بھارتی جمہوریت اور انتخابات کا مثبت پاکستانی کنکشن : تحریر افتخار گیلانی


گو کہ پاکستان میں تو خود جمہوریت اور انتخابات کا سسٹم ستر سال گذرنے کے باوجود مضبوطی کے ساتھ پٹری پر جم نہیں پار ہاہے، مگر شاید کم افراد کو پتہ ہوگا کہ بھارت ،اپنی جمہوریت کی بنیاد یعنی آئین اور پھر انتخابات میں استعمال ہونے والی ایک اہم چیز ،کیلئے پاکستان کا مرہون منت ہے۔ دسمبر 1946کو جب متحدہ ہندوستان کی آئین ساز اسمبلی وجود میں آئی، تو بھارتی آئین کے خالق معروف دلت رہنما ڈاکٹربھیم راؤامبیڈکر ممبئی سے انتخابات ہار گئے تھے ۔ان کو ہروانے میں سردار ولبھ بائی پٹیل نے اہم کردار ادا کیا تھا۔مگر ایک اور اہم دلت رہنما جوگندر ناتھ منڈل اور حسین شیہد سہروردی کی ایما پر انہوں نے مسلم لیگ کی حمایت سے جسور۔کھلنا سیٹ (حال بنگلہ دیش) سے ضمنی انتخاب لڑا اور کامیاب ہوکرآئین ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے۔ امبیڈ کر کوجتوانے کیلئے مسلم لیگ نے اپنے ممبر سے استعفی لیکر اس سیٹ کو خالی کرواکے ضمنی انتخابات کروائے تھے۔ اسکے بعد ہی ان کو دستور ساز کمیٹی کا چئیرمین بنادیا گیا۔ چھ ماہ بعد جب ریڈ کلف ایواڑ کے تحت جسور۔کھلنا کو مشرقی پاکستان میں شامل کیا گیا، تو کانگریس نے بطور مجبوری ممبئی سے سیٹ خالی کروا کے وہاں دوبارہ انتخابات کروائے اور اسطرح امبیڈکر کی رکنیت اور دستور ساز کمیٹی کی چئیرمین شپ بچ گئی۔ آئین مکمل ہونے اور اس کے نفاذ کے بعد ہونے والے پہلے جنرل الیکشن میں امبیڈکر پھر انتخابات ہار گئے۔ اسکے بعد ایک ضمنی انتخاب میں بھی انہوں نے قسمت آزمائی کی، مگر اس میں بھی انکو شکست ہوئی۔ دوسرے جنرل الیکشن تک وہ دوسری دنیا سدھار چکے تھے۔ بھارت میں کامیابی کے ساتھ ہونے والے متواتر انتخابات کا ایک اور پاکستانی کنکشن یہ ہے کہ ووٹنگ کے وقت ، ووٹر کی انگلی پر جو انمٹ سیاہی لگائی جاتی ہے۔پاکستان کی نیشنل سائنس کونسل کے بانی چئیرمین سلیم الزمان صدیقی اس کے موجد ہیں۔ وہ مسلم لیگ کے اہم رہنما چودھری خلیق الزمان کے برادر تھے اور تقسیم سے قبل کونسل آف سائنٹفک انڈسٹرئیل ریسرچ (سی ایس آئی آر) میں کام کرتے تھے۔ سابق گورنر اور بیورکریٹ گوپال کشن گاندھی جو مہاتما گاندھی کے پوتے بھی ہیں، کا کہنا ہے کہ آئین ساز اسمبلی کے انتخابات سے قبل ہی اس وقت کے برطانوی افسران نے کونسل کے سربراہ شانتی سروپ بھٹناگر سے استدعا کی تھی، کہ ایسا کوئی طریقہ ڈھونڈنکالیں جس سے پتہ چلے کہ کس ووٹر نے اپنا ووٹ کاسٹ کر دیا ہے۔ انہوں نے یہ ذمہ داری اپنے نائب سلیم الزمان کے سپرد کردی۔ بھٹناگر خود بھی ایک معروف کمیسٹ تھے ۔ انہوں نے سلیم الزمان کو سلور کلورائیڈ پر تجربات کرنے کی ہدایت دی۔ بتایا جاتا ہے کہ سلیم الزمان نے سلور کلورائیڈ اور سلور برومائیڈ پر مشتمل کوئی نیا محلول تیار کیا اور تجرباتی مراحل میں معلوم ہوا کہ اس کا نشان خاصا دیرپا ہوتا ہے اور یہ جلد کو کوئی نقصا ن بھی نہیں پہنچاتا ہے۔ اس طرح یہ انتخابی سیاہی تیار ہوگئی۔ تقسیم کے بعد سلیم الزمان تو پاکستان چلے گئے، مگر یہ سیاہی بھارت میں چھوڑ کرگئے، جہاں 1951میں منعقد ہوئے پہلے جنرل الیکشن میں اس کا استعمال کیا گیا اور تب سے اسکا استعمال ہر انتخابات میں ہوتا ہے۔پولنگ بوتھ میں جہاں اب بیلٹ پیپر کی جگہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین ہوتی ہے، اس سیاہی کا ابھی تک کوئی متبادل مل نہیں پایا ہے۔ بھارت میں اب اس سیاہی کو بڑے پیمانے پر صنعتی طور پر تیار کیا جاتا ہے اور کئی درجن ممالک کو برآمد کی جاتی ہے۔ گوپال کشن گاندھی نے تجویز دی ہے کہ اس سیاہی کا نام صدیق انک رکھا جائے، تا کہ اس کے موجد کا نام اس کے ساتھ منسلک رہے۔ مگر موجودہ بھارتی سیٹ اپ میں شاید ہی ان کی تحویز پر کوئی کان دھرے گا۔ کیا پتہ پاکستانی حکمران اس تجویز کو قبول کرکے اپنے ہاں اس کا نام صدیق انک رکھیں۔ بھارت میں سات مرحلوں پر محیط انتخابات کے مراحل یکم جون کو ختم ہونگے۔ اس بار ان کو امید ہے کہ رام مندر کی تعمیر اور جموں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے اور اس ریاست کو دولخت کرنے کے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کو عوام پذیرائی بخش کر ان کو تیسری بار مسند اقتدار تک پہنچائیں گے۔ مگر رائے عامہ جائزوں کے مطابق رام مندر کی تعمیر کا ایشو کچھ زیادہ ووٹروں کو لبھا نہیں پا رہا ہے۔ چونکہ اسکی کچھ اسطرح پبلسٹی کی گئی ہے، کہ عام ووٹر کو لگتا ہے کہ شاید جموں و کشمیر پاکستان کے پاس تھا، اور وزیر اعظم نریندر مودی نے اس کو پاکستان کے قبضہ سے آزاد کراکے بھارت میں شامل کروادیا۔ میرے ایک دوست ممبئی کے مشہور ٹاٹا میموریل کینسر انسٹیٹیوٹ میں اپنے ایک قریبی رشتہ دار کا علاج کروارہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ایک بزرگ خاتون کو پتہ چلا کہ وہ کشمیر سے آئے ہیں، تو اس نے ان سے ہمدردی جتائی اور ان کو بتایا کہ مودی نے آپ لوگوں کو پاکستان سے نجات دلوائی۔ وہ انتہائی معصومیت کے ساتھ ان کو ناشتہ پانی پیش کرکے ، ان کو جتاتی تھی کہ اسکو مودی کا یہ قدم پسند آگیا، کہ اس کے کشمیر کے معصوم عوام پر ہو رہی زیادتیوں کو ختم کرواکے ان کو بھارت کے ساتھ ملادیا۔ یہ تو ممبئی جیسے شہر کی بڑی بی کا حال ہے، مگر جو ساتھی ملک کے طول و عرض میں انتخابات کی کوریج کے سلسلے میں سفر کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اسی طرح کا پروپیگنڈا دیہی علاقوں میں بھی واٹ از اپ یونیورسٹیوں کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ ایسا ماحول بنایا جا رہا ہے ، جیسے 1971میں اندرا گاندھی نے پاکستان کو دولخت کرکے بنگلہ دیش بنا لیا تھا۔ عوام کو بتایا جاتا ہے کہ پہلے ان کا کشمیر جانا ناممکنات میں تھا، جس کو مودی نے ممکن بنادیا۔ سرینگر کے لال چوک پر کسی کو کھڑا کرکے اسکے ہاتھ میں ترنگا جھنڈ ا دیکر کیپشن لگائی جاتی ہے کہ کیا یہ اگست 2019سے پہلے ممکن تھا؟اسی طرح ایک ایپ سنگھٹن رپورٹنگ اینڈ اینالیسس (سرل) کے ذریعے ہر روز 58لاکھ افراد کی برین واشنگ کی جا رہی ہے۔ 370ایسے کال سینٹر پارٹی نے قائم کئے ہیں، جہاں عوا م کو نظریاتی طور پر انگیج کیا جاتا ہے۔و زیر اعظم تو خود انتخابی تقاریر میں مسلم حکمرانی کے دوران ہندوں کے ساتھ ہونے والی مبینہ ناانصافیوں کو اجاگر کر مذہبی پولرائزیشن کو ہوا دیکر ایک طرح سے ہندوں کو مسلمانوں کے خلاف انتقام لینے پر اکساتے ہیں۔ 12ویں اور 16ویں صدی کے درمیان ہندوستان پر حملوں، اور 1947 میں بھارت اور پاکستان کی تقسیم، ملکی تاریخ کے اہم واقعات ہیں۔ ہندو قوم پرست انہیں تاریخی صدمات کے طور پر بیان کرتے ہیں، اور ہندو اکثریت میں غصے، خوف اور اضطراب کی داستانیں پیدا کرنے کے لیے ان کا انتخابات میں کھل کر استعمال کیا جا رہا ہے۔بی جے پی کے جاری کردہ انتخابی منشور میں ہندو مذہب کی قدیم عظمتوں اور اقدار کو بحال کرنے کے علاوہ بھگوان رام اور اس سے منسلک رامائن کے پیغام کو عام کرنے کاوعدہ کیا گیا ہے۔ یعنی اس بار عوام سے قدیم بھارت کی شان کو بحال کرنے کے وعدے پر ووٹ لئے جار ہے ہیں۔ بھارتی سفارت کاری کے اخلاقی آئیکن یا مورال کمپاس کے بطور مہاتما گاندھی اور مہاتما بدھ کو استعمال کیا جاتا تھا۔ بی جے پی کے منشور کو پڑھ کرمحسوس ہوتا ہے کہ ان کی پاور میں واپسی کے بعد یہ جگہ بھگوان رام کو دی جائیگی۔

بشکریہ روزنامہ 92 نیوز