرتے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں پوری دنیا میں واویلا مچادیتی ہیں۔ ان تنظیموں کی بغل بچہ شاخیں مسلم ممالک میں بھی ان غیر مسلموں کیلئے آواز بلند کرتی ہیں۔ مگر فلسطینیوں اور کشمیریوں کی کسی نسل کے حقوق اور انصاف کیلئے باہر نہیں نکلا جاتا۔ ان کی پارلیمنٹیں، کانگریسیں، فلسطینیوں اور کشمیریوں کی خود مختاری، آزادی کیلئے کوئی قانون سازی نہیں کرتی ہیں۔ ہولو کاسٹ کی حرمت صرف یہودیوں کیلئے ہے۔ مسلمانوں کے قتل عام پر نہیں۔
مسلم دنیا کو بانٹ دیا گیا ہے۔ فرقوں کو مالی طور پر مضبوط کیا جارہا ہے۔ بنیادی مقصد یہی ہے کہ اس کے بدن سے روح محمد نکال دو۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، ہندوستان،سب ڈرتے ہیں۔
یہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے
فلسطین میں بہتا خون اس وقت دل میں اور زیادہ قیامت برپا کرتا ہے۔ جب اپنے آس پاس بھی نوجوان ہلاک کیے جارہے ہوں۔ جب اپنے شہروں میں بھی بے گناہوں کو انصاف نہ مل رہا ہو۔ جب فرد یہ سوچ رہا ہو کہ 76سال سے میری کشمیر اور فلسطین کیلئے دعائیں بھی مستجاب نہیں ہورہی ہیں۔ اور 76سال بعد ایک آزاد ملک میں۔ اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں ایک پاکستانی شہری کو زندگی کی جو سہولتیں اورجو حقوق میسر ہونے چاہئے تھے۔ وہ نہیں ہیں۔ غور کیجئے۔ مقامی دکھ،علاقائی غم، عالمی تاسف مل کر کیا قہر ڈھاتے ہیں۔
پاکستان کی کروڑوں مائیں، بہنیں، بزرگ، بیٹے،بیٹیاں۔ ان دنوں اسی کرب در کرب کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے مغربی طاقتوں کا فلسفہ یہی ہے کہ چھوٹے ملکوں بالخصوص مسلم ریاستوں کے رہنے والوں کو مقامی مصیبتوں میں اس طرح الجھادو کہ وہ خطوں اور عالمی سطح پر ہونے والی نا انصافیوں کے بارے میں سوچ ہی نہ سکیں۔ مغربی طاقتوں سے استفادہ کرنے والے حکمران طبقے بھی اسی حکمتِ عملی کو آگے بڑھاتے ہیں کہ وہ کسی صوبے۔ کسی شہر میں ایسے حالات پیدا نہیں ہونے دیتے جس میں شہریوں کو ایسی آسودگی مہیا ہوجائے کہ وہ اپنے گھر کی الجھنوں سے ماورا ہوکر اپنے صوبائی یا وفاقی دارالحکومت میں بچھی شطرنج کی چالوں پر توجہ دے سکیں۔ ہمارے تجزیہ کار نا انصافیوں کی کیسی کیسی تاویلیں دے رہے ہوتے ہیں۔ پھر وہی تشریحات، تصاویر اور مناظر کے ساتھ لاکھوں ہاتھوں میں ہر لمحہ آنکھوں کو متوجہ کرتے اسمارٹ فون اسکرینوں پر جلوہ گر ہوتی ہیں اور ایک فرد کے ذہن کو ایسا الجھادیتی ہیں کہ وہ حقیقت کا تعین ہی نہیں کرپاتا۔ علما، فضلا، یونیورسٹیوں کے اسکالرز، یوٹیوبر بن کر لاکھوں ڈالروں کی جھنکار پر مست ہیں۔ انہیں ڈاکوؤں کی ہلاکت خیزی سے اجڑتے متوسط طبقوں کے گھر دکھائی نہیں دیتے۔ جوان بیٹوں کی موت پر بین کرتی مائیں سنائی نہیں دیتی ہیں۔ کراچی میں اگر نوجوان پاکستانی ڈاکوؤں کی بد مستی سے نوجوان انجینئر، ڈاکٹر، بزنس مین لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ پنجاب کے وسطی ضلعوں کے نوجوان یورپ کے سمندروں میں ڈوب رہے ہیں یا بلوچستان میں ہلاک کیے جارہے ہیں۔ بلوچستان کے نوجوان لاپتہ ہورہے ہیں ۔ ان المیوں پر کراچی اور ان اضلاع کے فارم 47والے ارکان اسمبلی کی آواز بلند ہوتی ہے نہ وہ ان کے گھروں میں پرسہ دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ اور نہ کسی اجلاس میں وہ ان جوان موتوں کو آئندہ روکنے کیلئے کوئی قانون سازی کرتے نظر آتے ہیں۔
کیا کوئی محسوس کرتا ہے کہ پاکستان میں زندگی کہیں بھی معمول کے مطابق نہیں ہے۔ بلوچستان، سندھ،پنجاب، کے پی کے، آزاد کشمیر،گلگت بلتستان میں یتیموں، بیواؤں، معذوروں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ ذہنی بیماریاں بڑھ رہی ہیں۔ یہ صورت حال اور ملک گیر نقشہ صرف حکمرانوں اور اداروں کیلئے لمحہ فکریہ نہیں ہے۔ یہ اساتذہ، اسکالرز، محققوں، ادیبوں، شاعروں، ناول نگاروں، علمائے دین سب کیلئے مقام تشویش ہونا چاہئے۔ کہ ایسا نفسیاتی ہیجان قوموں اور افراد سے قوت تخلیق۔ اور اپج(INITIATIVE) کی پہل چھین لیتا ہے۔ یہ تفتیش اور تحقیق اپنی جگہ ناگزیر ہے کہ 76 سال سے اور بالخصوص 1985 سے اب تک سسٹم کو جس طرح توڑ پھوڑ، اور نفی کا ہدف بنایا گیا ہے اس کے ذمہ دار کونسے ادارے ہیں۔ لیکن اسکے ساتھ آئندہ کیلئے روڈ میپ دکھانا۔ اور اس کرب سے راہ نجات کی نشاندہی بھی پوری قوم کا فرض ہے۔ میں بہت سوچ بچار کے بعد بلا خوف تردید یہ کہہ سکتا ہوں کہ اسلامی ممالک بالخصوص پاکستان کو کسی مسیحا یا کسی غیر معمولی قیادت کی نہیں بلکہ ایک سسٹم کی ضرورت ہے۔ جس کے سب پابند ہوں۔ قوانین ،تعزیرات حاکم محکوم سب کیلئے ایک ہوں سسٹم کی تشکیل ماہرین کی ذمہ داری ہے۔ حکمرانوں سے تو اس پر صرف عمل کروایا جائے۔
بشکریہ روزنامہ جنگ