ایران اسرائیل لڑائی کا مستقبل : تحریر مزمل سہروردی


ایران نے اسرائیل پر تقریبا تین سو میزائل داغ دیے۔ ایران اور اسرائیل کے درمیان یہ پہلی براہ راست جنگ ہے۔ ورنہ اس سے پہلے کبھی ایران نے اسرائیل کی سرزمین پر حملہ نہیں کیا ہے۔ ایران نے یہ میزائل حملہ اسرائیل کی جانب سے شام میں ایرانی سفارتخانہ پر حملہ کے جواب میں کیا ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل پر تین سو میزائل فائر کرنے پر ایران اسرائیل کے خلاف جنگ کا یہ پہلا مرحلہ جیت گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ تین سو میزائل مارنے کے بعد ایران نے اعلان کیا ہے کہ وہ اب اسرائیل پر مزید حملہ نہیں کرے گا اور اس کی طرف سے بات ختم ہے۔ لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کیا اسرائیل کی طرف سے بات ختم ہے۔اب دیکھنا تو یہ ہے کہ اسرائیل اس کا کیسے اور کب جواب دیتا ہے۔ کیا اسرائیل خاموش رہتا ہے یا وہ بات کو بڑھاتا ہے۔

بہت سے دوستوں کی رائے میں ایران نے اسرائیل پر حملہ کر کے امت مسلمہ کی قیادت کو حاصل کر لیا ہے۔ میں نہیں سمجھتا ایسی کوئی بات ہے۔ چھ ماہ سے غزہ میں فلسطینیوں کا قتل عام جاری ہے۔اسرائیل نے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی شروع کر رکھی ہے، بچے ما ردیے ہیں، اسپتالوں پر بم باری کی ہے، نوجوان مار دیے ہیں لیکن ایران نے فلسطینیوں کے لیے ایک بھی میزائل فائر نہیں کیا۔

بلکہ ہم نے ایران کی طرف سے اس سارے معاملے پر کافی خاموشی بھی دیکھی ہے۔ ایران نے اسرائیل پر تب حملہ کیا ہے جب اسرائیل نے ایران کے سفارتخانہ پر حملہ کر کے ایرانیوں کو مارا ہے، ایرانی جنرل کو مارا ہے۔ اس نے فلسطینیوں کے لیے اسرائیل پر حملہ نہیں کیا تھا۔ یہ درست ہے کہ صرف ایران ہی خاموش نہیں رہا بلکہ سارے مسلم ممالک خاموش رہے ہیں۔ ترکی اور طیب اردگان بھی خاموش رہے ہیں، سعودی عرب اور تمام عرب ممالک بھی خاموش رہے ہیں۔ اس لیے صرف ایران کو خاموش رہنے پر اکیلے تنقید کا نشانہ بنانا درست نہیں۔ البتہ یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ ایران کی طرف سے حالیہ حملے کا فلسطین اسرائیل جنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ایران نے جو تین سو میزائل مارے وہ اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے لیے کوئی اچانک نہیں تھے۔ وہ اس حملے کے لیے مکمل تیار تھے۔ اب تو ایران بھی مان رہا ہے کہ اس نے اس حملے سے پہلے امریکا سمیت بہت سے ممالک کو اعتماد میں لیا۔ انھیں بتایا کہ ہم اسرائیل پر میزائل مارنے لگے ہیں۔ اسی لیے دنیا کو معلوم تھا کہ ایران کب اور کتنے میزائل مارے گا۔ اس لیے یہ حملہ اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کے لیے کوئی سرپرائز نہیں تھا۔ شاید اسی لیے دوسری طرف بھی تیاری مکمل تھی۔ کہا جا رہا ہے کہ نناوے فیصد میزائل راستے میں تباہ کر دیے گئے ۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں میزائل مارنے کے بعد بھی اسرائیل کا کوئی جانی نقصان سامنے نہیں آیا۔ کوئی بڑا فوجی نقصان بھی سامنے نہیں آیا ہے۔ یہ درست ہے کہ پانچ ممالک امریکا، برطانیہ، فرانس، اردن اور اسرائیل کی فضائیہ نے ملکر ان میزائلوں کو اسرائیل جانے سے روکا ہے اور ان میزائلوں کو راستے میں تباہ کر دیا ہے۔ لیکن یہ بھی دیکھیں کہ پانچ ممالک کو اس حملہ اور اس کی شدت کا بخوبی اندازہ تھا اور وہ فضا میں اس کو روکنے کے لیے تیار تھے۔

کیا یہ سوال اہم نہیں کہ ایک طرف تو ایران اسرائیل پر میزائل مارنا چاہتا تھا دوسری طرف اس کی یہ بھی کوشش تھی کہ معاملہ زیادہ بڑھ نہ جائے۔اس لیے ایران کو اندازہ تھا کہ اگر اسرائیل کا زیادہ نقصان نہیں ہوگا تو معاملہ زیادہ نہیں بڑھے گا بلکہ کنٹرول میں رہے گا۔ لیکن پھر یہ سوال بھی اہم ہے کہ ایک دو میزائل بھی مارے جا سکتے تھے۔ تین سو مارنے کی کیا ضرورت تھی۔ کیا ایران کو اندازہ تھا کہ ان کو روکا جائے گا اور اس کی کوشش تھی کہ کچھ تو اسرائیل پہنچیں گے۔دونوں طرف کے دلائل مضبوط ہیں۔ بہرحال ایک طرف ایران نے حملہ کیا ہے دوسری طرف یہ سفارتکاری سے کوشش بھی کی ہے کہ معاملہ ایک حد سے زیادہ نہ بڑھ جائے۔

