سیاسی تحریکیں، تاریخ کے تناظر میں : تحریر مظہر عباس


بدقسمتی سے اس ملک کی سیاست گیٹ نمبر4 سے شروع ہو کر کورٹ نمبر 1 پر ختم ہو جاتی ہے اور اب تو یہ مدت سے عدت پر آ گئی ہے۔ ایسے میں سیاسی تحریکوں کے سیاسی اہداف بھی بدل گئے ہیں۔ پہلے تحریکوں، جلسے، جلوسوں کے انداز مختلف ہوتے تھے، وقت کے ساتھ ان میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں۔پچھلے چند سال میں ایک تحریک ہمیں سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف دیکھنے کو ملی جسکی قیادت مولانا فضل الرحمان نے کی تھی مگر وہ اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک مومنٹ (پی ڈی ایم) اختلافات کا شکار رہا۔ مولانا کی اپنی لائن تھی، شریفوں کی اپنی اور آصف علی زرداری صاحب کی اپنی۔ مگر خان صاحب نے خود اتنی غلطیاں کیں کہ کسی مخالف تحریک کی ضرورت ہی نہیں محسوس ہوئی۔ اس کا اعتراف خود انکے اپنے بہت سے ساتھی کرتے ہیں۔ آج انکے قریبی ساتھیوں میں شائد ہی کوئی انکےساتھ اس مشکل وقت میں کھڑا ہو، عثمان بزدار سے لے کر (جس کیلئے انہوں نے نجانے کس کس سے ناراضی مول لی بشمول سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے) عمران اسماعیل تک۔ ایسے میں ہم نے دیکھا کہ پی ڈی ایم اور نہ ہی پی پی پی الگ یا مشترکہ طور پر کوئی مہم چلا سکیں اور آخر میں وہ استعمال ہوئیں تو عمران باجوہ اختلافات کی وجہ سے ،عدم اعتماد کی تحریک آئی بھی اور کامیاب بھی ہوئی ۔ان جماعتوں کے ساتھ مل کر جنکے خلاف یہ اتحاد بنا تھا وہی ایم کیو ایم، وہی بلوچستان عوامی پارٹی، مسلم لیگ( ق) کا ایک گروپ اورکچھ پی ٹی آئی کے منحرفین ،عمران خان جس ہائبرڈ نظام کے تحت لائے گئے تھے اسی کے تحت ہٹا دیئے گئے فرق صرف اتنا آیا کہ کل تک جو شریف اور زرداری اس نظام کے خلاف بو ل رہے تھے وہ اسکا حصہ بن گئے ۔

عمران خان کیلئے اقتدار سے بے دخلی خوش قسمتی ساتھ لائی اور پی ڈی ایم خاص طور پر مسلم لیگ(ن) اور انکے سربراہ تین بار کے وزیراعظم نواز شریف کیلئے بدقسمتی، اقتدار ملا بھی توایسا جس نے 16ماہ میں مسلم لیگ (ن) کی مقبولیت کا گراف اس حد تک گرا دیا کہ آج حکومت میں ہوتے ہوئے بھی وہ حکومت کرتے نظر نہیں آتے۔ تاہم جہاں حکومت ناکام نظر آئی وہاں تحریک انصاف بھی موثر تحریک نہ چلا پائی۔ دو بار دھرنے کی کال دی گئی مگر خاطر خواہ نتیجہ حاصل نہیں ہوا۔ پھر سب سے بڑی سیاسی غلطی پنجاب اور پختونخوا کی اپنی ہی حکومتوںکا خاتمہ اور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنا ،پنچاب کے تجربہ کار وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الہٰی کے منع کرنے کے باوجود۔ عین ممکن تھا کہ اگر پنجاب اور کے پی کی حکومتیں پی ٹی آئی کے پاس ہوتیں تو 9مئی نہ ہوتا اور ان دو صوبوں میں نگراں حکومتیں بھی ان ہی کی مرضی کی ہوتیں۔ اسمبلیاں وقت پر تحلیل ہوتیں خیر وہ ہوئیں بھی مگر الیکشن آئین کے مطابق وقت پر نہ کرائے گئے یعنی اگست میں تحلیل ہونے کے بعد لازمی تھا کہ انتخابات نومبر کے پہلے ہفتے میںہوتے۔

عمران خان یا پی ٹی آئی کی بڑھتی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ پی ڈی ایم اور پی پی پی کی16ماہ کی ناقص کارکردگی خاص طور پر ناقابل برداشت مہنگائی ہے۔پی ٹی آئی کو سب سے زیادہ سیاسی نقصان 9مئی سے ہوا مگر جس طرح پی ٹی آئی کے خلاف کریک ڈاؤن ہوا۔ ان سب حربوں نے دور آمریت کی یاد تازہ کر دی۔ بات یہیں تک رہتی تب بھی غنیمت تھی۔ پھر ایک سلسلہ چلا کہ کس طرح کے الیکشن کرائے جائیں۔ میاں نواز شریف تین سال بعد واپس آئے تو انہیں خود بھی اندازہ ہو گیا کہ زمینی حقائق عمران کے حق میں جا چکے ہیں جس کی وجہ خود انکےبھائی کی حکومت ہے۔ اب عمران نااہل قرار پایا، سزا بھی ہوئی، پارٹی توڑی بھی گئی، سب سے بڑھ کر انتخابی نشان ’بلا ‘بھی لے لیا گیا ۔مگر جو کچھ 8فروری 2024کو ہوا وہ دراصل ووٹ کی عزت تھی پھر جو 9فروری کو ہوا وہ ووٹ کی اور ووٹر کی بے عزتی تھی۔ جو جتوائے گئے انہیں بھی پتا ہے اور جو ہروائے گئے وہ ہار کر بھی جیت گئے۔

اب پی ٹی آئی نے چھ سیاسی جماعتوں کا اتحاد تو بنا لیا ہے اور اسکی سربراہی پختون قوم پرست لیڈر محمود خان اچکزئی کے پاس ہے اور اسکے تحت تحریک بحالی آئین کا آغاز بلوچستان سے ہوگیا ہے اس کا بظاہر ہدف عمران خان کی رہائی اور حکومت کا خاتمہ نظر آتا ہے مگر تحریکیں واضح روڈ میپ کےبغیر کامیاب نہیں ہوتیں، خاص طور پر اگر وہ اپنے وقت کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ہوں۔ تاہم اگر یہ اتحاد کوئی موثر پریشر بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو حکومت دباؤ میں آ سکتی ہے اور اس کیلئے آئی ایم ایف اور آئندہ بجٹ بنانا آسان نہ ہو گا۔ بظاہر اس تحریک کا حکومت اور اپوزیشن کیلئے چیلنج پنجاب میں ہو گا جہاں مریم نواز صاحبہ کی حکومت ہے۔ اپوزیشن ایک ایسے موقع پر جلسوں کا پروگرام تشکیل دے رہی ہے جب 21 اپریل کو ضمنی الیکشن قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی خالی نشستوں پر ہو رہے ہیں۔ یاد رکھیں ایک ناخوشگوار واقعہ یا ریاستی جبر تحریکوں میں جان ڈال دیتا ہے۔ یہ ہی مریم نواز صاحبہ اور پی ڈی ایم حکومت کا امتحان ہو گا۔پی ٹی آئی اور اپوزیشن اتحاد کا اصل امتحان اپنے حامیوں کو لانا اور کنٹرول کرنا ہو گا۔

ماضی میں تین بڑی سیاسی تحریکیں چلیں ، جن میں دو کے نتیجے میں مارشل لا آیا۔ 1968 میں راولپنڈی کے پولی ٹیکنک کے طالب علم عبدالحمید کی پولیس فائرنگ سے شہادت نے اس وقت کے طاقتور ترین حکمران ایوب خان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا مگر چونکہ آمر آخر کار آمرہوتا ہے اس نے اقتدار ایک اور جنرل یحییٰ خان کے حوالے کیا اور یوں اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کو روند ڈالا۔

دوسری بڑی سیاسی تحریک 1977 میں چلی غالباً مارچ میں مگر ا س میں جان اپریل 77 میں اس وقت پڑی جب 9 اپریل کو لاہور میں فائرنگ سے کئی افراد ہلاک ہوئے اور بعد میں فوج نے گولی چلانے سے انکار کر دیا ور پانچ جولائی کو مارشل لا لگ گیا۔

تیسری اور میرے نقطہ نظر سے سب سے کامیاب تحریک 1983میں تحریک بحالی جمہوریت کے نام سے چلی جس کا زیادہ اثر سندھ میں نظر آیا جس کی بڑی وجہ 1979 میں بھٹو کی پھانسی تھی۔ اس نے جنرل ضیاء کو اتنا کمزور کر دیا کہ اسے 1985میں غیر جماعتی بنیادوں پر انتخابات کروانا پڑے۔

آج کا سبق بھی اور تاریخ کا سبق بھی یہی ہے کہ 1973 کا آئین اور ہائبرڈ نظام ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ یہ آواز جتنی طاقتور ہو گی اتنا جمہوریت کو فائدہ اور آئین کو تحفظ حاصل ہو گا ورنہ ذمہ داری سیاستدانوں پر ہی عائد ہو گی کیونکہ دوسرے تو احتساب سے بالاتر ہیں۔

بشکریہ روزنامہ جنگ