اسی لیے اس حملہ کے فوری بعد سلامتی کونسل کے اجلاس میں ایران کے خلاف کوئی قرارداد پاس نہیں ہو سکی ہے۔ یہ اجلاس اسرائیل کی درخواست پر بلایا گیا تھا۔ لیکن سلامتی کونسل میں کوئی ایسا ماحول نہیں تھا کہ فوری طور پر ایران کی مذمت کی قرارداد منظور ہو جائے۔

ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایران کی کامیاب سفارتکاری کی وجہ سے سلامتی کونسل میں ایسا ماحول نظر نہیں آیا کہ فوری قرارداد منظور ہو جائے۔ لیکن یہ بھی اہم ہے کہ ایران کے حملہ کے بعد اسرائیل کے حامی ممالک کی جانب سے تو ایران کی بھر پور مذمت کی گئی ہے لیکن اسلامی ممالک نے بہت محتاط زبان استعمال کی ہے۔

امریکا اور مغربی ممالک نے ایک اور دلچسپ موقف لیا ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل نے ایران پر حملہ کیا تو مغربی ممالک امریکا سمیت اس حملہ کا حصہ نہیں بنیں گے۔ لیکن اگر ایران نے اسرائیل پر حملہ کیا تو اسرائیل کا دفاع ضرور کیا جائے گا۔ اس لیے ایران سے اگر کوئی اب حملہ ہوگا تو اس کا پھر دفاع کیا جائے گا۔ تاہم اسرائیل کے ساتھ مل کر ایران پر حملہ نہیں کیا جائے گا۔

اب دیکھا جائے تو اسرائیل کو ایران پر حملہ کرنے کے لیے کسی مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے صرف اپنے دفاع میں مدد کی ضرورت ہے جو موجود ہو گی۔ یہ صورتحال اسرائیل کو ایران پر حملہ کرنے کی سہولت کاری فراہم کرتی ہے۔ ایران کے پاس ابھی ایسے کوئی اتحادی نہیں ہیں جو اس کے دفاع کے لیے اس کے ساتھ کھڑے ہوں۔

لیکن زیادہ بڑا سوال یہ ہے کہ اب اسرائیل کیا کرے گا۔ ایک رائے تو یہ ہے کہ اب اسرائیل کم از کم ایران کی طرف سے خاموش ہو جائے گا۔ اب اسرائیل دوبارہ ایران سے الجھنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ لیکن میرے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر دیکھا جائے تو غزہ میں اسرائیل نے جو فتوحات حاصل کی تھیں ایران کے حملہ نے اسرائیل کے اندر اس کا اثرضایع کر دیا ہوگا۔ اسرائیلی حکومت کی فتح ختم ہو گئی ہوگی۔

اس لیے اسرائیل کا ایران کو جواب دینا میری نظر میں ضروری ہوگا۔ اس لیے میں معاملہ کو ختم نہیں سمجھتا۔ اسرائیل جوابی حملہ کرے گا۔ کب، یہ سوال اہم ہے اگر ایران جواب دینے میں دس دن لے سکتا ہے تو تو اسرائیل بھی کچھ دن لے سکتا ہے۔ لیکن جواب تو دے گا۔ کیا فلسطین کے بعد اب ایران کی باری ہے۔ کیا عراق لیبیا کی طرح ایران کے ساتھ جنگ کا بھی فیصلہ ہو گیا ہے اور اس کے لیے ماحول بنایا جا رہا ہے۔ کیا اسرائیل کو مغرب بالخصوص امریکا کی جانب سے یہ اشارہ ہے کہ ایران پر لڑائی شروع کر دو، ہم تمھارا دفاع کریں گے۔اگر ایسا ہے تو جنگ پاکستان کے بارڈر پر آگئی ہے۔

اب اسرائیل کا جواب کتنا شدید ہوگا۔ اگر اسرائیل بھی جواب میں تین سو میزائل ہی مارتا ہے تو ایران کے پاس ان تین سو میزائل کو روکنے کے استطاعت نہیں ہوگی۔

ایران کے لیے کوئی پانچ ممالک بھی ان کو نہیں روکیں گے۔ تب کیا ہوگا۔ لیکن ساری صو رتحال اگلے چند دن میں واضح ہو جائے گی۔ اگر واقعی ایران سے جنگ کا فیصلہ ہوگیا ہے تو پھر ایران نے فلسطین جنگ میں خاموش رہ کر غلطی ہی کی۔ انھیں اندازہ ہونا چاہیے تھا کہ اگلی باری ان کی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حزب اللہ فلسطین اور حماس کی دفعہ تو خاموش رہی ہے۔ لیکن کیا ایران کی دفعہ خاموش رہے گی۔ یہ بھی دیکھنے کی بات ہے۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس